ضرورت ہے فقیر منش رہبر کی

ایک وہ بھی وقت تھا جب دنیا میں لیڈر ہوا کرتے تھے


جاوید قاضی November 19, 2016
[email protected]

ایک وہ بھی وقت تھا جب دنیا میں لیڈر ہوا کرتے تھے۔ سوئیکارنو، ماؤ، جمال عبدالناصر، خروشیف، نہرو، بھٹو وغیرہ وغیرہ۔ اب کے زمانہ ہے کہ دنیا میں گیدڑ پیدا ہو رہے ہیں (گیدڑ کی اصولی خاصیتوں سے معذرت کے ساتھ) ٹرمپ، مودی، پوتن وغیرہ وغیرہ۔ سندھی میں کہتے ہیں ''جیسا کوا، ویسے اس کے بچے'' (کوے سے بھی معذرت کے ساتھ) جیسا دیس، ویسا بھیس۔ جو بناؤ اپنا بیانیہ وہی پاؤ گے تم۔ اس لیے اتنا مصروف ہوتے ہوئے بھی جمنا کے چوراہے کنکر ضرور مارتا ہوں کہ کہیں کوئی جاگتا ہو، گھر گھر نگر نگر ڈھنڈورا ضرور پیٹتا ہوں کہ کہیں ہمارے بیانیہ کے بگاڑ کی صورت میں کوئی ٹرمپ نہ نکل آئے، مودی، پوتن، اردگان نہ نکل آئے۔

ہم فقیر منش لوگ ہیں، سادھو، سامی، ناگی و سنیاسی منش کے لوگ ہیں۔ دریائے سندھ کے گرد صدیوں سے آباد ہیں، ہم تو حملہ آور نہیں ہوئے، ہم پر حملے ہوتے رہے، ترخانوں، ارغوانوں، عربوں و آریاؤں کے، یونانیوں کے بھی، تو تاتاریوں کے بھی۔ وہ آئے اور کہا کہ وہ فاتح ہیں اور ہم مفتوح۔ وادی سندھ نے سب کے زیر کو جذب کیا، ہجرت در ہجرت پنہاں ہیں اس کے وجود میں اور جو آئے وہ اس کا رنگ پکڑتے گئے، ڈھلتے گئے اور پاس ہوگئے۔ میرے لیے پاکستان اسی تخیل کی تخلیق ہے اور اس کی سمت کہیں سے کھوگئی ہے، کہیں بے نور سی ہوگئی ہیں شمعیں اور اب ہم ہیں کہ ڈگر کو ڈھونڈ رہے ہیں اور آنکھیں ہیں کہ گر سی گئی ہیں۔

یہی کام ہوتا ہے جب بیانیہ میں بگاڑ ہوتا ہے۔ دیکھیں تو سہی امریکا کے اس بیانیہ میں FOX ٹی وی چینل نے کیسے جگہ پائی اور اسے اور بگاڑا۔ یہاں پر بھی قیامتوں کی خبروں کو اچھال کر سنسنی پھیلاکر کیسے ٹی وی چینلوں نے پھر اپنی جگہ بنائی۔

کبھی کسی نے کہا ''جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ'' پھر اب کی بار پختونوں کو بھی یہ کہا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے مہا پاکستانی کے نام پر کس طرح بنگالیوں، بلوچوں پر ستم ڈھائے۔ ہم میں سے بہت تھے جنھوں نے کہا یہ جنگ حب الوطنی کی جنگ ہے۔

''کسی نے کہا ہم گھاس کھائیں گے مگر بم ضرور بنائیں گے''۔ اور بیانیہ میں سب سے بڑا بگاڑ کیا ضیا الحق نے اور اسے کرنا تھا اپنی آمریت کو نظریہ دینے کے لیے۔ کبھی نظریہ اپنی ماہیئت اقتدار کی شکل میں خود بناتا ہے اور کبھی اقتدار خود نظریے کو جنم دیتا ہے۔ ضیا الحق کو پتہ تھا اس کی آمریت ایک فلسفہ چاہتی ہے، وہ فلسفہ اب بھی الماری کے شیلفوں میں پڑا ہے اور وہ اقتدار کے مزے لوٹ کر چل دیے۔ شرفا کی ایک ایسی ترتیب بنائی جو سب گماشتہ تھے۔

