86 سال اور 86 دن
ڈاکٹر فوزیہ نے انصاف کے حصول کے لیے تمام سیاسی، سماجی، انسانی اور قانونی ذرایع استعمال کیے ہیں۔
NEW DELHI:
ڈاکٹر عافیہ کی 86 سالہ قید سے رہائی اور ملک واپسی کے لیے ڈاکٹر عافیہ رہائی موومنٹ نے 86 روزہ بھوک ہڑتالی احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب پر لگایا ہوا ہے۔ اس احتجاجی کیمپ کو لگے ہوئے 50 دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ احتجاج کے 50 ویں دن احتجاج کرنے والی خواتین نے حکمرانوں کوچوڑیاں پیش کیں۔
ان خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اس کیمپ میں 50 دنوں سے بیٹھی حکمرانوں نے ضمیر کوجھنجھوڑ رہی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی ہے، جو حکمران قوم کی بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ چوڑیاں پہن لیں۔ نواز شریف حالیہ اسکینڈل میںاپنی بیٹی مریم کو بچانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں، لیکن انھیں قوم کی ایک معصوم بیٹی کا کوئی خیال نہیں ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے 3 بچوں سمیت اغوا اور طویل گمشدگی اور پھر اس کے کئی سال بعد بے بنیاد مقدمہ میں ملوث کرکے 86 سال کی سزا ہونے تک ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ ہر فورم پر تن تنہا انصاف کے حصول کے لیے جو کوششیں کرتی رہی ہیں اس نے مستقل مزاجی اور بہادری کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لوگ ان کے موقف کی تائید کر رہے ہیں بلکہ اس میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ نے انصاف کے حصول کے لیے تمام سیاسی، سماجی، انسانی اور قانونی ذرایع استعمال کیے ہیں۔ سینیٹ اس سزا کی مذمت اور عافیہ کو واپس لانے کی قرارداد پاس کرچکی ہے۔ لیکن ہمارے حکمران قومی حمیت و غیرت کے اس مسئلے پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عافیہ کی گرفتاری سے آج تک 7 حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں، سب حکمرانوں نے وعدے کیے مگر کسی نے قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ نہیں کیا، مسلسل دروغ گوئی اور منافقت کا سہارا لیا بلکہ لگتا ہے کہ عافیہ کی گرفتاری اور سزا دلانے میں بھی ہماری حکومتوں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔
امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر کا کہنا ہے کہ عافیہ کے وکلا نے ان کے حق میں موجود ثبوت و شواہد استعمال نہیں کیے لگتا ہے حکومت نے ان کی خدمات عافیہ کو مجرم قرار دلوانے کے لیے حاصل کی تھیں۔ عافیہ کی فیملی کو قابل وکلا کی خدمات حاصل کرنے سے منع کیا تھا۔
امریکی رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے کبھی عافیہ کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ قیدی نمبر 650 (عافیہ صدیقی) کی قید کا انکشاف کرنے والی نو مسلم مریم ایون ریڈلے بھی یہی کہتی ہیں کہ پاکستانی حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا، حکمران عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
سینیٹر طلحہ محمود کا عافیہ سے ملاقات کے بعد کہنا تھا کہ حکومت اس کی رہائی کے لیے مخلص نہیں ہے۔ عدالتیں بھی حکمرانوں کو ڈاکٹر عافیہ کے مسئلے پر مختلف ہدایات اور احکامات دیتی رہی ہیں، یہاں تک کہ عافیہ کی واپسی کے لیے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط تک کی ہدایت کرچکی ہیں مگر حکمران اس خالصتاً انسانی و قومی مسئلے پر مسلسل سردمہری، دروغ گوئی اور لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
گزشتہ روز سندھ ہائیکورٹ میں ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرانے پر حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ عافیہ کی رہائی کے لیے امریکا کو خط ارسال کیا گیا تھا جس کا کوئی جواب نہیں ملا، دونوں ملکوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہو سکے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق امریکا سے رجوع نہیں کیا گیا، 2002کے آرڈیننس کے تحت عافیہ کی واپسی ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے اٹارنی جنرل متفق ہوں تو سزا یافتہ قیدی پاکستان منتقل کیا جا سکتا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت سے اقدامات کی تفصیلات طلب کی جائیں اور عملی اقدامات کی ہدایت جاری کی جائے۔
ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں حکومتی توجیہات اور وضاحتیں روز اول سے ہی غلط بیانی، تضادات اور شکوک و شبہات سے لبریز رہی ہیں۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں پاکستان کے دورے میں سندھ بار کونسل سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ''وہ پہلے بھٹو کو بچانے پاکستان آئے تھے، آج ایک پاکستانی بیٹی کو بچانے کے لیے آئے ہیں، جس میں حکومت پاکستان کی شرکت ضروری ہے''۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ''امریکی مقدمہ بے بنیاد اور غیر قانونی تھا جس سے خود انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا لگا ہے۔''
مقدمہ کی سماعت کے دوران عافیہ نے ججز پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنا معاملہ امریکی عوام پر چھوڑتی ہوں، جنھیں جنگ میں ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج عافیہ کی بے گناہی ساری دنیا پر عیاں ہے، خود امریکی اس کی بے گناہی کی وکالت اور رہائی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ریمزے کلارک، ٹینا فوسٹر، رچرڈ ہالبروک، مریم ایوان ریڈلے برطانوی پارلیمنٹیرین لارڈ نذیر سب یک زبان اور متفق ہیں کہ عافیہ کے خلاف مقدمہ اور سزا غیر منصفانہ، انصاف کا خون اور دہرے عدالتی نظام کا مظہر ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور انسانیت پر دھبہ قرار دے رہا ہے۔
پاکستان کی سینیٹ اس سزا کی مذمت اور عافیہ کو واپس لانے کی قرارداد پاس کرچکی ہے۔ امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار مائیگ گریلو عافیہ کو معصوم اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، بار کونسلز، ملکی و غیر ملکی تنظیمیں اور ادارے قراردادیں پاس اور حکومتوں کو یاداشتیں پیش کرچکے ہیں۔
امریکی قانون داں، دانشور، انسانی حقوق کے علمبردار دنیا بھر کے دورے کرکے انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبا، وکلا اور صحافیوں سے عافیہ کی رہائی کے لیے عالمگیر جدوجہد کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو آگے بڑھ کر ہمت وجرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
غیر مسلم برادریاں عافیہ کے حق میں مظاہرے کر رہی ہیں۔ لیکن حکومت پاکستان، پاکستانی سیاستدان اور ہم خود من حیث القوم قومی حمیت و غیرت کے اس مسئلے پر تذبذب،خوف، خاموشی، بے حسی و بے شرمی یا لاعلمی کا شکار ہیں بلکہ بعض عناصر تو ڈاکٹر عافیہ کی کردار کشی تک سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو سوچناچاہیے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں کیا جواب دیں گے۔ جہاں کسی مصلحت، منافقت، مبالغہ آرائی و دروغ گوئی کا گزر نہیں ہوگا۔ اللہ کا فیصلہ آیا تو ان سب کا کیا انجام ہوگا؟