صحت غیر محفوظ ہاتھوں میں

فطرت کے پاس علاج کا بہترین خزانہ موجود ہے جس سے مستفید ہونے والے بیماریوں سے دور رہتے ہیں۔


Shabnam Gul December 19, 2012

ISLAMABAD: انیسویں صدی کی نئی دریافتوں نے زندگی کا رخ مکمل طور پر بدل کے رکھ دیا۔ ہر شعبے میں رونما ہونے والے نئے تجربوں نے سوچ کے زاویے بدل دیے۔ صنعتی انقلاب کے بعد مادیت پرستی کے رجحان نے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج جب ہم انسانی قدروں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے لہجے کھوکھلے اور خالی محسوس ہوتے لگتے ہیں۔ لیکن کچھ شعبے ایسے ہیں جن سے انسانیت کا مستقبل اور امیدیں وابستہ ہیں، جو انسانیت کی خدمت کے لیے بنے ہیں۔ طب کا شعبہ ان میں سے ایک ہے۔ مگر یہ شعبہ بھی مادیت پرستی کی لپیٹ میں آ کر قیمتی جانوں سے کھیل رہا ہے۔

گزشتہ دنوں کھانسی کے شربت نے سولہ افراد کی جان لے لی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ زیادہ مقدار میں دوائی پینے کی وجہ سے ان افراد کی موت واقع ہوئی، جو نشے کے عادی تھے۔ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ دوا ساز کمپنی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی کے تقریباً 107 مریض کولیسٹرول کم کرنے کی دوا کھانے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملے اور بھی بہت سارے لوگ متاثر ہوئے ہوں گے، مگر جلد ہی پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے اس دوا پر بھی پابندی لگا دی تھی۔

ایسے بہت سارے کیس روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں جو اخبار کی خبر نہیں بن پاتے۔ بیماریوں کے تناسب میں اضافہ ہونے کے باعث دواؤں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آدمی کے بجٹ کا تقریباً ستر فیصد حصہ دواؤں کی نذر ہو جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارکیٹ میں موجود پچاس فیصد دوائیں جعلی ہوتی ہیں۔ لہٰذا لوگ جینے کی آس میں موت خرید رہے ہیں۔ بھارت اور چین کی طرح پاکستان بھی دنیا کے ان تیرہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جو جعلی دوائیں بناتے ہیں۔

یہ ناقص دوائیں نارتھ امریکا، یورپ و افریقہ کے ملکوں کو برآمد کی جاتی ہیں۔ یہ خطرناک دوائیں ایشیاء سے لے کر کینیڈا تک انسانی صحت کے لیے مستقل خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1960ء میں انٹرنیشنل ڈرگ مانیٹرنگ پروگرام شروع کیا تھا۔ سال 99ء اور 2000ء کے دوران ڈبلیو ایچ او کو اطلاعات ملیں کہ دنیا کے تقریباًء بیس ممالک جعلی دوائیں فروخت کر رہے ہیں۔ اس غیر انسانی عمل کو روکنے کے لیے انٹرنیشنل میڈیکل پراڈکٹ اینٹی کاؤنٹرفیٹ ٹاسک فورس کا انعقاد کیا گیا، تا کہ ان مہلک دواؤں کے کاروبار کی روک تھام کر سکے۔ مگر تیسری دنیا کے ملکوں کے حوالے سے یہ کوششیں کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔

پاکستان میں جہاں بہت سارے مسائل کی بھرمار ہے وہاں صحت جیسا اہم اور حساس شعبہ بھی اپنی ساکھ اور افادیت کھو رہا ہے۔ سرکاری و نجی اسپتالوں کی ناقص کارکردگی، جعلی دوائیں، غلط تشخیص اور دواؤں سے ری ایکشن جیسے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص کر جعلی ادویات میں ٹالکم پائوڈر اور پینٹ کلر وغیرہ شامل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

بقول ڈائریکٹر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق ''جعلی دوائیں ایک منافع بخش کاروبار ہے، جس میں فائدہ زیادہ اور رسک کم ہے، اگر کسی ہیروئنچی کو پکڑا جاتا ہے تو اسے موت کی سزا ہو سکتی ہے، مگر جعلی دوا ساز کو کچھ سال کی سزا دی جاتی ہے۔ یا وہ جرمانہ ادا کر کے رہا ہو جاتے ہیں۔'' اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قانون کی نرمی اس رجحان کو فروغ دے رہی ہے۔ مارکیٹ میں روز نئی دوائیں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ جن کا تجربہ تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام پر کیا جاتا ہے جب کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ان دواؤں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔

فارما سوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹروں کو مختلف مراعات سے نواز کر اپنی پراڈکٹ متعارف کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے اکثر دوائیں ایسی ہیں جن کے مضر اثرات دل، دماغ، بصارت، معدے اور مزاج کو شدید متاثر کرتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس اور دوسری دوائیں معدے پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ آج کل معدے کی تیزابیت ختم کرنے والی دوائیں بھی کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔ ان دواؤں میں شامل نمک دل، گردوں اور ہائی بلڈ پریشر کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ معدے کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں میں شامل Aluminium ہڈیوں کے بھربھرے پن اور انزائمر جیسی پیچیدہ بیماریوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ کینیڈا میں کینسر، دل کی بیماری اور فالج کے بعد موت کی چوتھی وجہ دواؤں کا بدترین ری ایکشن ہے۔

جس سے سال بھر میں کینیڈا میں 10,000 اموات واقع ہوتی ہیں اور 106,000 زندگیاں امریکا میں متاثر ہوتی ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کینیڈا میں 10,000 اموات اسپتالوں کے باہر دوا کی غلط مقدار کھانے اور دوا کے سائیڈ ایفکٹس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب وہاں پر زیادہ تر لوگ جڑی بوٹیوں، میوہ جات اور سبزیوں سے تیار شدہ ہربل دوائیں استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ دوائیں ہربل فوڈ اسٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں۔ ہومیو پیتھی پر بھی بہت سے لوگ انحصار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں پر لوگ اکثر اپنا علاج خود کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جس دوا سے افاقہ ہوتا ہے وہی دوا ہر بار استعمال کی جاتی ہے۔

آپ کسی بھی میڈیکل اسٹور سے نسخہ دکھائے بغیر کوئی بھی دوا باآسانی خرید سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نشے کے عادی افراد خواب آور گولیاں اور کھانسی کے شربت آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں۔ ملک بھر میں جعلی ڈاکٹرز کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ ایکسپائرڈ دوائیں جعلی دواؤں کی طرح مہلک ہوتی ہیں۔ خاص کر دیہی علاقوں میں یہ دوائیں زیادہ بھیجی جاتی ہیں۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں لوگ طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ وہاں لیبارٹریز کی غلط رپورٹس کی وجہ سے اکثر لوگ غلط تشخیص کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انھیں اس بیماری کی دوا کھانی پڑتی ہے جو انھیں سرے سے لاحق ہی نہیں ہوتی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو صحت کی بنیادی معلومات فراہم کی جانی چاہئیں۔ اسکول اور کالجز میں سیمینارز اور ورک شاپس کے توسط سے نئی نسل کو صحت اور دواؤں کے حوالے سے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے تا کہ لوگوں کو صحت بخش غذا اور ورزش کی افادیت کا اندازہ ہو سکے۔ فطرت کے پاس علاج کا بہترین خزانہ موجود ہے جس سے مستفید ہونے والے بیماریوں سے دور رہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