سنا ہے ایک سابق آمر حکمران کو بھی سعودی فرمانروا نے اتنے پیسے دیے کہ وہ راتوں رات امیر ہوگئے۔ شوکت عزیز بینکار سے وزیراعظم کیسے بنے اور وہ بھی آمر کے وزیراعظم؟ تین نومبر کا شب خون بھی عجب شب خون تھا۔ کورٹ چلی گئی، شوکت عزیز کے وزیراعظم ہاؤس کو کچھ نہ ہوا، نہ ارباب رحیم کو کچھ ہوا۔ اب دیکھیں تو سہی بے نظیر کے بغیر پاکستان، نوابزادہ نصر اﷲ کے بغیر پاکستان اور ایدھی کے بغیر بھی۔ کچھ فرد ادارے ہوتے ہیں، وہ جہاں بستے ہیں وہاں آبشاریں بہنے لگتی ہیں اور وہی تو رہبر ہوتے ہیں جو تن من دھن سب نچھاور کردیتے ہیں۔

اور اب سنا ہیموجودہ حکمرانوں کو بھی قطر کے شہزادے نے اتنے پیسے دیے کہ جس سے انھوں نے لندن میں جائیدادیں لیں۔

یہ سب شہزادے ہیں، ہمارے ہوں یا ان کے، جمہوریت کے ہوں یا آمریتوں کے، تبھی تو لوگوں کی حالت زار نہیں بدلتی، آمریتیں ہوں یا جمہوریتیں۔ آمریتوں کا مگر اپنا بیانیہ ہے، جمہوریتوں کا اپنا۔ خود جمہوریتوں میں فاختہ بھی ہوتے ہیں اور شاہین، تبھی تو لوگوں کو امن اچھا لگتا ہے۔ کبھی کبھار ان کے ساتھ دھوکا بھی ہوجاتا ہے۔ جمہوریت نام ہی احتساب کا ہے۔

دو سال ہوگئے، امریکا کی جمہوریت کو اور وہ بھی دھوکا کھاگئے، بیانیہ کا شکار ہوگئے، اس کا مطلب سو فی صد شرح خواندگی رکھتا ہوا امریکا ابھی جاہلوں سے بھرا پڑا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کہتے ہیں ان سیاست دانوں نے دیا کیا ہے؟ تو چلو ایک پاگل امریکا کا صدر بناتے ہیں۔ تب ہی تو رابندر ناتھ ٹیگور اپنے شانتی نکیتن کے بچوں کو درختوں کی شاخ پر بیٹھ کر، ندی کنارے، کھیتوں و کھلیانوں کے نظاروں میں پڑھاتے تھے کہ ان کا من حساس ہو کہ ہندوستان کو رہبر ملے۔

ہم نے عرب شہزادوں سے پیسے لیے، نوکریاں لیں اور ان کو اجازت دی کہ وہ ہمارے بیانیہ میں بگاڑ پیدا کریں، یہاں طرح طرح کے مدرسے کھولیں۔ کل ہم شاہ ایران سے بھی پیسے لیتے تھے کہ بلوچوں کی قومی تحریکوں کو کچلو۔ اس طرح کبھی ہم امریکا کے پٹھو بھی تھے، بس ہمیں آمریت آباد کرنے کی اجازت دو۔

ہم نے اس قوم کی پرورش نہیں کی، یہ تو اس طرح ہے کہ کسی نومولود بچے کو ماں نہ ملے، وحشی ملے، اسے بارود، بندوقوں کے سائے تلے پرورش ملے، اسے عورت غلام کی حیثیت میں نظر آئے، اسے کائنات کا تصور نہایت برا ملے، اسے موسیقی سے، بانسری سے، طبلے سے، رقص سے نفرت سکھائی جائے۔ وہ کیا ہوگا؟ وہ وہی ہوگا جو اسے سکھایا جائے گا۔ میں تو کہتا ہوں اس تعلیم سے بہتر ہے بلھے، باہو، فرید، بھٹائی، سچل، سامی کو پڑھا جائے، یہ آج کی تعلیم سے کئی طرح بہتر ہے۔

آج ہم سب اپنے بیانیہ کو بگاڑ سے بچائیں، اس کے لیے حرکت میں آئیں، ورنہ پھر یہی ہوگا جو ساحر لدھیانوی کہتے ہیں:

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے، کہ جان و دل
تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں