صرف عوام کے لیے سوچیں
ہمارا تو وہ حال ہے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ
TOKYO:
ہمارا تو وہ حال ہے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ، الیکشن امریکا میں ہو رہے تھے مگر محسوس یہ ہو رہا تھا کہ اس کے کرتا دھرتا پاکستانی ہیں۔ میڈیا کی بھرپورکوریج، تبصروں، تجزیوں نے ایسی فضا بنادی تھی کہ گھمسان کا رن پڑگیا تھا، ہلیری کلنٹن مرکز نگاہ تھیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ تھا کچھ انھوں نے ایسی کوشش بھی نہ کی تھی کہ ہمارے دل ودماغ پر قبضہ جما لیتے۔
ہیلری کی منافقانہ باتوں سے متاثر ہم سوچ بیٹھے تھے کہ ہلیری آوے ہی آوے ان کے آنے سے دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے مسلمانوں کے لیے دنیا میں جنت بن جائے گی نہ کہیں خون خرابہ ہوگا نہ فوج کشی، ہر طرف امن کی بہاریں ہوں گی، لوگوں نے تو یہاں تک سوچ لیا تھا کہ ہلیری کو مشرف بہ اسلام ہی کرلیا جائے کیونکہ وہ عورت ذات ہے جلد باتوں میں آجائے گی مگر ٹرمپ کے ٹرمپ کارڈ نے کام کر دکھایا۔ انہونی ہوگئی۔ بڑے بڑے عالمی تجزیہ نگاروں، میڈیا کے جٹا دھاریوں امریکی میڈیا کے بڑے اخبارات سب کی سوچوں، پیش گوئیوں کے برعکس ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس پر قبضہ جمالیا۔ ہمارے ہاں واویلا شروع ہوگیا کہ اب کیا ہوگا اب کیسا ہوگا، خیر ہوگا وہی جو منظورخدا ہوگا، کہتے ہیں سیانے لوگ اسی طرح مات کھاتے ہیں اسی لیے ٹرمپ بازی جیت گئے ہلیری تو یہ بھی نہ کہہ سکیں:
میں جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
ایک بات تو اس الیکشن سے یہ بھی ثابت ہوگئی کہ بڑی جمہوریت کے دعویدار چیمپئن امریکا میں بھی عورت کی حکمرانی مردوں سے برداشت نہیں۔ اللہ اللہ کرکے ہلیری نے یہ بازی سر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر مردوں کے اس معاشرے میں عورت کی ایک نہ چلی ، پاپولر ووٹوں کو الیکٹورل ووٹوں نے بڑی شکست سے ہمکنارکردیا ۔اس سے تو ہم اچھے جو قدامت پرستی کا لیبل لگا کر بھی اتنے روشن خیال ہیں کہ ہمارے ہاں دو مرتبہ عورت کی حکمرانی رہی اور خوب رہی۔
بنگلہ دیش میں بھی عورت کی حکمرانی میں بڑے بڑے معززسیاستدانوں کے چھکے چھوٹ رہے ہیں، مغربی معاشرے میں عورت کوآزادی کا نعرہ دے کر شتر بے مہارکردیا ہے، برابری کے حقوق کا جھانسا دے کر ہرکام پر مشقت میں شریک کرلیا ہے مگر بادی النظر سے دیکھا جائے تو عورت کے حقوق سلب کرلیے ہیں شادی کے پروقارطریقے کو ختم کرکے کہ جس میں مرد پر فرائض زیادہ عائد ہوتے ہیں عورت کو شمع محفل بنادیا ہے کہ ذہنی ہم آہنگی کے نام پر ساتھ تو رہیں مگر ہر چیز میں عورت آدھے آدھے کی شریک ہوگی دل بھر جائے تو علیحدہ ہوجاؤ، کوئی پرسان حال نہیں۔ مغربی معاشرہ کھوکھلے نعروں کے ساتھ آج بھی اندرونی طور پر قدامت پرست ہے جہاں عورت کو استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
اس کا استحصال بھی کیا جاتا ہے مگر حکمرانی کا تاج نہیں پہنایا جاسکتا اب یہ وہاں کی خواتین کی سوچنے کی بات ہے کہ اب بھی اس کھلے تضاد کی پیروی کریں گی یا پھر اپنے حقوق، عزت اوروقت کے لیے پھر سے اٹھ کھڑی ہوسکیں ہمارا کام تو آئینہ دکھانا تھا وہ ہم نے دکھادیا سمجھ سمجھ کے جو نہ سمجھے وہ بڑا نا سمجھ ہے۔
