ترکی پاک و ہند

ان تینوں ملکوں میں منتخب حکومتیں ہیں اور وہ اپنے آپ کو جمہوری نظام کا حصہ سمجھتے ہیں


Zuber Rehman November 19, 2016
[email protected]

ان تینوں ملکوں میں منتخب حکومتیں ہیں اور وہ اپنے آپ کو جمہوری نظام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کبھی گڑ بڑ ہو جاتی ہے تو فریقین سسٹم (نظام) کو بچانے کی بات کرتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ کون سا نظام ہے؟ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو یہ کوئی نظام نہیں ہے، یہ طریقہ انتخاب اور اکثریتی رائے پر عمل درآمد کرنے کاطریقہ ہے۔

نظام تو ہے امداد باہمی، غلامی، جاگیرداری، سرمایہ داری اور پھر امداد باہمی کا آزاد معاشرہ۔ جمہوریت تو ہر دور میں رہی، غلامانہ نظام میں بھی جمہوریت تھی مگر غلاموں کو رائے دینے کا حق نہیں تھا۔ جاگیرداری میں کسانوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا اور اب سرمایہ داری میں مزدوروں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ آپ فوراً یہ کہیں گے کہ یہ کیسی بات ہے؟

دنیا بھر میں سرمایہ داری ہے اور مزدور ووٹ ڈالتے ہیں جی ہاں! بظاہر ایسا ہی نظر آتا ہے اب امریکا کو ہی دیکھ لیں، برنی سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ امیدوار تھے مگر غریب ہونے کی وجہ سے زیادہ آگے نہ بڑھ پائے۔ برطانیہ میں جب ایک سوشلسٹ جیمری کوربون حزب اختلاف کا لیڈر بننے کے بعد یہ کہتا ہے کہ ''میں اگر وزیراعظم بن گیا تو نیٹو کا سب میرین میں چھایا ہوا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لوں گا اور جنگ نہیں کرنے دوں گا'' تو اس پر برطانیہ کی فوج کہتی ہے کہ ''ہم پھر بغاوت کردیں گے'' یہ ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت۔

1871 میں جب دنیا کا پہلا محنت کشوں کا انقلاب برپا ہوا تھا تو اسمبلی میں اکثریت مزدوروں کی تھی۔ آج دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے، جہاں اسمبلی میں محنت کشوں، کسانوں اور پیداواری قوتیں اکثریت میں ہیں؟ ووٹ تو غریب دے سکتا ہے لیکن انتخابات میں امیدوار بن سکتا ہے اور نہ منتخب ہوسکتا ہے۔ سرمایہ دار دنیا میں کونسے ملک میں وہ کون سا اسمبلی رکن ہے جوپیدل یا بس میں سفر کر کے اسمبلی میں پہنچتا ہے۔

ترکی میں کچھ عرصے قبل فوجی بغاوت ہوئی بظاہر عوام سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا،درحقیقت یہ فوجی بغاوت نہیں تھی ایک ہی جماعت میں اردوان اور فتح اﷲ گولن تھے۔ 2013 میں یہ الگ ہوگئے تھے دونوں سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ تھے اور ہیں۔ فرق نعروں کا ہے بظاہر گولن اپنے آپ کو مولانا رومی کے پیروکار کہتے ہیں اور اردوان سلطنت عثمانیہ کو از سرنو قائم کرنا چاہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے، ترکی میں نیٹو کے ماتحت جرمنی کا فوجی اڈہ ہے ترکی اسرائیل اور سعودی بادشاہت کا دوست ہے۔ شام میں داعش کا حامی رہا شاید اندرونی خانہ اب بھی ہے بظاہر جو فوجی بغاوت ہوئی اس کے بعد فوج اور پولیس کے علاوہ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، نرسوں، استادوں، وکلا، ججوں، سرکاری ملازمین، صحافیوں، ڈاکٹروں اور درسگاہوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ اب تک درجنوں ٹی وی چینلوں اور اخبارات پر پابندی لگ چکی ہے۔

اسمبلی اراکین اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے۔ صحافیوں، استادوں اور فوجیوں پر شدید جسمانی تشدد کیا جارہا ہے لوگوں کو سزائے موت دینے کی بھی تیاری ہورہی ہے یہ ایک لمبی داستان بن چکی ہے۔ ترکی میں یہ آئین ہے کہ اگر کوئی پارٹی درجنوں نشستیں حاصل کر بھی لے اور کل پڑنے والے ووٹوں کا 10 فی صد حاصل نہ کر پائے تو ایک بھی منتخب شخص اسمبلی میں نہیں جاسکتا ہے مگر اس بار بائیں بازو کے اتحاد نے 12 فی صد ووٹ لے کر 80 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔

فوجی بغاوت کی تو حزب اختلاف نے بھی مخالفت کی اور بہت بڑے مظاہرے کیے۔ لیکن اردوان حکومت بلا امتیاز عوام پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ کردوں پر گولیاں برسا رہی ہے جب کہ انھیں کردوں نے شام اور عراق میں داعش کو شکست سے دو چار کیا ہے جب کہ عوام بے روزگاری اور مہنگائی سے پریشان ہیں۔

پاکستان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہاں ہر ہفتہ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے یہاں حکمران اور نوکر شاہی نان ایشوز پر مصنوعی لڑائی میں بھڑے رہتے ہیں حکمران طبقات (حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف) ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور کچھ عرصہ وقت گزرنے کے بعد سب بھول بھال جاتے ہیں۔ ہاں مگر بلدیہ ٹاؤن کراچی اور گڈانی حب میں جب سیکڑوں مزدور شہید ہوتے ہیں تو انھیں کوئی بھی معاوضہ دیتا ہے اور نہ ان کے قاتلوں کو سزا ملتی ہے اس لیے کہ وہ مزدور ہیں۔ یہاں بھی فوجی آمریت ہو یا جمہوریت ہے مگر سرمایہ داری۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قرضہ لیتے لیتے پاکستان کو ہی گروی رکھ دیا گیا ہے جب پاکستان بنا تو 3 روپے کا ایک ڈالر تھا اور اب 104 روپے کا ایک ڈالر ہے ایک تولہ سونے کی قیمت اگر 60 روپے تھی تو تنخواہ 50 روپے اور آج سونا 50,000 روپے تولہ اور تنخواہ کم از کم 10 ہزار روپے۔ حکومت نے 14 ہزار کا اعلان کیا ہے مگر 95 فی صد لوگوں کو 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہیں نصیب ہوتی ہیں، ہڑتالیں، ہنگامے، ٹی وی ٹاک شوز چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ دالیں 250، 230، 160 روپے کلو کیوں ہے؟ چاول 100 اور آٹا 50 روپے کلو کیوں؟ چینی 73 اور دودھ 83 روپے کلو کیوں؟، تیل 200 روپے کلو اور گوشت 250،400 اور 700 روپے کلو کیوں ہے؟ جب کہ بندوق اور گولیاں سستی ہورہی ہیں بلکہ کرایوں پر کیوں مل جاتی ہیں؟ سیاسی جماعتیں آٹا سستا کرنے کے لیے کیوں ہڑتال نہیں کرتیں؟... یہ ہے سرمایہ داری، بد عنوانی، بے روزگاری اور مہنگائی سرمایہ داری کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے ۔

یہی صورتحال ہندوستان کی ہے، ایک جانب 49 ارب پتی ہیں تو دوسری جانب 34 کروڑ لوگ بے روزگار۔ مودی سرکار کے پاس انتہا پسندی کو ابھار کر اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے کوئی اور راستہ باقی نہ رہا۔ ہر موقعے پر خواہ فلمی ہو یا ثقافتی، انتہا پسند ہندو فوراً پر تشدد مظاہرہ کرکے ماحول کو آلودہ کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں خاص کر سندھ کے وڈیروں کی نجی قید سے عدالت کے ذریعے رہائی پانے والے ہاری سو فی صد ہندو(کولہی اور بھیل) ہوتے ہیں۔ عدالت کچھ نجی جیلوں سے انھیں رہا کروا دیتی ہے لیکن ابھی تک ان محنت کشوں کو مقید رکھنے کے جرم میں کسی بھی وڈیرے کو سزا نہیں ملی۔

31 اکتوبر 2016 کو جب مرکزی حکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 لگاتی ہے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں پر آنسو گیس استعمال کرتی ہے تو اسی دن اسلام آباد میں ہیایک مذہبی جماعت کو جلوس نکالنے اور جلسہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ ہندوستان میں خاص کر کشمیری نوجوانوں پر شدید ظلم ڈھائے جانے کے باوجود سرمایہ دار دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

سیکڑوں نوجوانوں کی آنکھیں ضایع ہوچکی ہیں اور شہید ہوچکے ہیں بھارتی حکومت کے جبر کے خلاف جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی دہلی میں کشمیری رہنما افضل گورو کی برسی پر جلسہ کرنے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے طلبہ ونگ کے رہنما کنہیا کمار کو گرفتار کیا جاتا ہے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہندوستان کی 12 بڑی یونی ورسٹیوں میں ہڑتال ہوتی ہیں اور اس کی خبر پاکستانی میڈیا غائب کردیتا ہے۔

2 ستمبر 2016 کو انڈین کمیونسٹ اتحاد کے کال پر 18 کروڑ عوام کی ہڑتال کو بھی پاکستانی میڈیا دکھانے کے بجائے غائب کردیتا ہے جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ترکی کے کان کنان کے مزدوروں کی ہڑتال ہو، ہندوستان کے کروڑوں مزدوروں کی ہڑتال ہو یا گڈانی میں سیکڑوں مزدوروں کے جھلس کر مرنے کے خلاف 10 ہزار مزدوروں کا ہڑتال ہو اس سے محنت کشوں کی حوصلہ افزائی اور یکجہتی بڑھتی ہے اور اس اتحاد کو بڑھتے ہوئے ان ممالک کے حکمران قطعی تیار نہیں مگر ان عوامی جد وجہد کو کب تک چھپائیں گے۔

ہندوستان کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان کے 92 ہزار مربع میل جنگلات پر ماؤ نواز کمیونسٹوں کا قبضہ ہے اب محنت کشوں کے اس سیلاب کو کوئی روک نہیں سکتا ہے، حکمران آپس میں جتنی بھی نورا کشتی کرلیں عوام سب سمجھتے ہیں وہ محنت کشوں کے انقلاب پر ہی یقین رکھتے ہیں وہ دن جلد آنے والا ہے کہ ترکی، پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی انقلاب برپا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں