یمن میں فورسز اور باغیوں میں شدید جھڑپیں 50 ہلاک

سعودی سرحد کے قریب ساحلی علاقوں میدی اور ہرادھ پر حکومتی فورسزکی چڑھائی، تعز شہر میں بھی شدید جھڑپیں جاری، عینی شاہدین


AFP November 17, 2016
اتحادی فوج نے یمن کے ساحل پر 2 اسلحہ بردار کشتیاں پکڑ لیں، الحدیدہ بندرگاہ پر ہیلی کاپٹروں سے مانیٹرنگ کی گئی،تلاشی پرگولہ بارود نکلا۔ فوٹو؛ فائل

KARACHI: یمن کے جنوب اور مغربی علاقوں میں حکومتی فورسز اور باغیوں کے مابین شدید جھڑپوں کے دوران 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے جس سے یمن میں امن کیلیے کی جانے والی کوششوں کو شدید جھٹکا لگا ہے۔

یمنی فوجی ذرائع کے مطابق سعودی عرب کی سرحد کے قریب صدر عبد الربہ منصور ہادی کی حامی فورسز اور شیعہ حوثی ملیشیا کے مابین شدید جھڑپ ہوئی ہیں، یمنی فورسز نے جنوب مغربی علاقے میں ساحلی قصبہ میدی اور قریبی ہرادھ میں باغیوں سے علاقوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے شدید حملے کیے ہیں۔ ان جھڑپوں کے دوران حکومتی فورسز کے 15 اہلکار اور باغیوں کے 23 جنگجو مارے گئے۔

یمنی فوج کے ایک کرنل عبداللہ غنی الشبیلی نے بتایا کہ ہماری فورسز سعودی عسکری اتحاد کی مدد سے باغیوں کو علاقے سے نکالنے تک آپریشن جاری رکھیں گی۔ فوجی ذرائع کے مطابق وسطی شہر تعز میں بھی جھڑپوں کے دوران 9 باغی اور 4 فوجی اہلکار مارے گئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ان شورش زدہ علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری ہیں اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

فوجی ذرائع کے مطابق تعز اور اس کے ارد گرد جھڑپوں کے دوران 39 افراد مارے گئے جن میں شہری ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ دریں اثنا سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کیلیے سرگرم عرب اتحادی فوج نے یمن کی الحدیدہ بندرگاہ کے قریب دو مشتبہ اسلحہ بردار کشتیاں پکڑ لیں جن میں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے۔ اتحادی فوج کے مطابق یہ اسلحہ اور گولہ بارود یمنی باغیوں تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

ذرائع کے مطابق عرب اتحادی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے یمن کے ساحل سمندر میں مانیٹرنگ کے دوران دو کشتیوں کو تیزی کے ساتھ الحدیدہ بندرگاہ کی طرف بڑھتے دیکھا تو انہیں روکنے کیلیے ان پر انتباہی فائرنگ کی گئی، فائرنگ کے بعد دونوں کشتیاں سمندر ہی میں رک گئیں۔ اطلاعات کے مطابق اتحادی فوج کے اہلکاروں نے دونوں کشتیوں پر لادے گئے سامان کی تلاشی لی جس میں اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ جدید مواصلاتی الات بھی قبضے میں لیے گئے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں