بجلی موجود لوڈ شیڈنگ جاری
ملک میں بجلی موجود ہے اور الیکٹرک کمپنیاں جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کررہی ہیں
مسلسل دعوے کئے جا رہے ہیں کہ حکومت نے ساڑھے تین سال میں لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی کی ہے، جس کی وجہ سے سولہ سے اٹھارہ گھنٹے ہونے والی لوڈشیڈنگ اب چھ گھنٹے تک آگئی ہے اور 2018 تک ملک سے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرا دیا جائے گا۔ اس دعوے کے برعکس ایک افسر نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں بجلی موجود ہے اور الیکٹرک کمپنیاں جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کررہی ہیں۔
اس افسر کے بقول جب انھوں نے بجلی کمپنیوں سے بجلی موجود ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ کی وجہ معلوم کی تو انھیں بتایاگیا کہ انھیں لوڈشیڈنگ جاری رکھنے کا کہا جا رہاہے، اس لیے موسم کی تبدیلی کے باوجود لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ یہ صاحب ایک حقیقت پسند افسر ہیں جن کے حقیقت پسندانہ بیان کی، جو میڈیا میں آیا، حکومت نے کوئی تردید نہیں کی، جس سے لگتا ہے کہ حکومت بجلی موجود ہونے کے باوجود جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کرا کر اب موسم سرد ہونے کے باوجود عوام کو پریشان کررہی ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں لوڈشیڈنگ کو سیاسی رنگ دے کر دعویٰ کیا جائے کہ حکومت نے اپنے وعدے پر عمل کرا دیا ہے۔
یہ افسر اس سے قبل کے الیکٹرک سے متعلق عوامی شکایات پر سخت بیانات دے چکے ہیں اور ناقص کارکردگی پر نیپرا نے 50 لاکھ جرمانہ بھی کے الیکٹرک پر عائد کیا تھا، جس کے خلاف کے الیکٹرک نے عدلیہ سے رجوع کیا تھا مگر عدلیہ نے کے الیکٹرک کی استدعا مسترد کرکے نیپرا کا جرمانے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ کراچی کے بجلی صارفین سے ہر ماہ جبری طور پر کروڑوں روپے ماہانہ وصول کرنے والی کے الیکٹرک کو پہلی بار نیپرا کے فیصلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وگرنہ کے الیکٹرک کی انتہائی ناقص کارکردگی پر تو کے الیکٹرک کو دیا گیا بجلی کی فراہمی کا فیصلہ وفاقی حکومت کو منسوخ اور مزید بھاری جرمانہ کرنا چاہیے تھا مگر پی پی حکومت کی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت بھی کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور کراچی کے بجلی صارفین کو کے الیکٹرک کی لوٹ کھسوٹ سے نجات نہیں دلائی جارہی اور کراچی کے صارفین بجلی کو اب کے الیکٹرک کے خلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور کردیا گیا ہے جب کہ کے الیکٹرک کے مظالم کے خلاف شہر میں بینرز لگ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں صارفین کی شنوائی کے لیے اجتماعات کررہی ہے مگر وفاقی حکومت کے الیکٹرک کے خلاف پیپلزپارٹی، متحدہ سمیت دیگر جماعتوں کے مطالبات پر دھیان نہیں دے رہی۔
وفاقی محتسب اعلیٰ عدالت کے ڈائریکٹر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ کے الیکٹرک مسلسل عدالتی احکامات نظر انداز کررہی ہے اور اس میں بجلی چوروںکے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت نہیں ہے، میٹر ریڈر گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں اور صارفین کو اندازے سے غلط اور اضافی بل بھیج رہی ہے، جسے وفاقی محتسب عدالت نے ایسا کرنے سے منع بھی کیا، مگر کے الیکٹرک انتظامیہ عدالتی احکامات بھی نظر انداز کررہی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے مطابق محتسب عدالت نے خبردار کیا ہے کہ اگر کے الیکٹرک نے اپنی روش نہ بدلی تو شہری سڑکوں پر نکل آئیںگے جب کہ شہر میں کے الیکٹرک کی اضافی بلنگ کے خلاف بینرز آویزاں ہونا غریب شہریوں کے احتجاج کا پہلا قدم ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے کے الیکٹرک سے عوام کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک کو عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے نہیں دیںگے اور جماعت اسلامی سپریم کورٹ میں ایک سال چار ماہ سے زیر التوا درخواست کی جلد سماعت کے لیے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اورکے الیکٹرک کی تیسری بار نئی کمپنی کو فروخت کے معاہدے کو روکنے کے لیے حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا کرے گی۔ جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے دفاتر کے باہر کھلی کچہریوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس میں عوام بڑی تعداد میں کے الیکٹرک کے خلاف شکایتیں کررہے ہیں۔
کے الیکٹرک نے ایک سال میں چوالیس ارب روپے کمانے کا خود دعویٰ کیا ہے اور لوڈشیڈنگ سے شہر کے 61 فیصد علاقوں کو استثنیٰ دینے کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے سلسلے میں کے الیکٹرک کا کوئی اصول نہیں ہے اور جان بوجھ کر من مانی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے، دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جو بالکل غلط ہے، جس کی صرف ایک مثال ایف بی ایریا اور گلشن اقبال ہے ۔
جہاں ایف بی ایریا بلاک نو اور پندرہ میں گرمی سردی روزانہ چھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے کیونکہ ان علاقوں میں گوہر آباد اور ریلوے کالونی کی کچی آبادیاں ہیں جب کہ گلشن اقبال بلاک 13 جی میں لیاری ندی کے کنارے آباد متعدد کچی آبادیاں ہیں جہاں بہت کم میٹر لگے ہیں اور ان علاقوں میں متعلقہ عملہ خود بجلی چوری کرارہا ہے، مگر اس علاقے میں لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی۔ وفاقی محتسب کے ایڈوائزر کا کہنا بالکل درست ہے کہ کے الیکٹرک میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں، کیونکہ کے الیکٹرک کے مالکان تو بجلی چوری نہیں کراتے، چوری تو عملہ کراتا ہے جو کروڑوں روپے کی بجلی چوری کرارہا ہے، تو وہ بجلی چوری روک کر اپنی کمائی کیوں چھوڑے گا۔
اس لیے مالکان کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ میٹروں والے اور باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے اکثر صارف چور ہیں، اس لیے چوری کے جھوٹے الزام لگاکر شریف شہریوں کو بدنام کیا جارہا ہے اور اچانک اضافی بل بھیج دیے جاتے ہیں اور بل درست کرکے انھیں نہیں دیے جاتے ہیں اور بل ادا نہ کرنے پر گرفتاری کی دھمکی اور قسطوں کی پیشکش کی جاتی ہے، مگر بل درست نہیں کیے جاتے۔ کے الیکٹرک اور واپڈا کے پاس اس بات کا جواب نہیں کہ بجلی ہوتے ہوئے بھی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جارہی ہے اور گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بل کم کیوں نہیں آرہے اور وزیراعظم کے حکم پر بھی لوڈشیڈنگ کم نہیں کی جارہی۔ حیرت ہے کہ ملک بھر میں جمعہ اور اتوار کو ہر چھوٹے بڑے شہر میں مارکیٹیں، بازار، سرکاری دفاتر، اسکول اور نجی ادارے بند ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان دنوں میں لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں کی جاتی، یہ سب کچھ بند ہونے سے جو بجلی بچتی ہے وہ کہاں جاتی ہے؟
البتہ عیدین اور قومی دنوں پر لوڈشیڈنگ تعطیلات کے باعث تو نہ کرکے احسان کیا جاتا ہے جب کہ فنی خرابی کے باعث ملک میں بجلی بند کردیا جانا تو معمول ہے اور خرابی جلد دور نہیں کی جاتی۔ نیپرا کے چیئرمین طارق سدوزئی، جب کے الیکٹرک جو اس وقت کے ای ایس سی ہوتی تھی کے سربراہ تھے، تو انھوں نے کہا تھا کہ بجلی کی چوری بجلی مہنگی کرکے کبھی نہیں روکی جاسکتی، اس لیے بجلی مہنگی کرنے کے بجائے بجلی کی چوری روک کر نقصان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
بجلی فراہم کرنے والی تمام نجی کمپنیاں ملک بھر میں بجلی چوری پر کوئی توجہ نہیں دے رہیں کیونکہ چوری روکنے سے متعلقہ عملے کی آمدنی ختم ہوجائے گی اور اگر بجلی چوری ہورہی ہے تو کے الیکٹرک نے ایک سال میں چوالیس ارب روپے کیسے کمالیے۔ ملک بھر میں بجلی کی چوری حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈا ہے۔ بجلی چوری کے باوجود یہ ادارے کما رہے ہیں کیوںکہ ان کے ملازمین چوری ہونے والی بجلی کی رقم انھیں چوری نہ کرنے والے صارفین کو اضافی بل بھیج کر پوری کرادیتے ہیں۔
ملک میں موسم سرد ہونے سے بجلی کے استعمال میں کمی آگئی ہے مگر لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں آرہی اور جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کرکے حکمران 2018 میں یہ اہم مسئلہ حل کرنے کے دعوے کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے حکومت اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے عوام کو دھوکا دے رہے ہیں۔