منفی اثرات
حالات وواقعات انسانوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں
حالات وواقعات انسانوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کبھی مثبت انداز میں اور کبھی منفی انداز میں، یہی حالات و واقعات نہ صرف ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ یہ آنے والے دنوں اور سالوں پر اپنا گہرا اثر رکھتے ہیں، ہمارے ملک میں 70 سالہ آزادی کے باوجود ہندوستان کے اثرات ہم پر حاوی ہیں۔
بزرگوار بات بات پر اپنی پیدائشی جگہوں کے حوالے دیتے ہیں، اپنے رہن سہن کی ایسی داستانیں سناتے ہیں کہ گویا ہم جنگل میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں کچھ سیاسی رہنماؤں کے دلوں میں آج بھی ہندوستان راج کرتا ہے مگر سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ آزادی، خود مختاری کی نعمت کتنی عالیشان نعمت ہے، ذرا دیکھیے تو کشمیر کی 70 سالہ آزادی کی جد وجہد کو کہ پل پل مقبوضہ کشمیر میں عوام کانٹوں پر زندگی گزار رہے ہیں، شہادتیں ہورہی ہے، معذوریاں ہورہی ہے۔
خواتین کی عصمت دری بھی ہوجاتی ہے مگر یہ کشمیر آزادی کے لیے جہاد کیے جا رہے ہیں اور ہم آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنے ڈرائنگ رومز کے نرم و گداز صوفوں پر بیٹھ کر اسی آزادی کی دھجیاں بکھیرنے سے باز نہیں آتے، سلام ان لوگوں پر جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے اور نسل در نسل وہ افواج میں بھی شامل ہوتے ہیں، اس ملک کی آزادی کی حفاظت کے لیے بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ وفاداری ایک ایسی نعمت عظیم ہے جو چھوٹی ہو یا بڑی مگر اس کا مقام وہ نہیں جو ہونا چاہیے۔
مقام اور رتبہ تو اﷲ پاک ہی عطا فرماتا ہے جس کو بھی چاہے دے۔ مگر اﷲ ہی نے انسانوں کو اختیار بھی دیا ہے کہ وہ اپنے راستے خود چن لے اور ان راستوں پر چلے، مگر اس اختیار سے پہلے اﷲ پاک اپنے احکامات کے ذریعے صحیح اور غلط بھی بتادیتا ہے، سکھادیتا ہے آگ اور پھول کی پہچان بھی کروادیتا ہے اور بار بار ہدایت مانگنے پر بھی زور دیتا ہے جو سن لیتے ہیں وہ اتنی صحیح سمت چن لیتے ہیں اور جو اپنی من مانیوں پر تلے ہوتے ہیں وہ اپنی من مانیاں کرتے ہی چلے جارہے ہیں ارد گرد کے لوگ ڈھول پیٹ پیٹ کر ان کو سمجھانے کی، ان کو بتانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر کیا کیجیے بد بختی شاید کبھی سونے کی پلیٹ میں بھی آتی ہے۔
یہی سب کچھ آج کل ہم بھی اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں ۔ جمعرات کو ترکی کے صدر مشترکہ پارلیمنٹ سے خطاب فرمارہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ اﷲ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ہمیں اسی سے مدد مانگنی چاہیے اور رسول پاکؐ کے راستے پر چلنا چاہیے یہ خطاب ہماری مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہورہا تھا جہاں الحمدﷲ کہ زیادہ ارکان اپنے آپ کو اﷲ اور رسولؐ کے محبت کرنے والوں میں کہتے ہیں۔
الحمدﷲ! ایک ترکی صدر بھی ہمیں ﷲ اور رسولؐ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم ہیں کہ اپنے آبا ؤاجداد کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں، مفادات کی جنگ میں کہاں تک جارہے ہیں اس کا خمیازہ یقیناً آنے والی نسلیں ضرور بھگتیں گی۔ دولت، جاہ جلال، محلات اگر یہی چیزیں قابل فخر ہوتیں تو فرعون کیوں نشان عبرت بنتا؟
