وہ آواز کی دنیا کا جگمگاتا ہیرا تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں فلم ’’شرمیلی‘‘ کا اسکرپٹ اورگانے لکھ رہا تھا
NEW DELHI:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں فلم ''شرمیلی'' کا اسکرپٹ اورگانے لکھ رہا تھا، فلم کے ہدایت کار اقبال اختر تھے اورابھی فلم کی کاسٹ نئی منتخب کی گئی تھی، جن میں ندیم، ممتاز، غلام محی الدین، قوی اورجمشید انصاری شامل تھے۔ اب موسیقارکا انتخاب کرنا باقی تھا انھی دنوں مجھے پتا چلا کہ ڈھاکا کے مشہورموسیقارکریم شہاب الدین لاہور آئے ہوئے ہیں اوران دنوں وہ لاہور ریڈیو اور لاہور ٹیلی ویژن کے لیے موسیقی کا پروگرام سرسنگیت اور سرساگرکر رہے ہیں۔
ٹی وی کے پروگرام سرسنگیت کے پروڈیوسر رفیق وڑائچ تھے اورکریم شہاب الدین کے ساتھ میں سرسنگیت کے لیے گیت لکھنے گیا تھا اوراس دوران باتوں باتوں میں پتا چلا کہ کریم شہاب الدین لاہورکے ایک فلمساز کی دعوت پر اس کی ایک فلم کی موسیقی دینے کے لیے آیا تھا، مگر معاملہ اس کے برعکس ہوگیا تھا اور فلم کے ہدایت کارخالد خورشید سابقہ کے کمارجو بمبئی کی فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہ چکے تھے۔
انھوں نے فلمساز سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ان کی فلم کا موسیقارصرف ایم اشرف ہوگا اور اس خبر سے کریم شہاب الدین کی تمام امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔ اسی لیے وہ وقت گزاری کے لیے لاہور میں ریڈیو اورٹی وی کے لیے کام کررہا تھا، میں نے کریم شہاب الدین کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا !کریم بھائی آپ فکر نہ کریں اگر کسی طرف سے ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اوپر والا اس کے لیے کوئی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ میں آج کل ہدایت کار اقبال اختر کی فلم ''شرمیلی'' کے لیے گیت لکھ رہا ہوں اورابھی تک موسیقارکا انتخاب نہیں ہوا ہے آپ کا ڈھاکا کا دوست ہیرو ندیم شرمیلی کا بھی ہیرو ہے۔
ایک ہفتہ بعد میرے توسط سے شرمیلی کے فلمساز زیڈ چوہدری اور ناظم کے ساتھ کریم شہاب الدین کی ہدایت کار اقبال اختر سے بڑی کامیاب ملاقات رہی جب اقبال اختر کو گفتگو کے دوران یہ پتا چلا کہ ڈھاکا میں کریم شہاب الدین بہت سی بنگالی فلموں کے علاوہ کئی اردو فلموں کی موسیقی بھی دے چکے ہیں۔ ''بیگانہ'' کیسے کیوں اور خاص طور پر فلم چاند اور چاندنی کی موسیقی نے کریم شہاب الدین کو بڑی شہرت دی تھی اور اس فلم میں مسعود رانا کا گایا ہوا ایک گیت جسے شاعر سرور بارہ بنکوی نے لکھا تھا اور جس کے بول تھے۔
تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے
اور اس گیت نے بڑی مقبولیت حاصل کی تھی اور یہ گیت فلم میں ندیم پر فلمایاگیا تھا۔ ہدایت کار اقبال اختر نے پہلی ہی ملاقات میں کریم شہاب الدین کو فلم شرمیلی کا موسیقار منتخب کرلیا تھا۔ اب میں آتا ہوں ایک نئی آواز اے نیئر کی طرف ایک دن کریم شہاب الدین نے شرمیلی کا موسیقار منتخب ہونے کے بعد لاہور کے علاقے مال روڈ کے ایک ہوٹل میں ایک خوش شکل نوجوان سے یہ کہتے ہوئے تعارف کرایا یونس ہمدم یہ نوجوان گلوکار اے نیئر (آرتھرنیئر) ہے۔
گزشتہ دنوں میں نے اس کی آواز میں لاہور ریڈیو کے لیے گیت ریکارڈ کیے ہیں اس آواز میں بڑا دم ہے بس اس آواز کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے، پھر اے نیئر نے دھیمے سروں میں کریم شہاب الدین کی کمپوزیشن میں ایک دو گیت سنائے، میں آنکھیں بند کرکے اس آواز کو سن رہا تھا۔ اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں ہندوستان کے لیجنڈ گلوکار کشورکمار کو سن رہا ہوں۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو اے نیئر کو دیکھ کر مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہی نوجوان خوبصورت آواز میں گیت سنارہا تھا۔
میں نے بے ساختہ کہا ''یار تمہاری آواز میں تو بڑا جادو ہے'' ابھی تک تم فلموں سے کیوں دور ہو۔ تم توکشور کمار کا دوسرا روپ ہو، اے نیئر نے مسکراتے ہوئے کہا ہمدم صاحب! میں لاہور ہی میں پل بڑھ کر جوان ہوا ہوں اور لاہور کے ہر بڑے موسیقار کی نظروں میں بھی آگیا ہوں مگر مجھے ابھی تک فلم ''بہشت'' میں گلوکارہ روبینہ بدرکے ساتھ ایک دو گیت گانے کا موقع ملا ہے ابھی تک کسی نے بھی مجھے بحیثیت سولوسنگر نہ موقع دیا ہے اور نہ ہی کسی نے یہ رسک لینے کی کوشش کی ہے بس ہر موسیقار میری آوازکی تعریف ضرور کرتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ کب میری قسمت کھلتی ہے ہاں اب کریم بھائی نے میری آس بندھائی ہے کہ انھیں جو بھی لاہور کی پہلی فلم ملے گی وہ مجھے سولو گیت ضرور گوائیںگے۔ میں نے کریم شہاب الدین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کریم بھائی وہ جوہری ہیں جنھیں ہیرے کی بہت اچھی طرح پرکھ آتی ہے پھر میں نے اے نیئر سے کہا فلم شرمیلی میں ایک سولو Sad سونگ کی بھی کولیشن ہے تمہاری خوبصورت آواز اب اس گیت کا لباس بنے گی پھر یوں ہوا کہ کریم شہاب الدین نے جو ایک گیت ریڈیو کے لیے گوایا تھا اس کی دھن مجھے سنائی جو مجھے بھی بہت بھائی اوراس کی موسیقی نے میرے دل پر بھی بڑا اثر کیا۔
میں نے کریم شہاب الدین سے کہاکہ کریم بھائی مجھے اس دھن نے بڑا انسپائر کیا ہے اب ہم سب سے پہلے اسی دھن پرکام کریںگے دوسرے دن شام کو کریم شہاب الدین کے گھر پر میری اے نیئر سے دوسری ملاقات ہوئی وہ اس رات کریم شہاب الدین کو بذریعہ کار گوجرانوالہ اپنے ایک دوست کی دعوت میں لے کر جا رہا تھا ۔اس نے مجھے بھی کہا ہمدم صاحب اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ بھی ہمارے ساتھ گوجرانوالہ چلیں آپ بھی ساتھ ہوںگے تو بڑا مزا آئے گا میرا دوست بھی ایک نامور موسیقار اورایک شاعر ہے وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوگا۔ اور اس طرح آپ کی بھی کچھ Outing ہوجائے گی اور پھر ہم شام کی چائے پینے کے بعد تینوں افراد کار کے ذریعے گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہوئے۔
اس دوران میرے کہنے پر کریم شہاب الدین نے لائٹر پر انگلیوں سے وہ مخصوص دھن بجائی جس پر میں گیت لکھنا چاہتا تھا، موسیقار دھن سناتا رہا اور میں اس دھن پر گیت کے الفاظ موزوں کرتا رہا اور درمیان میں اے نیئر بھی اپنی آواز کا جادو جگاتا رہا، جب ہم تینوں گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوئے تو دھن پر مطلوبہ گیت مکمل ہوچکا تھا اور وہ گیت کچھ یوں تھا۔
جی رہے ہیں ہم تنہا اور تیرا غم تنہا
کیسے ہم اٹھائیںگے تیرا ہر ستم تنہا
ساتھ کوئی کیا دے گا زندگی کی راہوں میں
چین ہم نہ پائیںگے روئیںگے صنم تنہا
یہ ہوا بھی روتی ہے میرے دل کے زخموں پر
کیسے مسکرائے گی میری چشم نم تنہا
اور اس طرح راستے ہی راستے میں گیت کی پہلی ریہرسل بھی بہترین ہوگئی۔ دوسرے دن ہدایت کار اقبال کے گھر کریم شہاب الدین میں اور اے نیئر تینوں موجود تھے۔ اے نیئر نے بڑے اعتماد کے ساتھ وہ سیڈ سانگ اقبال اختر صاحب کو سنایا اس فریش اور جان دار آواز کو اقبال اختر نے بھی سراہا پھر ہدایت کار سے پہلی ہی ملاقات میں اے نیئر کے لیے سولو گیت OK ہوگیا تھا۔ چند دنوں کے بعد یہ گیت اے ایم اسٹوڈیو میں اے نیئر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا، اتفاق سے اسی اسٹوڈیو میں اداکار ندیم کی ایک فلم کی شوٹنگ بھی چل رہی تھی۔
اسی دوران ندیم نے بھی یہ گیت سنا اور اس نئی آواز کی بڑی تعریف کی ابھی ندیم کی شوٹنگ کی تاریخیں نہ ملنے کی وجہ سے شرمیلی کی شوٹنگ کا آغاز نہیں ہوسکا تھا مگر اے نیئر کے اس گیت کی ہر طرف دھوم مچ گئی تھی اور ہر اسٹوڈیو میں اس آوازکی خوشبو پہنچ چکی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ اے نیئر کے پہلے سولوگیت نے اس کی شہرت کے سارے دروازے کھول دیے تھے۔ اس کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا جس طرح گلوکار اخلاق احمد اپنے ایک ہی سولو سانگ ساون آئے، ساون جائے سے فلمی دنیا میں چھاگیا تھا۔
اسی طرح اے نیئر اپنے اس پہلے سانگ کے بعد ہی لاہور کے مشہور موسیقار کی گڈ بک میں آگیا تھا اور اب اس پر فلموں کے گیت بارش کی طرح برس رہے تھے جس تیز رفتاری سے اس کے گیتوں کی مختلف اسٹوڈیوز میں ریکارڈنگ ہورہی تھی وہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت تھی، پھر بد قسمتی سے یہ ایک مہلک بیماری کا شکار ہوگیا، شوکت خانم اسپتال میں اس کا علاج ہوا اور یہ صحت یاب ہوگیا اب یہ پھر سے گیت گانا چاہتاتھا مگر چڑھتے سورج کے پجاری لوگوں نے اب اے نیئر سے آنکھیں چرانی شروع کردی تھیں۔
یہ فلمی دنیا کے لوگوں کی بے حسی کی وجہ سے نا امیدی کی دھند میں لپٹتا چلا گیا اور آہستہ آہستہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوگیا اور پھر ایک وہ وقت بھی آگیا کہ زندگی کا دامن اس سے چھوٹنے لگا اور دل ہی کا مرض جان لیوا ثابت ہوا اور آواز کی دنیا کا جگمگاتا ہیرا اپنی آب و تاب کھو بیٹھا۔