اخبار کا کردار

کالم لکھنے میں جو چند مرحلے پیش آتے ہیں ان کی تعداد کچھ کم نہیں


Abdul Qadir Hassan November 17, 2016
[email protected]

کالم لکھنے میں جو چند مرحلے پیش آتے ہیں ان کی تعداد کچھ کم نہیں۔ سب سے پہلے تو لکھنے والے کا مرحلہ ہے جو موضوع کی تلاش سے شروع ہوتا ہے اور اگر موضوع کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ یہ قارئین کو قبول ہو گا تو گویا پہلا مرحلہ طے ہو گیا پھر اسی میں ایک مشکل یہ بھی پیش آتی ہے کہ لکھنے والا اس مرحلے کو کس حسن و خوبی سے طے کرتا ہے یا یوں کہیں کہ اس کی کس قدر اہلیت رکھتا ہے۔ میں نے تو ایسے موضوع بھی دیکھے ہیں جو لکھنے والے کو پریشان کر گئے اور اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ ایسے مشکل موضوع کے ساتھ کیا سلوک کرے یا اس سے کس طرح گلوخلاصی کرا لے۔

بہرکیف کالم نویسی کا پہلا مرحلہ یہی موضوع ہے اور سب سے زیادہ مشکل بھی۔ کوئی لکھنے والا جب کسی موضوع کو قابو کر لیتا ہے اور اسے اپنے تصرف میں سمجھتا ہے تو وہ گویا کالم کا پہلا مرحلہ طے کر لیتا ہے۔ پھر اس کے بعد چل سو چل۔ میں نے یہ چند سطریں اس لیے لکھی ہیں کہ میں ان دنوں کالم نگاروں کی بہتات دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں اور دل کرتا ہے کہ یہ تعداد نہ صرف زیادہ ہو بلکہ اس میں حسن و خوبی بھی دکھائی دے۔

کالم نویسی اخبار کے ادارتی صفحوں کا جزو بہت پرانے زمانے سے ہے۔ ہمارے جیسے نو واردوں کا تو ذکر ہی کیا اردو صحافت کے پرانے نمونے دیکھیں تو آپ کو ان اخباروں کے ادارتی صفحوں پر کالم دکھائی دیں گے جن پر کسی امام صحافت کا نام درج ہو گا۔ اور تو اور مولانا ابو الکلام آزاد بھی کالم نویس ہوا کرتے تھے اور بعد میں حسرت صاحب، سالک صاحب اور نہ جانے کون کون اس صف میں اپنی خصوصی شان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔

ایک بزرگ ملک نصراللہ خان عزیز بلا کے کالم نویس تھے اور خصوصی حس مزاح کے مالک تھے وہ اگرچہ زمیندار جیسے بڑے اخبار سے کالم نویسی میں آئے تھے لیکن بعد میں ایک نیم دینی اور سیاسی جماعت کے لیڈر بن گئے اور ان کی کالم نویسی اس لیڈری کی نذر ہو گئی۔ لیکن پھر بھی ان کا کمال یہ تھا کہ وہ اپنی لیڈری اور سیاسی مصروفیات کے باوجود کالم نویسی کے بلند مرتبے پر قائم رہے۔

ان کی نیم سیاسی اور دینی جماعت نے ان کی کالم نویسی کو قابو کرنے کی بہت کوشش کی اور اس میں سیاست کو داخل کیا لیکن ان کا کالم نویسی کا بنیادی وصف پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہا اور وہ جب تک خود ہی قلم کاری سے دستبردار نہ ہو گئے ان کا کالم نویسی کا وصف قائم رہا اور ان کی تحریر کا جوہر سامنے آتا رہا۔ یہ تھے جناب نصراللہ خان عزیز۔ بنیادی طور پر مزاح نگار تھے لیکن اخبار نے ان کے مزاح کو اپنی ضرورت کے تحت سیاسی بھی بنا لیا کیونکہ سیاست کے بغیر اخبار چلتا نہیں ہے۔

ملک صاحب نے اپنی جماعتی وابستگی اور جماعتی احترام کے ساتھ اپنی صحافت بھی قدرے بدل لی لیکن پھر بھی وہ ایک مزاح نگار صحافی کے طور پر زندہ رہے اور ان کی تحریریں ہمارے سامنے ہیں جن سے آج کے لکھنے والے فیض حاصل کرتے رہتے ہیں اور ان تحریروں کو صحافت کی تاریخ کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔

صحافی بننا کچھ ایسا آسان نہیں ہے اس کے لیے محض قلمکار ہونا ہی کافی نہیں ہے حالات حاضرہ کا گہرا مطالعہ بھی لازم ہے اس کے ساتھ پرانے حالات سے آگاہی بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ ایک صحافی ایک عالم ہوتا ہے حالات حاضرہ کا کیونکہ صحافت کو قدیم و جدید حالات کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے اور صحافی حالات حاضرہ اور حالات گزشتہ پر کسی حد تک عبور رکھتا ہے۔ آپ نے صحافت کو کتابی نہیں بنانا بلکہ اسے حالات حاضرہ کا مجموعہ بنانا ہے جو قارئین کو آج اور کل کے حالات سے مطلع کر سکے اور نہ صرف حالات حاضرہ سے مطلع کرے بلکہ ان کے بارے میں اپنی رائے بھی رکھتا ہو۔

روز مرہ کی صحافت کوئی پرانی کہانی نہیں ہے صحافت حالات حاضرہ کا نام ہے وہ حالات جو آپ کے سامنے گزر رہے ہوں آپ نے انھیں حالات کو وقت کی ضرورت بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اپنے تبصرے کے ساتھ۔ محض حالات کا بیان تو خبروں میں بھی ہوجاتا ہے اور ہوتا رہتا ہے ہر روز کا اخبار بذات خود ایک اخباری تبصرہ ہوتا ہے جو قارئین کے سامنے پیش ہوتا ہے اور یہ قارئین پر منحصر ہے کہ وہ ان خبروں سے کیا تاثر لیتے ہیں۔

اخبار زندگی کے ہر شعبے کی ضرورت بن جاتا ہے اور اس کی خبروں سے بیگانہ نہیں رہا جا سکتا۔ یہی وہ روز مرہ کی خبریں ہوتی ہیں جو انسانی معلومات کو مکمل کرتی ہیں اور یہی وہ معلومات ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر اخباروں میں تبصرے کیے جاتے ہیں اور عوام کی رہنمائی کی جاتی ہے۔

ایک عام قاری اخبار پڑھ تو لیتا ہے لیکن وہ خبروں کے تجزیے نہیں کر پاتا یہی وہ تجزیے ہوتے ہیں جن کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں بلکہ واقعی یہ ہے کہ اخبار ایسے تجزیہ نگار خود پیدا کرتے ہیں اور یہی لوگ بعد میں قارئین کی مدد کرتے ہیں اور حالات سمجھنے میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

اخبار دو چار کاغذوں کا مجموعہ نہیں ہوتا وہ حالات حاضرہ کے علم و فضل کا مرقع ہوتا ہے جو دنیا کو سمیٹ کر چند کاغذوں میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ یہی ایک چند ورقہ اخبار کا کمال ہے اور یہی اس کی خدمت ہے جو اپنے قارئین کی نذر کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں