ایک فوجی کی زندگی
میں نے ایک فوجی افسر دیکھا جو چھٹی پر گاؤں آیا تھا
میں ابھی ابھی گاؤں سے ہو کر آ رہا ہوں اور میرے گاؤں اور میرے شہر لاہور میں جو فرق میں زندگی بھر محسوس کرتا اور دیکھتا رہا اب وہ رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے بلکہ خطرہ ہے کہ کہیں لاہور میرے گاؤں کی سادگی پر غالب نہ آ جائے اور میرے لیے گاؤں اور شہر ایک نہ ہو جائیں جس کے بعد میرے لیے چھٹی کا تصور ہی ختم ہو جائے۔ جو ملازم لوگ گھروں سے باہر نوکری کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ چھٹی کیا ہوتی ہے اور کیوں اس چھٹی کے لیے باہر کام کرنے والے ملازمین تڑپتے رہتے ہیں اور حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ایک فوجی جو دوران ملازمت کوئٹہ میں متعین ہو گیا۔
اس شہر کی سردی سے اس قدر بے زار ہو گیا کہ ایک بار اس نے گھر خط لکھا کہ میں آپ لوگوں سے اتنا دور ہوں کہ یہاں گھر والوں کو یاد کر کے آنسو بھی بہائیں تو وہ آنکھوں سے بمشکل نکل پاتے ہیں اور باہر آتے ہی خشک ہو جاتے ہیں۔ گالوں پر جم جاتے ہیں، اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ میری کیا حالت ہے۔ جو گھر کی یاد میں کھل کر رو بھی نہ سکے اس کی بھی کوئی زندگی ہے۔
یہاں چھپ کر رونا پڑتا ہے کہ کوئی خشک آنسوؤں کو دیکھ نہ لے۔ یہ ایک فوجی کے تاثرات ہیں جو ملازمانہ تبادلوں کے چکر میں کوئٹہ پھینک دیا گیا اور جب وہ گھر والوں کے لیے اداس ہوتا تو کھل کر رو بھی نہ سکتا۔ ایک خط میں اس نے اپنے اس ملازمانہ ستم کا ذکر کیا لیکن اس کے اختیار میں صرف یہ ذکر ہی تھا۔ فوج کی نوکری جذبات کو بھی قابو میں کر لیتی ہے اور رونا دھونا بھی ملازمت کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ کیا مجال کہ کوئی فوجی عام سویلین ملازم کی طرح چھٹی ہی منا سکے۔
میں نے ایک فوجی افسر دیکھا جو چھٹی پر گاؤں آیا تھا لیکن ایک دن بس کے انتظار میں سڑک کے کنارے مختصر سامان لے کر بیٹھا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی چھٹی تو ابھی باقی ہے لیکن اس نے ایک ایسا پاکستانی جواب دیا کہ میں اس جواب کو زندگی بھر بھلا نہ سکوں گا۔ اس نے بتایا کہ صبح کی اطلاع کے مطابق اس کی یونٹ کشمیر کے محاذ جنگ پر بھیج دی گئی ہے چنانچہ یہ اطلاع پا کر میں نے سامان باندھا اور بس کے انتظار میں اب بیٹھا ہوں کہ کب اور کتنی جلدی اپنے ساتھیوں سے جا ملوں گا۔ یعنی گرم جنگ کا ایندھن بن جاؤں گا۔ اس فوجی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھی کس محاذ پر ہیں اور وہ انھیں کب تلاش کر پائے گا۔
اگرچہ ہمارے ہاں زیادہ لوگ ملازمت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ اس ملازمت کو حالات کے تحت مشن بھی سمجھ لیتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی اکثر و بیشتر اپنی ملازمت کو اگرچہ نوکری ہی سمجھتے ہیں اور چھٹی کے انتظار میں دن گنتے رہتے ہیں لیکن یہ نارمل حالات میں ہی ہو سکتا ہے غیرمعمولی حالات میں یہ نوکری ایک قومی فرض بن جاتی ہے اس کی کئی مثالیں میرے علم میں ہیں کہ فوجیوں کے لیے چھٹیاں حالات یعنی امن اور جنگ کے ماتحت ہوتی ہیں۔ امن ہے تو چھٹیاں ہیں ورنہ جنگ ہے جس کے لیے اس نے جان لڑانے کا عہد کر رکھا ہے۔ فوج میں بھرتی کا عہد نامہ جنگ میں جان دینے کا عہد ہوتا ہے اور کئی پاکستانی فوجیوں کو یہ کہتے سنا کہ شاید ہی قسمت میں اس عہد کی پابندی کا وقت آ جائے اور سرخرو رہوں۔
