علاج دنداں‘ اخراج دنداں
یہ راز ایک طبیب پر آشکار ہوا تو اس نے اس کے علاج کے لیے ہر دوا دارو استعمال کیا
یہ صدیوں پرانا نسخہ ہے جس کسی طبیب حاذق نے یہ دریافت کیا اس نے ایک تکلیف دہ قدیم بیماری کا مختصر سا علاج بیان کر دیا اور انسانوں کو سکون کا راستہ دکھا دیا۔ جس کسی کو دانت کے درد کی تکلیف ہوئی گویا ایک عذاب مسلسل میں مبتلا ہو گیا۔ یہ منہ ہی تو ہے جس کی تسکین کے لیے انسان پوری زندگی جدوجہد کرتا ہے اور جب یہ بھی انسان کو بے بس کر دے تو پھر زندگی کس کام کی۔
یہ راز ایک طبیب پر آشکار ہوا تو اس نے اس کے علاج کے لیے ہر دوا دارو استعمال کیا لیکن دانت کا یہ درد زندہ رہا اور معالجوں کو ناکام بناتا رہا چنانچہ اس درد لادوا سے تنگ آ کر طبیبوں نے شکست مان لی اور اسے انسانی جسم سے جدا کرنے میں ہی نجات تلاش کر لی۔
گزشتہ دنوں میں بھی اس درد کی پکڑ میں آ گیا، جدید و قدیم طب کے ماہرین نے پہلے تو ادویات سے اس پر حملہ کیا لیکن اس میں ناکامی کے بعد اپنے پرانے استاد کی بات مان لی، طے ہوا کہ دو تین دن تک مزید انجکشن لگیں گے اور جب علاج معالجے کا یہ کورس پورا ہو گا تو اس کے بعد دشمنی پر تلے ہوئے اس دانت کو لوہے کے ایک آلے کی مدد سے نکال دیا جائے گا وہ آلہ جسے ہمارے گاؤں میں لوہار مستری عام استعمال کرتے ہیں۔
وہ اسے جمور کہتے ہیں اور دانت کو اس آلے کی پکڑ میں لاتے ہیں اور کہنی کا کسی چیز کا سہارا لے کر اللہ کے نام پر اس قدیم ترین آلے کی مدد سے انسانی جسم میں دھنسے ہوئے دانت کو ایک جھٹکے سے اکھاڑ لیتے ہیں اور اسے ایک برتن میں پھینک دیتے ہیں جس کی آواز سے مریض کو پتہ چلتا ہے کہ اسے اپنے دشمن سے نجات مل گئی جس کی دشمنی نے اس پر دن رات کا چین حرام کر دیا تھا۔
میں اسی کیفیت سے گزر رہا ہوں اور اب ڈاکٹر حضرات وہ آلہ تیز کر رہے ہیں جس کی پکڑ سے یہ دانت بچ نہیں سکے گا اور ایک برتن میں گرنے کی آواز سے اپنی موت کو سن لے گا۔ دانتوں کے مشہور طبیبوں کے لاہور میں دانتوں کے علاج کے کارخانے کام کر رہے ہیں جو کسی دانت کو اس کے قتل کے لیے تیار کرتے ہیں اور پھر ایک بار کسی برتن میں سے آنے والی کڑک کی آواز پر اس کی موت کا اعلان کر دیتے ہیں اور انسان کو یکایک سکون مل جاتا ہے۔
شکریہ اس طبیب کا جس نے یہ آسان علاج تجویز کیا تھا۔ یہ پرانے زمانوں کا طبیب تھا جس کے پاس سوائے ایک جمور کے اور کچھ نہ تھا اور جس نے اپنے علاج کا ذکر ایک مختصر سے محاورے میں کر کے انسانوں کو اس درد ناک درد سے نجات دلا دی تھی کہ ''علاج دنداں اخراج دنداں'' کہ دانت کا علاج اسے نکال دینے میں ہے۔
ہمارے جدید معالجوں نے اس دانت کو نکالنے کے لیے ایک طویل طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔ وہ اس بیمار دانت کو ٹھکور کر پہلے تو مریض کی چیخیں نکلواتے ہیں پھر اس کے ایکسرے کے مقام کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایکسرے کی فلم ہاتھ میں لے کر اسے ایک جھٹکے سے دیکھ کر پرے پھینک دیتے ہیں یا مریض کو دے دیتے ہیں اور پھر وہی 'علاج دنداں اخراج دنداں' کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس پر عمل کے بعد انسان کو سکون کی دولت واپس مل جاتی ہے۔
یہ ہے جدید ترین سائنس جو میرے گاؤں کے سنار کے پاس بھی ہوتی ہے اور وہ جمور کو اپنی بھٹی میں گرم کر کے اسے پاک و صاف کرتا ہے اور اس کی گرفت میں آپ کا دانت لے کر اسے نکال کر پرے پھینک دیتا ہے۔ یہ ہے جدید ترین طب جس کا علاج سب سے مہنگا سمجھا جاتا ہے۔ یہانتک کہ کسی حکمران کے ساتھ بیرون ملک کسی دورے پر جاتے تو وہاں کے پاکستانی اسٹاف سے ایک بات ضرور سنتے کہ سفر میں کسی بیماری کی فکر نہ کریں لیکن دانت کے درد سے بچیں کہ آپ کے سفارت خانے کے پاس اس بیماری کے علاج کا خرچ موجود نہیں ہے۔ یوں کہیں کہ اس درد سے حکومت بھی پناہ مانگتی ہے۔
جو بھی ہو دانت کے درد سے حکومتیں بھی پناہ مانگتی ہیں اور عام انسان کی کیا حیثیت ہے۔ اس لیے عرض یہ ہے کہ علاج دنداں نہ صرف مہنگا ترین ہے بلکہ تکلیف دہ بھی جس کسی طبیب حاذق نے اس کا علاج ایک شعر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس نے مریض کو شاعری کا دھوکا دیا ہے ورنہ دانت کی بیماری سے اس کے اخراج تک کا مرحلہ اللہ ہی اس سے بچائے۔