کیا ایسا ہی چلتا رہے گا
سال بہ سال جب موسم سرما کی پہلی ہوا میرے چہرے کو نیند سے جگاتی ہے
سال بہ سال جب موسم سرما کی پہلی ہوا میرے چہرے کو نیند سے جگاتی ہے اور سوئی ہوئی آنکھوں میں سورج کی چمک لہراتی ہے تو میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔ ان دیکھے مستقبل کی دنیا سامنے سے گزرنے لگتی ہے اور تھکے ہوئے ذہن میں خیالات کی نئی دنیا بیدار ہوتی ہے اور یہ نئی دنیا اپنی اپنی قسمت ہے کہ اسے ہمارے سیاست دان کیا رنگ دیتے ہیں اور سیاستدان اسے کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم سب عوام محتاج ہیں اپنے سیاستدانوں کی افتاد طبع کے جو ہماری نہیں اپنے سیاسی مفادات کے تابع ہوتی ہے اور سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے چلتی ہے۔ ہم عوام اس سیاست کی دنیا کے غلام ہوتے ہیں اور سیاستدانوں کی مرضی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور زندگی کی سرگرمیاں شروع یا ختم کرتے ہیں تو اس میں سیاستدانوں کے مفادات شامل ہوتے ہیں کیونکہ ہم عوام کی زندگی ہماری نہیں سیاستدانوں کی ہوتی ہے جو ان کی مرضی سے شروع اور ختم ہوتی ہے۔ اگر کوئی 'عوام' اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے مفاد میں زندگی بسر کرتا ہے اور نفع و نقصان کا مالک ہے تو اس کی مرضی لیکن حقیقت اس کے مطابق نہیں ہوتی۔
سیاستدان ملک اور معاشرے کا جو مزاج بناتے ہیں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر جو دنیا تخلیق کرتے ہیں بلکہ عوام کو جو اپنی پسند کی دنیا دیتے ہیں عوام اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھال کر گزر بسر کرتے ہیں اور اسی سیاسی دنیا یعنی سیاستدانوں کے عطیے کے مطابق جو کچھ انھیں ملتا ہے وہ اس کے مطابق زندگی ڈھال لیتے ہیں اور اسے گزارنا شروع کر دیتے ہیں یہانتک کہ عوام کی ضروریات زندگی کی قیمتوں اور معیار کا تعین بھی وہی کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا ماحول اور ایک ایسی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں کہ عوام ان سیاستدانوں کی مرضی کے محتاج ہو جاتے ہیں یہانتک کہ سیاستدانوں کو جب ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ ووٹ جو بظاہر عوام کی پسند نا پسند کی حکومت تشکیل کرتا ہے وہ بھی ان سیاستدانوں کی پسند نا پسند کے مطابق ہوتا ہے یعنی عوام نے جس طرح کی زندگی بسر کرنی ہے انھیں اس زندگی سے کیا ملنا ہے اور انھوں نے کس سہولت سے محروم ہونا ہے یہ بھی سب سیاستدان متعین کرتے ہیں اور عوام ہمیشہ سیاستدانوں کی پسند پر عمل کرتے ہیں یعنی وہ اپنی زندگی بھی ویسی ہی کر لیتے ہیںجیسی ان کے سیاستدان چاہتے ہیں۔
اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ سیاستدانوں کی خوشی نا خوشی کے پابند ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ذرا باریکی میں جائیں اور گہرے غور و فکر سے کام لیں تو یوں سمجھیں کہ ہم عوام غلاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں اور سیاستدان ہم پر حکمرانی کرتے ہیں کبھی وہ سیاسی چالوں اور حیلوں بہانوں سے عوام کو دبوچ لیتے ہیں تو کبھی بظاہر عوام کو آزاد بنا کر ان کو عوام کی پسند کی نہیں اپنی پسند کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ محض لفاظی نہیں ہے واقعی ہے اور اگر آپ اپنی روز مرہ کی زندگی پر غور کریں تو اس میں آزادی کم اور مجبوری زیادہ دکھائی دے گی۔ آپ زندگی کا ہر عمل سیاستدانوں کی مرضی کے مطابق کریں گے اور اگر اس سے بغاوت کریں گے تو آپ پر وسائل کے راستے بند ہو جائیں گے۔
یوں تو ہر سیاستدان اپنے آپ کو عوام کا محتاج قرار دیتا ہے کہ اس کی سیاست عوام کی مرضی کی ہوتی ہے لیکن اس کے پاس ایسے وسائل ہوتے ہیں کہ عوام کی مرضی اس کے تابع فرمان ہو جاتی ہے۔ حکومت سازی اور حکمرانی کے لیے الیکشن عوام نہیں سیاستدان لڑتا ہے اور عوام کو اپنی مرضی پر مجبور کر دیتا ہے جس سے وہ برسراقتدار آ کر عوام پر حکمرانی کے مزے لوٹتا ہے۔ اس کو یہ موقع خود عوام دیتے ہیں۔
کبھی الیکشن کے ذریعے اور کبھی کسی نام نہاد عوامی تحریک کے ذریعے، پاکستانیوں نے یہ 'عوامی تحریکیں' دیکھی ہیں اور وہ ان کا حصہ بھی رہے ہیں چنانچہ ہر عوامی تحریک جن لیڈروں یا یوں کہیں کہ حکمرانوں کو کامیاب کرنے کے لیے شروع ہوئی وہ جب ختم ہوئی اور اس کے نتیجے سامنے آئے تو عوام اپنے ان حکمرانوں کو اپنے سامنے پا کر حیران ہو گئے جو کسی تحریک کے نتیجے میں حکمرانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے یعنی عوام نے اپنے ہاتھوں سے کچھ لوگوں کو اقتدار کا تاج پہنایا اور پھر ان کے محتاج ہو کر زندگی بسر کرنی شروع کر دی۔ اقتدار کے یہ وہ کنوئیں تھے جو عوام اپنے ہاتھوں سے کھودتے رہے اور پھر ان اندھے اور بے رحم کنوؤں کے محتاج ہو گئے۔
پاکستان کی سیاسی زندگی پر کبھی غور کریں کہ یہ کون لوگ تعمیر کرتے ہیں اور پھر ان کے محلوں میں اپنے اقتدار کی کرسی رکھ کر حکومت شروع کر دیتے ہیں،اگرچہ یہ مدت سے ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی ان کنوؤں کو پر کرنے یا ان محلوں کو مسمار کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنی سادگی اور حماقت سے ان کو نئی توانا زندگی دیتا ہے۔ اب تک ایسا ہی چل رہا ہے اور لگتا ہے کہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