ہمارے ہر فوجی کو بخوبی علم ہے کہ اس کا اصل دشمن کون ہے چنانچہ اس کی پوری نوکری اس دشمن سے ملاقات کی آرزو میں گزر جاتی ہے اور جب وہ صحیح و سلامت گھر واپس آتا ہے تو وہ اندر سے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے آپ سے چھپتا پھرتا ہے کہ وہ جس مشن پر گیا تھا اس سے پہلے ہی وہ واپس لوٹ آیا۔ جس فوجی کو میدان جنگ میں جانے کا اتفاق نہ ہو وہ دکھی ہو جاتا ہے اور فوج سے واپسی پر وہ چپ چپ رہتا ہے کہ اس کے پاس جنگ کی کوئی کہانی نہیں ہوتی وہ کسی کہانی کا کردار نہیں ہوتا۔ وہ فوجی ہی کیا جو جنگ کا مزا چھکے بغیر واپس آ جائے۔کسی جنگ میں شمولیت کے بغیر فوجی اپنے آپ کو فوجی نہیں کہلا سکتا اور پنشن پر گزر بسر ایک شرمندگی ہوتی ہے۔
پنشن وہ ہے جو کسی معرکے میں شمولیت کے بعد ملتی ہے اور جس کی ماہ بعد وصولی پر فخر ہوتا ہے۔ ایسے فوجی دیکھے ہیں جو پنشن لینے کے لیے ڈاک خانے جاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ملک کے لیے جان کی بازی لگانے کے بعد انھیں اس کی یہ نشانی ملی ہے جو اس کے لیے ایک فخر ہے۔ اور نشانی ہے کہ اس فوجی نے واقعی فوج میں پوری طرح شمولیت کی ہے اور اپنی ملازمت کا حق ادا کیا ہے۔
ریٹائرڈ فوجیوں کی یہ باتیں میں نے گزشتہ دنوں گاؤں میں سنی ہیں۔ ہر ریٹائرڈ فوجی جو اپنی نوکری پوری کر کے یعنی فوج کے ہر میدان میں حاضری دے کر آیا ہے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اسی فخر میں گزار دیتا ہے اور اسے اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ یہ فوجی جو اپنی جوانیاں ملک کی خاطر فوج کی نذر کر چکے ہیں ان کے ساتھ جب فوجی زندگی کی بات کریں تو ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے وہ اپنے آپ کو پھر کسی میدان جنگ میں سرگرم سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ملک کی خاطر کوئی قربانی دینے کا موقع ملا تو انھوں نے اسے جانے نہیں دیا اور اب وہ اپنی اس قومی عزت کو اپنے اولاد کو منتقل کرنا چاہتے ہیں مگر اب وہ نسل رفتہ رفتہ گم ہوتی جا رہی ہے جو بھرتی کے وقت سینہ پھلا کر معائنہ کراتی تھی کہ بھرتی ہو جائیں اور فوج کی وردی زیب تن کر سکیں۔
یہ درست سہی کہ اب فوج کی زندگی ایک نوجوان کے لیے دوسری نوکریوں سے کم ہے لیکن جو کوئی ایک بار فوج کی زندگی میں داخل ہوا وہ بالکل ہی بدل گیا۔ ہمارے فوجی گاؤں میں ایسے افراد اکثر ملیں گے جو فوج میں شمولیت کی عزت پا چکے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔کہاں کسی دفترمیں کلرکی اور کہاں قومی دفاع کے لیے فوج میں شمولیت جس میں زندگی کسی بھی حادثے سے دوچار ہو سکتی ہے لیکن کوئی حادثہ ایسا بھی پیش آ سکتا ہے جو کسی کو زندہ جاوید کر دیتا ہے، دنیا اور آخرت دونوں میں ذریعہ نجات۔ نوکری بہر حال نوکری ہی ہوتی ہے جس میں کوئی اپنے آپ کو کسی خدمت کے لیے پیش کرتا ہے لیکن ملازم تو وہ ہے جو کسی ایسے محکمے میں جگہ پا لے جو قومی خدمت کا ذریعہ ہے لیکن ملک کی خدمت کسی بھی نوکری میں کی جا سکتی ہے۔