جن لوگوں کا خیال تھا کہ ہلیری کے آنے سے مسلمان چین کی بنسی بجائیں گے، وہ حقیقت میں خواب غفلت میں تھے کیونکہ ہلیری تو وہی ہیں جو عراق، افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو تباہ حال کرنے میں اپنی حکومت کی پالیسیوں میں برابرکی شریک رہی ہیں ٹرمپ تو پھر بھی منافقانہ گیم نہ کھیل سکے اور انھوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیرکہہ دیا تھا کہ مسلمان ان سے کوئی اچھی امید نہ رکھیں۔ ٹرمپ اگر جیت گئے تو وہ صرف امریکیوں کے لیے کام کریں گے ان کی ایسی باتوں نے تو امریکیوں کے دل جیت لیے کہ ٹرمپ نے امریکیوں کے دلوں میں چھپے خیالات کو طشت از بام کیا تارکین وطن کو نکالنے کی کوشش کی پیش گوئی کی، اب احکامات بھی دے دیے ہیں میکسیکو کی دیوار بھی بنے گی اور غیتر قانونی تارکین وطن باہر نکالے جائیں گے۔
معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اپنے خیالات کا اظہارکیا، مسلمانوں کی امریکا میں موجودگی کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا، تارکین وطن نے امریکا میں دراڑ ڈال کر امریکیوں کے برابر حقوق حاصل کرلیے تھے۔ اس سے امریکیوں کا استحصال ہو رہا تھا یہ خوش نما باتیں کرکے ٹرمپ نے لوگوں کے دل جیت لیے کیونکہ یہ سب امریکیوں کے دل کی باتیں تھیں۔ بظاہر امریکی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں مگر اندر سے کٹر مسلمان دشمن ہیں ہم نہ سمجھیں تو اور بات ہے مگر جب اللہ نے کہہ دیا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے تو پھر ہیلری ہو یا ٹرمپ کوئی ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔
ہمیں اپنی عزت و وقار کے لیے دوسروں کی بجائے اپنے اوپر بھروسہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنی ہوگی مگر ہمارے حکمرانوں سے تو یہ ٹرمپ ہی اچھے ہیں جوعوام کے مفاد کی باتیں کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی نہیں اجتماعی مفاد کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہیں ، مگر ہمارے حکمرانوں کا تو یہ حال ہے کہ کوئی بھی ملک میں واقعہ ہوجائے ان کے کانوں پر جوں صرف یہ رینگتی ہے کہ ایک بیان آجاتا ہے کہ ملک دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، انسانی جانوں و مال کے دشمنوں کی مذمت کرتے ہیں، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہتا ہے۔
عوام کہیں ٹرینوں کے حادثوں میں مررہے ہیں، توکہیں اپنی مذہبی رسومات کو مناتے ہوئے، توکہیں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان بدحال ہیں، توکہیں صحت کے ہاتھوں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں مگر بقول نواز شریف ان کے دور میں ملک کی ترقی کی شرح بڑھتے بڑھتے آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئی ہے آسمان کی بلندیوں سے نیچے دیکھنا ذرا مشکل ہوتا ہے اس لیے حکمرانوں کو عوام کی صحیح تصویر نظر نہیں آتی عوام سے ان کا کیا تعلق ہے صرف ووٹوں کا؟ کاش کہ ہمارے حکمران صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے سوچیں۔