مجھے کون بچائے گا
میں ان دنوں کالمانہ دنیا سے دور ہوں اور بعض دوسرے غیرتحریری کاموں میں الجھا ہوا ہوں
میں ان دنوں کالمانہ دنیا سے دور ہوں اور بعض دوسرے غیرتحریری کاموں میں الجھا ہوا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ میں تو ایک صحافی تھا، یہ کاشتکاری وغیرہ میرے لیے نہیں ہے اور نہ میں اس کے لیے ہوں لیکن زندگی میں کتنی ہی ناپسندیدہ اور غیرمتعلقہ مصروفیات بھی گلے پڑ جاتی ہیں اور نبھانا پڑتی ہیں۔ میں کھیتوں کے سامنے بیٹھا ہوں اور کھیتوں کو بارش کی طلب میں تڑپتا دیکھ رہا ہوں۔
کئی بار عرض کیا ہے کہ میں ایک بارانی علاقے کا کاشتکار ہوں جس کی کاشتکاری بارش کی مہربانی اور کرم فرمائی کی محتاج ہوتی ہے۔ جتنی بارش برسی اتنی ہی کاشتکاری بھی چل پڑی اور کھیتوں کی خشک مٹی اور سارا ماحول گردآلود۔ میں ایک مشہور علاقے اور وادی کا باشندہ ہوں، وادیٔ سون سکیسر لیکن میرا اس خوبصورت وادی سے برائے نام تعلق ہے کہ میں کھیتوں سے دور لاہور میں کام کرتا ہوں۔
میں اپنی مصروفیت اپنے کھیتوں میں تلاش کرتا تھا لیکن اب زندگی اس قدر بدل چکی ہے کہ کھیت اب خواب وخیال کی دنیا میں آباد ہیں اور میں ان کھیتوں سے دور شہری زندگی میں پھنسا ہوا ہوں جب کہ میرا شہری زندگی کی ان مصروفیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہاں زمین کی کاشت اور اس پر ہل کی لکیریں اور کہاں قلم اور کاغذ، لکیریں تو اس پر بھی ہوتی ہے لیکن ان کی زندگی بہت مختلف ہوتی ہے اور اس کی قدر صرف ایک کاشتکار ہی کر سکتا ہے۔
میں کاشتکاری اور قلم کاری کا موازنہ کرنا چاہتا ہوں لیکن کر نہیں پاؤں گا۔ کاشتکاری میری فطرت میں ہے جب کہ قلم کاری میں نے زبردستی اختیار کی ہے یعنی مجبوری کی حالت میں۔ اگر میں گاؤں چھوڑ کر شہروں کی متعفن دنیا میں نہ آتا تو شاید میں قلمکاری بھی کچھ بہتر کر پاتا، صرف کاغذ سیاہ نہ کرتا اور اپنے الٹ پلٹ خیالات سے قارئین کو بدمزہ نہ کرتا۔ جو تازگی تحریروں میں ہو سکتی ہے وہ شہروں میں آ کر ختم ہو جاتی ہے جہاں گندے نالے اور رکشوں کا شور زندگی کو بدمزہ کر دیتا ہے۔
میں کبھی گاؤں کی زندگی کو یاد کرتا ہوں تو اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں جس نے بس یوہنی ادھر ادھر کی باتوں میں آ کر اپنی سادہ صاف ستھری اور اجلی زندگی ترک کر دی اور اس کے بدلے میں شہر کی زندگی حاصل کر لی جو آپ بھی میری طرح جانتے ہیں۔
میں بارانی علاقے کا رہنے والا ہوں اور اس طرح میں بارشوں کی آلودگی کو شاذ ونادر بھگتتا ہوں لیکن یہاں شہروں میں جب بھی کسی منظر کا گاؤں کے ساتھ موازنہ کرنا پڑتا ہے تو اپنے آپ کو ملامت کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں ایک صاف ستھری اور اجلی زندگی ترک کر کے یہاں بجلی کی محتاج زندگی بسر کر رہا ہوں کہ اے سی ہے تو بجلی کا محتاج اور ہیٹر ہے تو بجلی اور گیس کا طلب گار۔
