چند ہمعصر تخلیق کار …حصہ دوئم
شگفتگی اور روانی اس کتاب کا خاصہ ہے مذکورہ کتاب کی تحریریں خود بھی ہنستی ہیں
ندا فاضلی کے حوالے سے 2 شعر جو ان کے مذہبی افکارکو نمایاں کرتے ہیں:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
پھوٹی کرن اذان کی، جاگے پنچھی ڈھور
چڑیوں کی چہکار میں، کرے تلاوت بھور
ادارہ رنگ ادب پابندی سے ایک جریدہ ''رنگ ادب'' کے عنوان سے نکالتا ہے، کتابی سلسلہ نمبر 40 تازہ شمارہ ہے۔ 384 صفحات پر مشتمل ہے ، اصنافِ سخن کے اعتبار سے مختلف خانوں میں قلم کاروں کی تحریریں جگمگارہی ہیں۔ شاعری، مضامین، رنگ افسانہ، رنگ تبصرہ، رنگ مزاح اور رنگ ترجمہ کے رنگوں نے سہ ماہی رنگ ادب کو وقعت بخشی ہے، تخلیق کاروں میں اہم نام شامل ہیں۔ کتاب کا نام ہے ''آتشِ زیر پا'' مصنف اصغر خان ہیں، اصغر خان طنز و مزاح کے حوالے سے گزشتہ برسوں میں ''خان کی ڈائری'' کے عنوان سے ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔
شگفتگی اور روانی اس کتاب کا خاصہ ہے مذکورہ کتاب کی تحریریں خود بھی ہنستی ہیں اور اپنے قارئین کو بھی مسکرانے اور ہنسانے کا کام فریضہ بخوبی انجام دیتی ہیں۔ ''اصغر مرے آگے'' جناب انور احمد علوی کا مضمون ہے اور دوسرا مضمون جس کا میں تذکرہ کرنے جارہی ہوں باپ بیٹی اصغر خان کی تحریر ہے دونوں مضامین پڑھنے اور جی کو خوش کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتاب 2005میں بزم تخلیق ادب پاکستان سے شایع ہوئی تھی۔ ''آتشِ زیر پا'' اول 2000 میں اور دوم 2016 میں رنگ ادب پبلی کیشنز سے شایع کی۔
اپنے مضمون ''رسمی تعارف'' میں مصنف فرماتے ہیں کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ میرے سوچنے کی عادت اور سوچ کے نتیجے میں جو کچھ مجھے سمجھ میں آیا اس کے اظہار کے لیے میں نے جو کینوس منتخب کیا وہ شاعری تھی ان کے اس خیال کے برعکس ''خان کی ڈائری'' نثری فن پاروں سے مزین ہے، ثابت یہ ہوا کہ اصغر خان شاعری ہو یا نثر نگاری اپنا مدعا بخوبی فنی نزاکتوں کے ساتھ بیان کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے ہیں۔
آتش زیر پا 320 صفحات پر مشتمل ہے۔کچھ مضامین نے اور باقی صفحوں پر ان کی شاعری نے جگہ بنالی ہے۔ غزلیں، نظمیں، گیت اور ہائیکو نما اور متفرقات اور اصنافِ شاعری کو ایک بامعنی اور خوبصورت پیراہن میں ڈھالا ہے۔ معنی آفرینی سے مرجع شاعری قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ اس کتاب کی پہلی غزل سے چند اشعار نذر قارئین:
لہریں جب بے قرار ہوتی ہیں
کشتیاں جلد پار ہوتی ہیں
کچھ تو دل کا غبار چھٹتا ہے
آنکھیں جب اشک بار ہوتی ہیں
وہ جنھیں اہل دل بساتے ہیں
بستیاں شاندار ہوتی ہیں
اصغر خان کے لکھے ہوئے ہائیکو بھی حالات حاضرہ کا پتا دیتے ہیں اور ماضی پر نوحہ، کچھ اس انداز میں نمایاں ہوا ہے۔
روٹی کپڑا اور مکان ... مارکس سے لے کر بھٹو تک نعروں کی دکان
ان کے قرضے معاف ... پھندا اپنی گردن میں
وہ تو نکل گئے صاف۔
آٹا مہنگا سستی جان ... آؤ بچوں سیرکرائیں
یہ ہے پاکستان۔
دو شعر اور
غم، خوشی، رنج اور راحت سب
سانپ سیڑھی کا کھیل ہے یارو
میرا اس سے پناہ ممکن ہے
آگ پانی کا میل ہے یارو
اصغر خان اہل زبان نہیں ہیں ان کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اس کے باوجود انھوں نے اردو زبان میں جو گل افشانیاں کی ہیں اور اپنے حصے کی فصل اُگائی ہے وہ یقینا قابل تحسین ہے۔
''جانے پہچانے'' اور پچھلے پہرکی چاندنی، اول الذکر کتاب خاکے اور مضامین پر مشتمل ہے جب کہ ثانی الذکر شعری مجموعہ ہے دونوں کتابوں کے خالق جناب انور فرہاد ہیں جوکہ مبصر ومعروف قلمکار ہیں ایک زمانہ گزرا اس وقت سے شعر و سخن کے پودوں کی آبیاری کررہے ہیں ان کی کتاب '''جانے پہچانے'' میں خاکے اور مضامین شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اپنے دوست و احباب کے حوالے سے بہت سی معلومات کے در وا کیے ہیں اسلوب بیان سادہ اور دلنشین ہے ان کا لکھا ہوا خاکہ یا مضمون ایسا نہیں ہے کہ جس کی چند سطریں پڑھنے کے بعد دل اُگتا جائے میں نے کئی قابل قدر شخصیات پر لکھے گئے مضامین پڑھے۔
