نومبر کا مہینہ کوئی طوفان نہیں لایا


Dr Mansoor Norani November 23, 2016
[email protected]

نومبر کا مہینہ خلاف توقع ہمارے وزیراعظم کے لیے کچھ زیادہ ہی اچھا اور پرسکون جارہا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں عام طور سے یہ تاثر پیدا ہورہا تھا کہ میاں صاحب کے لیے عیدالاضحیٰ کے بعد حکومت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ کچھ سیاستدانوں کے ہم خیال اور ہم نوا علمِ نجوم اور جنتری کے ماہر دانشور اور تبصرہ نگار بھی یہی کچھ کہہ رہے تھے۔

لال حویلی راولپنڈی کے مکیں اور ہر تین ماہ بعد نئی ڈیڈ لائن دینے والے شیخ رشید تو ہمشہ کی طرح یہی کہتے دکھائی دیے کہ ''اکتوبر اور نومبر پاکستان کی سیاست کے لیے بہت اہم ہیں۔ میں ان مہینوں میں بہت کچھ تبدیل ہوتا دیکھ رہا ہوں''۔ لیکن زمینی حقائق اور بدلتے ہوئے حالات اس کے بالکل برعکس ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ پانامہ لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے۔

خان صاحب پچھلے چھ ماہ سے جو تحریک چلا رہے تھے وہ اچانک سردمہری کا شکار ہوگئی ہے۔ 2 نومبر کو اسلام آباد بندکردینے کا عندیہ دینے والوں نے ایک روز قبل نجانے کس کے کہنے پر ہتھیار ڈال دیے، یہ راز کسی دوسرے شخص کو معلوم نہیں۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت ویسے تو 20 اکتوبر کو ہی شروع ہو چکی تھی، مگر خان صاحب اس وقت اپنی تحریک موخر کرنے پر کسی طور آمادہ نہ تھے۔ مگر اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ ''کپتان'' اسی عدالت پر دل و جان سے یقین اور بھروسہ کرتے ہوئے یکم نومبر کو اسلام آباد پر اپنی یلغار کا پروگرام منسوخ کردیتے ہیں۔ اب یہ معاملہ ہماری عدالت عظمیٰ کے سپرد ہوچکا ہے اور قوی امکان یہی ہے کہ عدالتی فیصلہ اس مہینے تو کم ازکم نہیں آتا اور یوں میاں صاحب کو نومبر کے مہینے میں سکھ کا سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا ہے۔

اس سال نومبر کے مہینے کی خاص اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس مہینے کے اختتام سے پہلے نئے آرمی چیف کا انتخاب بھی ہونا ہے۔ ہمارے کچھ سیاسی پنڈت اس حوالے سے بڑی چہ میگوئیاں کررہے تھے۔ ان کے خیال میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے ہی اسلام آباد میں حکومت تبدیل ہو جائے گی۔ یہ ان کی صرف قیاس آرائی ہی نہیں تھی بلکہ دلی خواہش، تمنا اور آرزو بھی تھی۔

جن سیاسی یتیموں کو جمہوری نظام انتخاب راس نہیں آتا وہ تو دل وجان سے یہی چاہ رہے تھے کہ میاں صاحب کا 1999کی طرح اس بار بھی تیاپانچہ ہو جائے اور قصر صدارت پر کوئی وردی اور ڈنڈے والا براجمان ہوجائے۔ مگر جوں جوں نومبر کا مہینہ اختتام پذیر ہوتا جارہاتھا ان کی امیدوں اور حسرتوں پر پانی پھرتا گیا۔ خاص کر گزشتہ بدھ کو خیرپور ٹامی والی میں ''رعدوبرق'' کے نام سے ہونے والی فوجی مشقوں کے موقع پر راحیل شریف اور وزیرِاعظم کو ساتھ ساتھ مسکراتا دیکھ کر تو ان کے ارمانوں پر اوس ہی پڑچکی ہوگی اور اب یہ خیال ان کے دل ودماغ سے نکل چکا ہوگا کہ افواج پھر جمہوریت کا قلع قمع کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام ہی چلتا رہے۔ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی بھی صرف اسی بات میں مضمر ہے کہ سول اور ملٹری مل کر اسے اس کے اصل اہداف حاصل ہونے تک جاری رکھیں۔ دوسری جانب ''سی پیک'' کا منصوبہ بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جبتک ہماری یہ دونوں اکائیاں باہم مل کر یکسوئی اور یک ذہنی کے ساتھ اسے کامیابی سے ہمکنار نہ کر دیں۔