اونچے اونچے پہاڑ، لہلہاتے سبزہ زار، روانی سے بہتا ہوا پانی، آسمانوں پر چمکتے ہوئے ستارے، سورج، چاند، ہوا ایک سسٹم میں چلے جارہے ہیں نہ ہم انھیں روک سکتے ہیں اور نہ ہم ان کو چلاسکتے ہیں، حیرت انگیز طور پر چلنے والا یہ سسٹم کیا کبھی ہمیں سوچنے پر مجبور نہیں کرتا کہ بہت ضروری ہے ایک نظام، جو یقیناً غلطیوں سے پاک نظام تو نہیں ہوگا مگر چھوٹے بڑے تمام انسانوں کے لیے ان کی زندگیوں کو بہتر کرنے کے لیے ضرور ہو، منفی اثرات سے بچانے والا ایک مثبت نظام ہو جہاں کچھ قانون ہوں، جہاں کچھ اصول ہوں، مگر پیچھا کریں ہم رسول پاکؐ کے اس قول کا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہ ہو بلکہ متقی ہونا ہی بڑی خوبی سمجھا جائے۔
متقی ہونے کے لیے اونچی شلوار پہننا یا داڑھی رکھ کر مولانا کہلانا ہی ضروری نہیں بلکہ متقی ہونے کے لیے دل میں ﷲ کا ہونا ضروری ہے، سنت رسولؐ کو فالو کرنا یا نہ کرنا سب اختیار بندے کے پاس موجود ہے۔
بہر حال باہر سے لوگ آکر ہمیں ہمارا ہی راستہ دکھائے تو ہم کیا کہیں! جد وجہد کا تسلسل تو ہمیں کشمیریوں سے سیکھنا چاہیے اور اپنی آزادی کی ایسی قدر کرنی چاہیے جیسے اس کا حق ہے۔ اپنی توانیاں، اپنی عقل، اپنی ذہانت اس ملک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے میں لگانا ہی ہوش مندی ہے بہترین علم کا حصول، مناسب حد تک یہ ایک شہری کے اختیار میں ہو، جب اﷲ نے انسان بنایا ہے تو کیوں ریاست جانوروں کی طرح ٹریٹ کرے، نہ بھولیے کہ اﷲ سے بڑا منصف کوئی نہیں، پاور کی جنگ کو ایسے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں پر مسلط نہ کرے کہ آنکھوں پر ہمیشہ کے لیے اندھیرے چھا جائیں کہ کوئی روشنی کی کرن بھی نظر نہ آئے ۔
سیاست تو ایک مقدس فریضہ ہے انسانوں کی بھلائی کے لیے جد وجہد کرنا تو عظیم کام ہے اس کام کو اس نام کو ایسا کالا کیا جارہاہے کہ لگتا ہے آج کے گلی محلوں میں ڈاکے ڈالنے والے شاید کل مسندوں پر ہوںگے، مختلف طریقوں سے چوریاں کرنے والے اسمارٹ بن گئے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بنانے والے ذہین کہلاتے ہیں، مدرسوں میں پڑھنے والے مستقبل کے دہشت گرد کہلانے لگے ہیں، مساجد اور مدرسوں پر مشکوک نگاہیں ڈالی جاتی ہیں اعلیٰ تعلیم مخلوط شکل میں موجود ہے جہاں ہم لبرل اور مارڈرن کہلاتے ہیں۔
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں جنریشن کو دیکھ کر دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے کہ واہ ہم بھی یورپ سے کم نہیں، کیا ہوا اگر ہم یورپ میں نہیں رہتے تو کیا ہم یہاں ایسا نہیں کرسکتے ہیں؟ کیوںکہ نظام کا تسلسل آزادی کے بعد سے قائم نہیں رہا خاص طور پر تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کو مکمل نظر انداز کیا گیا اور اب اور مزید کیا جارہاہے اس لیے منفی اثرات نے جڑیں کافی گہری جمالی ہیں حکمران اور سیاست دان نے اپنے فرائض کے ساتھ بالکل انصاف نہیں کیا، طاقت ملتے ہی طاقت کے نشے میں گم ہوگئے لہٰذا اپنی نسلوں پر بھی منفی اثرات چھوڑگئے جو مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں، حالانکہ انفرادی ضرورت سے زیادہ اجتماعی ضروریات ہی آسانی پیدا کرتی ہے۔