سادہ، بے غرض اور لاپروا زندگی گاؤں کی ہے جسے ہم لوگ کسی لالچ میں ترک کر کے شہروں کے گندے نالوں کے گرد آباد ہو جاتے ہیں اور ان میں میں خود بھی شامل ہوں۔ یہ درست کہ میں اپنی نوکری وغیرہ کی وجہ سے ذرا آزاد زندگی بسر کر رہا ہوں لیکن اب تو بجلی اور گیس دونوں اپنا اپنا اعتبار کھو چکی ہیں اور جب ان میں سے کوئی ایک چلی جاتی ہے تو زندگی بدمزہ اور بے کار کر جاتی ہے۔
اب ہر کام بجلی سے چلتا ہے اور جب میں نے باورچی خانے میں بھی بجلی کا چلن دیکھا تو گاؤں چھوڑنے پر اپنی بے حد ملامت کی۔ جو لطف گاؤں کی زندگی میں ہے وہ شہروں میں کہاں مگر ہمارے حکمران اور عوام کی زندگی کو آسان بنانے والوں نے جس لاپروائی کا ثبوت دیا اس نے شہروں اور دیہات کو غدر کر دیا ہے۔ جو مزا گاؤں کے لکڑیوں والے چولہے میں تھا وہ شہر کے بجلی اور گیس سے چلنے والے چولہے میں کہاں۔ ایک بے اعتبار زندگی کبھی گیس بند تو کبھی بجلی غائب۔
ہمارے گاؤں میں جہاں زندگی کا خوبصورت حصہ یعنی بچپن گزرا اس کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں جو شہری زندگی میں تازہ بھی نہیں ہوتیں۔ یہاں بجلی ہے، گیس ہے اور پھر ان کا بل ہے۔ جان لیوا بل جو تنخواہ لے جاتا ہے اور کاغذ کا ایک ٹکڑا چھوڑ جاتا ہے۔ اسے سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہ دوسرا بل غلط ہو اور اس پرانے بل کے ٹکڑے میں ہی نجات ہو۔
ایک دفعہ مسلسل غلط بل موصول ہوا تو میں نے ادھر ادھر سے پتہ کیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ متعلقہ کلرک اپنے حالات سے اس قدر بے زار ہو رہا ہے کہ وہ اس کا انتقام دوسروں سے لیتا ہے۔ ہماری اول سے آخر تک کی بدانتظامی نے عوام کی زندگی تلخ کر دی ہے لیکن نہ بجلی کے بغیر گزارا نہ گیس کے بغیر۔ ہم سب حالات اور وہ بھی خودساختہ حالات کے رحم وکرم پر۔
جب کسی ایک اہلکار کی زندگی خراب ہو گی تو وہ اس کا بدلہ ہم آپ سے لے گا۔ نہ اپنے ہم نفس کلرک سے اور نہ اپنے اوپر کے افسر سے۔ مارے جاتے ہیں ہم لوگ جو نہ کلرک ہیں نہ افسر ہیں اور نہ ہمارے پاس اپنے بچاؤ کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ ہم لوگ ایک آزاد قوم کے فرد ہیں، دوسروں کی غلامی سے آزاد ہو چکے ہیں لیکن اپنوں کے غلام بن گئے ہیں۔
ہماری عام زندگی یعنی شہری زندگی بدانتظامی اور متعلقہ ذمے دار لوگوں کی لاپروائی کا شکار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک افسر کے منہ سے سچ نکل گیا کہ جب سرکاری اہلکار کی زندگی مشکل میں ہو گی تو پھر وہ اس کا بدلہ کس سے لے گا۔ خود سوچ لیجیے لیکن عام آدمی کو بچائے گا کون۔