مسلمانوں کی تقسیم نئے ملکوں میں
ایک تھی خلافت عثمانیہ۔ مسلمانوں کے ماضی کی ایک یاد گار تنظیم جو ان کے سیاسی اور دینی اتحاد کی علامت تھی
ایک تھی خلافت عثمانیہ۔ مسلمانوں کے ماضی کی ایک یاد گار تنظیم جو ان کے سیاسی اور دینی اتحاد کی علامت تھی۔ اس کا دارالحکومت مسلمانوں کی طاقت ور تنظیم اور ان کے ماضی کے رعب داب کی یاد گار ترکی تھا جہاں وہ دنیا بھر سے جمع ہوتے اور اپنے مستقبل کے منصوبے طے کرتے۔
ترکی مسلمانوں کے ماضی کی ایک یاد گار اور مشترکہ تنظیم مرحومہ عثمانی سلطنت کی یاد گار تھی۔ اس طویل داستان الم کا ذکر موخر کرتے ہوئے عرض ہے کہ زوال کے دور میں مسلمانوں نے اپنے اتحاد اور سیاسی نام کو قائم رکھنے کے لیے اپنی خلافت رفتہ یعنی عثمانی خلافت کا نام یاد رکھا اور اپنی نئی تنظیم کو یہی نام دیا۔ اس دور کے مسلمانوں کے پاس بس چند نام ہی رہ گئے تھے جن میں عثمانی خلافت کا نام اور کام سرفہرست تھا۔
یہ وہی عثمانی سلطنت تھی جو نئی ابھرتی ہوئی مغربی دنیا کے لیے خطرناک تھی چنانچہ کئی سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں کا یہ سیاسی اتحاد ختم کیا گیا اس کی جگہ کئی ممالک وجود میں آئے چنانچے اتحاد ختم ہو گیا۔ اس سے قبل مسلمان قوم نے اپنی خلافت کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے سلطنت عثمانیہ کو یاد رکھا اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں تحریک خلافت کا آغاز کیا۔
مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کو زندہ کرنے کی یہ تحریک اس قدر ہمہ گیر اور مقبول عام تھی کہ ہندوستان کے غیر مسلم لیڈر شری گاندھی بھی اس میں شامل ہو گئے یہ کہہ کر یہ اس خطے سے برطانیہ کو برطرف کرنے کی ایک تحریک بھی ہے۔ مسلمانوں کی یہ تحریک یک گونہ خلافت عثمانیہ کو زندہ کرنے کی ایک تحریک بھی تھی لیکن مسلمان اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ یہ محض ایک خواہش کے سوا اور کچھ نہ تھی۔
مسلمانوں کی اس یاد گار تنظیم کا مرکز ترکی تھا اور اسے ہی خلافت عثمانیہ کا وارث سمجھا گیا۔ دنیا بھر میں خصوصاً ہندوستان میں مسلمانوں نے جو تحریک خلافت شروع کی اس کا مقصد اسی خلافت عثمانیہ کو زندہ کرنا تھا۔ جو وقت کی سپر پاور مغربی دنیا کے لیے ایک چیلنج تھی آخر میں مسلمانوں میں ماضی کی طاقت ایک داستان بن کر رہ گئی اور خلافت ختم ہو کر کئی مسلمان ملکوں کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی۔
اس کی قیادت ہندوستان کے مسلمان کر رہے تھے جو اس تحریک خلافت کے خاتمے تک اپنی سی کوشش کرتے رہے مگر وہ تحریک کو زندہ نہ کر سکے۔ مغرب کی طاقت ور دنیا نے عالمی جنگ کے بعد اس تنظیم کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ کئی ممالک وجود میں لائے گئے جن میں مسلمان ملکوں کی اکثریت تھی جو خلافت عثمانیہ کی یاد گار تھے اور بس۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا سانحہ مسلمانوں کے ذہنوں میں تو ہمیشہ تازہ رہا لیکن اب ان دنوں جب ترکی کے لیڈر پاکستان کے دورے پر آئے تو مسلمانوں کے اتحاد خلافت کی یاد تازہ ہوئی مگر یہ صرف ایک یاد تھی مغربی دنیا کے دانشور اور مسلمانوں کے دشمنوں نے خلافت کی زندگی کے آثار ختم کر دیے تھے۔ خلافت اپنے وقت کی ایک سپر پاور تھی مگر کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایک بار پھر مسلمانوں کو عروج ملے گا اور کوئی 'خلافت عثمانیہ' زندہ ہو گی اب تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔
مسلمانوں کی خلافت جسے کوئی بھی نام دیں اب ماضی کا ایک افسانہ ہے اور یہ ناولوں اور فلموں میں اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے مرکزی ملک ترکی کے وزیراعظم گزشتہ دنوں پاکستان تشریف لائے تو سب کچھ مذکور ہوا مگر مرحومہ خلافت عثمانیہ کا نام نہیں سنا گیا۔ ہم مسلمان جو کل تک سپر پاور تھے اب اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ اپنے ماضی کو یاد کرنے کی ہمت بھی نہیں پاتے اور اس تلخ تاریخ کو فراموش کر دینے میں اپنی نجات سمجھتے ہیں۔
یہ عثمانی خلافت عالمی جنگ کے بعد مغربی قوموں نے ایک اجتماع میں ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ظاہر ہے کہ اس میں کامیاب ہوئے کیونکہ اس کی مزاحمت کے لیے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ چنانچہ آپ آج جو مسلمان دنیا کی تقسیم ہو رہے ہیں وہ انھی مغربی اقوام نے اپنے عروج کے موقع پر مسلمانوں کی خلافت ختم کر کے اطمینان کا سانس لیا۔
عالمی جنگ کے اختتام پر مغربی ملکوں نے ایک کانفرنس بلائی جس میں مسلمانوں کی تقسیم کے فیصلے کیے گئے۔ ایک لطیفہ یا المیہ منقول ہے کہ جب عالمی جنگ کے بعد مسلمانوں کے بارے میں فیصلے آ گئے تو مشہور ہوا ہے کہ مسٹر چرچل نے ریت پر انگلیوں سے لکیریں کھینچ کر مسلمان ملکوں کی نئی بنیاد رکھی اور پرانی مٹا دی۔