ڈاکٹر حنیف فوق، شہزاد منظر، احمد زین الدین، محی الدین نواب، واحد نظامی، سرور بارہ بنکوی، پروفیسر ہارون الرشید مذکورہ قابل احترام شخصیات سے ملاقات کا شرف بھی رہا اور کچھ سے تحریروں کے حوالے سے آشنائی ہوئی۔ ایک خاکہ نما مضمون نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ صلاح الدین احمد پر تحریر تھی جسے بڑی محبت سے لکھا گیا ہے مضامین کی یادوں سے حرارت پانے والے چنگاریوں نے تحریر کو زندہ جاوید کردیا ہے، ایسا ہی مضمون محی الدین نواب پر لکھا گیا ہے جس میں ہجر و وصال کا غم بھی پنہاں ہے اور دیرینہ تعلقات کی پرچھائیاں بھی رقصاں ہیں۔
صوبہ بہار پٹنہ سے تعلق رکھنے والے صلاح الدین محمد نے ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے کیا، صحافت کا پیشہ اپنایا وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے، نظریاتی اختلافات کے باوجود تمام اپنے ہمعصر قلم کاروں سے خلوص سے دل سے ملتے وہ بہت اچھے میزبان بھی تھے سانحہ مشرقی پاکستان کے موقعے پر ان کے بارے میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ وہ اور ان کا خاندان کو مکتی باہنی کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔
اس سانحے کے بعد ان کے لیے تعزیتی کالم لکھے جانے لگے۔ جمیل الدین عالی، انتظار حسین، حمید اختر کے نام قابل ذکر ہے جب کہ ان کی موت ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے واقع ہوئی۔ محی الدین نواب کے بارے میں بھی انھوں نے تفصیل سے لکھا ہے۔ محی الدین نواب کو حقیقی معنی میں نواب بنانے میں پاکیزہ کے مدیر معراج رسول کا ہاتھ تھا وہ بہت قدرکرتے تھے، محی الدین نواب نے تین شادیاں کیں اور تینوں بیویوں کو خوش رکھا۔
ماضی کی فلمسٹاردیبا خانم کے مسائل حل کرنے اور ان کی مدد کرنے میں پیش پیش رہے۔ دیبا خانم کو ان کی حقیقی والدہ بہن اور بہن بھائیوں سے ملوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ محی الدین نواب نے اداکارہ دیبا کی اجازت سے دیبا کے نام سے ناول لکھنا شروع کردیے، محی الدین نواب کی تحریرکا جادو اور فلمسٹار دیبا کے نام نے بے شمار قارئین پیدا کردیے اور مصنف کو بڑے پیمانے پرکامیابی نصیب ہوئی۔
ڈاکٹر حنیف فوق سے میری بھی ملاقات رہی ہے وہ بہت نیک اورسادہ طبیعت انسان تھے ان کے بے شمار شاگرد تھے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ان کا پہلا مقابلہ ''ادب میں شخصیت'' کے عنوان سے علامہ نیاز فتح پوری کے جریدے ''نگار'' میں شایع ہوا اور یہ بات 1947 کی ہے۔ شوکت صدیقی سے ان کی دوستی بہت پرانی تھی اور جسے ان دونوں دوستوں نے مرتے دم تک بخوبی نبھایا شوکت صدیقی کے انتقال کو بہت سا وقت بیت گیا ہے جب کہ حنیف فوق کا انتقال بعد میں ہوا ہے مہینہ مئی کا اور سن 2009 تھا اور جگہ بھارت (بھوپال) تھا۔
یہ مصرع (بات) ڈاکٹر حنیف فوق پر پورا اترتا ہے کہ ''زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم'' وہ ترکی زبان سے ناواقف تھے لیکن اپنی ترکی بیگم کی خاطر ترکی زبان سیکھ لی۔ انور فرہادکے بقول وہ علم و آگہی کا سمندر تھے۔ مصنف نے تمام مضامین لکھتے وقت دوست احباب کے محاسن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور تمام معلومات بہم پہنچائی ہیں۔
''پچھلے پہرکی چاندنی'' شعری مجموعہ ہے، کتاب کے شاعر انور فرہاد ہیں ۔ان کی شاعری میں گزشتہ و پیوستہ زمانے سانس لے رہے ہیں، انھوں نے تھرکی قحط سالی اور دہشت گردی، خوف و ہراس کو بصیرت وبصارت کی روشنی کے ساتھ الفاظ کے پیکر میں نفاست کے ساتھ منتقل کیا ہے۔ یادِ رفتگاں کے حوالے سے جو اشعار وجود میں آئے ہیں وہ بھی خونِ جگر سے لکھے گئے، ان کی شریک حیات پروفیسر علی حیدر ملک یاورامان وغیرہ کی جدائی کا دکھ کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ جو قطعات ''اندھی نگری'' کے عنوان کے تحت لکھے گئے ہیں وہ بھی بہت خوب ہیں۔
چینی، چائے، دودھ کی قیمت سن کر سر چکرائے
گھی اور تیل خریدو تو دل کا دورہ پڑجائے
زندہ رہنے کی خاطر آخر بندہ کیا کھائے
مہنگے ہوگئے حد سے زیادہ آٹا چاول دال
اے بھیا! آٹا چاول دال