فیس بک
آج کل فیس بک ہر کسی کے لیے لازم و ملزوم ہو چکی ہے
آج کل فیس بک ہر کسی کے لیے لازم و ملزوم ہو چکی ہے ۔بہت عرصہ پہلے جب پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جا رہا تھا تو آسٹریلوی صحافی بھی میچ کی کوریج کے لیے موجود تھے، راقم الحروف، حسن جلیل اور چشتی مجاہد کے ساتھ کمنٹیٹر کے طور کمنٹری باکس میں تھا اور شکیل الرحمان اسکورر تھے ۔
کمنٹری تو جیسی تیسی رہی ،پہلے دن کے کھیل کا اختتام ہوا اور ابھی ہم اسٹیڈیم سے باہر نہیں نکلے تھے کہ شکیل الرحمان نے عجیب بات بتائی ،کہنے لگے کہ آسٹریلوی صحافی بڑی لمبی لمبی چھوڑ رہا ہے، پوچھا کیا کہہ رہا تھا؟شکیل الرحمان گویا ہوئے کہ صحافی موصوف کے پاس ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا کہتا ہے کہ اس نے پہلے دن کی خبر آسٹریلیا بھیج دی ہے اور کنفرمیشن بھی آ گئی ہے کہ خبر اس کے دفتر میں موصول ہو گئی ہے۔پاکستانی صحافیوں نے انگریزی میں خبر ٹائپ کی اور اسے اسٹیڈیم میں قائم پی ٹی سی ایل جو اس وقت پاکستان ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف محکمہ ہوا کرتا تھاکے بوتھ میں ایک آپریٹر کے حوالے کی جو اسے ٹائپ کر کے ٹیلکس کے ذریعے بھیجے گا۔
دوسری طرف اردو میں جو خبریں ہاتھ سے لکھی گئی تھیں انھیں بھی فیکس کیا جا رہا تھا کیونکہ اردو ٹائپ کرنا کسی بھی اسپورٹس جرنلسٹ کو نہ آتا تھا اور ان دنوں زیادہ تر رومن میں لکھ کر ہی خبر ٹیلکس کے ذریعہ بھیج دی جاتی تھی تاہم فیکس نے یہ مشکل کسی طور آسان کر دی اور سب اپنی خبریں ہاتھ سے لکھ کر فیکس کردیا کرتے تھے یہ خبر ہیڈ آفس تک پہنچانے کا تیز ترین ذریعہ بھی تھا لیکن آسٹریلوی صحافی نے خبر نہ فیکس کی اور نہ ہی ٹیلکس آپریٹر کو دی پتہ نہیں کیسے بھیج دی؟سبھی کو چھوٹا ڈبہ دیکھنے کا اشتیاق ہوا اور اگلے دن ہم ڈبہ دیکھ کر بڑے حیران بھی ہوئے نام پوچھا تو پتہ چلا کہ اس ڈبے کو لیپ ٹاپ کہتے ہیں اور موصوف نے خبر ای میل کے ذریعے بھجوائی جو اگلے دن شایع بھی ہوئی۔
شاید تیس بتیس برس پرانی بات ہو گی جو اس لیے یاد آئی کہ اب تو موبائل ٹیلی فونز کا دور ہے اور ترقی کرتے زمانے نے مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے ۔خاص طور پر فیس بک نے ساری دنیا کو ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے۔اس کے علاوہ انسٹا گرام، وٹس ایپ، میسنجر اور نجانے کیا کیا ہے جو نئی نسل کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ نئی نسل کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کے احباب بھی فیس بک اور وٹس ایپ سے خوب لطف اٹھا رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک مجھے بھی فیس بک استعمال کرنے کا زیادہ علم نہ تھا اور جو بھی فرینڈ ریکوئسٹ آتی اسے ا وکے کر دیتا بعد میں پتہ چلا کہ ہزاروں فرینڈ بک دوست بن گئے جنھیں اب کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوں دوست احباب بھی بتاتے ہیں کہ انھوں نے جو ہزاروں دوست بنائے ان میں اکثریت خواتین کی تھی مگر ڈراپ سین بھی جلد ہو گیا کہ خواتین بن کر دوستی کرنے والی خواتین نہیں بلکہ مرد اور خاص طور پر نوجوان تھے ایسی بے شمار مثالیںہیں البتہ تازہ ترین مثال چیف جسٹس آف پاکستان کی ہے جن کے نام سے فیس بک اکاؤنٹ کسی نے کھول رکھا تھا اور اب چیف جسٹس آف پاکستان کے ترجمان نے نہ صرف اس اکاؤنٹ سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے بلکہ ایف آئی اے کو حکم بھی دیا ہے کہ و ہ معلوم کریں کہ یہ اکاؤنٹ کس نے کھولا اور اسے کون آپریٹ کررہا ہے۔آج ہم بھی فیس بک کا رخ کرتے ہیں جہاں ہزاروں پوسٹس میںسے چند پوسٹس پڑھتے ہیں ،شعر و شاعری کا لطف اٹھاتے ہیں اور لطیفوں سے دل بہلاتے ہیں۔ بہت پرانے مہربان افضل بخاری کی پوسٹ ہے کہ
"اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے،اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی ہے؟ "شکر ہے بخاری صاحب نے ٹیلی وژن نہیں دیکھا ورنہ انھیں پتہ چلتا کہ اخبار پڑھنے سے پہلے سب دھواں دھواں ہو چکا ۔امجد خان نے ایک رکشہ پر لگا پوسٹر پوسٹ کیا ہے جس پر تحریر ہے کہ "ہارن آہستہ بجائیں قوم سو رہی ہے"۔شاید انھیں وہ دن یاد آگئے جب سیاح سیر کے لیے کالام جایا کرتے تھے تو جگہ جگہ یہ لکھا پڑھنے کو ملتا تھا کہ آپ آرام سے سو جائیں پولیس جاگ رہی ہے اور اب بالکل ٹھیک کہا کہ قوم کو نہ جھنجوڑئیے اسے سونے ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔
پاکستان کے صف اول کے اداکار رشید ناز کی پوسٹ ہے کہ" جھوٹ بول کے جیت جانے سے سچ بول کر ہار جانا بہتر ہے "یقیناً ان کے ذہن میں سیاست دان ہوں گے جو انتخابات سے قبل ملک و قوم کے لیے بہت کرنے کے اتنے وعدے کرتے ہیں کہ جیتنے کے بعد ایک بھی پورا نہیں کر پاتے اب اگر وہ پہلے ہی سچ بول دیں تو پھر جو ووٹ ملنے ہیں وہ بھی نہ ملیں کہ قوم کا مزاج بھی تو بدل چکا ہے۔شاہد زمان کی پوسٹ پر غور کیجیے کہتے ہیں'' جس ملک میں واٹر کولر پر رکھے گئے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے،لوگوں کو سجدوں میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو وہاں صدر ،وزیر اعظم یا گورنروں کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے ۔
تبدیلی کے لیے ہر انسان کو اپنا اخلاقی کردار بدلنا ہو گا'' درست کہا لیکن یہ بھی تو سوچئیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے فلاحی ملک تو نہیں؟یہاں انسان تو تب بدلے گا جب اسے بدلنے کے لیے اسلام میں بتائے گئے راہ نما اصولوں پر چلنے دیا جائے گا!وگرنہ فلاح کے نعرے لگانے والے ساری دولت سمیٹ کر چلتے بنتے ہیں اور انسان پھر بھی انھی کے لیے ڈنڈے سوٹے لیے جان دینے سڑکوں پر آنے کو ہی فخر جانتا ہے۔عمران میر سینئر صحافی ہیں ان کی پوسٹ ہے " کوئی تو روک لو ان کو 12 منٹ کی 26 ہیڈ لائنز دے کر صحافت کی معراج کو چھونے پر سب ٹی وی انتظامیہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد" یقیناً آپ نے نتیجہ اخذ کر لیا ہو گا کہ ہمارے ٹی وی چینلز ملک و قوم کی کیا کمال خدمت کا نیک فریضہ انجام دے رہے ہیں پہلے ہیڈ لائنز کی دو چار خبروں سے دو چار بار ہی دل دہلتا تھا اب ظالم بارہ منٹوں تک اتنا دل دہلاتے ہیں کہ توبہ استغفار مگرکوئی پوچھنے والا نہیں !ایک اور دل جلے نے قوم کی وضاحت کچھ یوں کی ہے" پہنچی ہوئی قوم کے عنوان سے لکھا ہے کہ ووٹ نواز شریف کو دیتی ہے،جلسے عمران کے اٹینڈ کرتی ہے۔
مدد راحیل شریف سے مانگتی ہے،اور حکومت طیب اردگان جیسی چاہتی ہے، رہنا یورپ میں چاہتی ہے ،دیوانی سنی لیون کی ہے،لائف اسٹائل فٹ بال اسٹارز والا چاہتی ہے اور دفن مدینہ میں ہونا چاہتی ہے"اب اس پوسٹ پر کیا تبصرہ کیا جائے کہ باتیں تو سب ٹھیک ہی ہیں۔مزید بھی زبردست پوسٹس ہیں جو اگلے کالم میں آپ کی نذر ہوں گی اور پھر پوچھیں گے کہ فیس بک کا فائدہ کیا ہے؟