ویسے بھی اس منصوبے کے بہت لوگ دشمن ہیں، اپنے بھی پرائے بھی، جو ہرگز نہیں چاہتے کہ پاکستان اور چائنا مل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو کر اس علاقے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کر ڈالیں۔ جنگی اور عسکری کامیابیاں بھی اسی وقت کارگر اور مفید ثابت ہو سکتی ہیں جب ہم معاشی اور اقتصادی طور پر بھی کامیاب ہو سکیں۔ سی پیک کے حوالے سے یہ ''گیم چینجر'' والی بات یونہی ہواؤں میں نہیں کہی جا رہی، یہ حقیقتاً ایک انقلابی منصوبہ ہے جو پاکستان کی قسمت بدل کر رکھ دے دے گا۔

ہم نے خود کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کی حیثیت سے تو منوا لیا ہے لیکن جب تک ہم معاشی و اقتصادی طور پر خود کفیل اور خودمختار نہیں ہوجاتے یہ ہمارا ایٹمی قوت کہلانا دنیا کی نظروں میں محض مذاق ہی تصور کیا جاتا رہے گا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ سے قرضے لینے والی محتاج اور غلام قوم بھلا کیسے سر اٹھا کے جی سکتی ہے۔ اس کے لیے اب ضروری ہے کہ ہم معاش اور اقتصاد کی دنیا میں بھی ایک بڑی قوت بن کر ابھریں۔

''سی پیک'' ہمیں اس جانب ایک موقع فراہم کررہا ہے۔ ہم نے اگر یہ موقع ضایع کردیا تو شاید اگلی کئی صدیوں تک پھر ہمیں یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ موجودہ آرمی چیف اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اسی لیے وہ اس میں خاص دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے تین سال میں کامیاب حکمت عملی اور کارکردگی کے جو جوہر دکھائے ہیں وہ سابق جرنیلوں میں شاید ہی کسی نے دکھائے ہوں۔ یہ انھی کی ذہانت، قابلیت اور دانشمندی ہے جس کی بدولت بہت مختصر عرصے میں اس ملک سے دہشتگردی کے عفریت کا خاتمہ اور کراچی شہر میں بھی امن و امان قائم ہو پایا۔

نئے آرمی چیف کا فیصلہ اگلے چند روز میں سامنے آ جائے گا۔ آئین کے مطابق وزیرِاعظم کو اپنے صوابدید کے تحت یہ اہم فیصلہ کرنا ہے۔ وہ کیا اور کیسا فیصلہ کرتے ہیں اس کا انتظار تو شاید ہمارے کچھ سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں کے لیے انتہائی بے چینی اور اضطراب کا باعث ہو گا لیکن خود وزیرِاعظم اس حوالے سے بڑے پرسکون اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔

خیرپور ٹامیاں والی میں جنگی مشقوں کے موقعے پر آرمی چیف کے ساتھ ان کی باڈی لینگویج اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ انھوں نے جو فیصلہ سوچ رکھا ہے وہ شاید ان کے مخالفوں پر تو ''بم'' بن کر برسے گا لیکن خود ان کے لیے راحت و اطمینان کا باعث ہوگا۔ وہ اس بار کچھ زیادہ ہی پراعتماد اور پرسکون دکھائی دیے۔ اقتدار آنی جانی شے ہے، ملک اور قوم کا مستقبل مدنظر ہونا چاہیے۔ قوم اور ملک قائم رہے تو اقتدار دوبارہ بھی مل سکتا ہے، اگر وہی نہ رہے تو پھر کیسی جمہوریت اور کیسا اقتدار۔

پانامہ کیس اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کومدنظر رکھتے ہوئے نومبر کے مہینے کے بارے میں ہمارے لوگ بڑے شک وشکوک میں مبتلا تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ نومبر کا مہینہ ہمارے حکمرانوں کے لیے مشکلات کا حامل ہوگا۔ مگر قدرت کیا چاہتی ہے کسی کو پتہ نہیں۔ عام خدشات اور امکانات کے برعکس یہ مہینہ پچھلے مہینوں کی نسبت کچھ زیادہ پرسکون گزر گیا۔

خان صاحب جن کا یقین صرف محاذآرائی کی سیاست پر ہے اور جو 2014 سے مسلسل اسی حکمت عملی اور فارمولے پر کاربند بھی ہیں، انھیں اب یہ جان لینا چاہیے کہ یہ طریقہ کار ''کرکٹ'' میں تو شایدکارگر ثابت ہو سکتا ہے لیکن سیاست میں ہر وقت کی محاذآرائی اور معرکہ آرائی خود اپنی شکست و ریخت کا باعث بن سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے انھیں سڑکوں کی سیاست چھوڑ کر عملی اور تعمیری سیاست کے ذریعے اپنے حریفوں پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں