ایک نظر ادھر بھی
نئے تیز رفتار اور وسیع دائرہ عمل کا حامل میڈیم ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا آج کل بہت زوروں پر ہے
اگرچہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی بہت سی خبروں اور ویڈیوز کی نیت اور حقیقت کے بارے میں شک و شبے کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ کئی خبریں من گھڑت اور گمراہ کن ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی وساطت سے ایسی خبریں بھی اب ہر ایک تک پہنچنے لگی ہیں جو پہلے یا تو دبا دی جاتی تھیں یا ان تک صرف کچھ مخصوص لوگوں کی رسائی ہوتی تھی بالخصوص انسانوں پر ہونے والے انفرادی اور اجتماعی ظلم کی بیشتر خبریں ایک محدود وقت اور مقامی افراد کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتی تھیں اور یوں ظلم کرنے والوں کی رسی دراز تر ہوتی چلی جاتی تھی۔
اس نئے تیز رفتار اور وسیع دائرہ عمل کا حامل میڈیم ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا آج کل بہت زوروں پر ہے اور اس میں سیاست' مذہب' معاشرت، تاریخ، دلچسپ و عجیب' سائنس' نظریات اور معیشت وغیرہ کے حوالے سے طرح طرح کی معلومات ایک سیلاب کی طرح بہتی چلی آ رہی ہیں، ان معلومات کی حقیقت' نوعیت اور سچائی کو پرکھنے کے لیے ابھی تک کوئی باقاعدہ اور مستند طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا، سو کسی خبر پر تنقید کرنے سے قبل یہ خیال بھی دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں کسی نے کسی خاص مقصد کے لیے اسے خصوصی طور پر تیار نہ کیا ہو۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل اپنا غصہ نکالنے یا اپنی سوچ کو پھیلانے کے لیے بھی خود ساختہ خبروں اور افواہوں کو کیمرے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے حقیقت کا روپ دے دیتی ہے، اس پر مستزاد ہماری سیاسی پارٹیوں کے باقاعدہ کارندے یا ان سے تعلق رکھنے والوں کے کچھ گروہ یا افراد ذاتی سطح پر مخالفین کی کردار کشی کے لیے خبروں کو ان کے اصل تناظر اور پس منظر سے نکال کر ایک نئی شکل دے دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت طویل اور پھیلا ہوا ہے فی الوقت میں صرف دو ایسی ویڈیوز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کو دیکھ کر میرا دل بہت دکھا ہے ان مخصوص ویڈیوز کا پس منظر جو بھی ہو امر واقعہ یہ ہے کہ یہ مسائل اپنی بنیاد میں سنگین اور اہم بھی ہیں اور ہمارے ارد گرد موجود بھی۔
کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں تیسری جنس کے حامل افراد پر کیے گئے ظلم و ستم کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک شخص بہیمانہ طور پر Trans gender کے حامل ایک انسان کو جانوروں کی طرح مار پیٹ رہا ہے اس کے کچھ گھنٹے بعد ایک اور ویڈیو اپ لوڈ کی گئی جس میں ایک اور ایسی ہی مظلوم مخلوق یہ دہائی دے رہی تھی کہ اگر تقدیر نے ہمارے ساتھ یہ ظلم کر ہی دیا ہے تو کم از کم انسان ہی اس میں مزید اضافہ نہ کریں، اگر ہم جنسی طور پر مکمل نہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے کیوں یہ تمام خوش نصیب اور بظاہر ''پورے لوگ'' سوائے ہمیں دھتکارنے'' ہمارا مذاق اڑانے' نارمل زندگی گزارنے اور رزق کمانے کے جائز طریقوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں جنسی تشدد کا نشانہ اور اپنی تفریح طبع کا سامان بنانے کے علاوہ ہمارے پاس زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑتے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے ''اخوت'' والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب تیسری جنس کے حامل ان افراد کے لیے جنھیں عرف عام میں ''کھسرا'' کہا جاتا ہے فاؤنٹین ہاؤس لاہور میں خصوصی پروگرام کرتے ہیں جس میں مہمانوں سمیت سب کو ایک ساتھ کھانا پیش کیا جاتا ہے بوڑھے اور بے روز گار ''مریضوں'' کو مالی امداد دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز کی ایک ٹیم انھیں طبی امداد دیتی ہے کہ ہارمونز کی کمی بیشی کی وجہ سے یہ لوگ انتہائی پیچیدہ امراض کا شکار ہو جاتے ہیں ان کے ناچ گا کر روزی کمانے کی عمر بھی بہت محدود اور مختصر ہوتی ہے اور معاشرہ ان کی دیکھ بھال اور حکومت ان کے انسانی حقوق کے تحفظ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔
بتایا گیا ہے کہ متعلقہ ویڈیوز کے ملزم اس جانور نما انسان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو بھتہ وصول کرنے کے لیے اس طبقے کے لوگوں کو ہر طرح کے ظلم کا شکار کر رہا تھا، بلاشبہ ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے مگر اصل مسئلہ معاشرے کے مائنڈ سیٹ کو درست کرنے اور ان افراد کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے قانون اور راستہ بنانے کا ہے اور ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بدنصیبی کسی کے حصے میں بھی آ سکتی تھی۔
دوسرا مسئلہ اس سے بھی پیچیدہ اور نازک ہے کہ اس کا تعلق مذہب' عقیدے اور کلچر کی ایسی شکل سے ہے جس کی نہ دین اجازت دیتا ہے اور نہ عقل سلیم۔ میرا اشارہ ان ویڈیوز کی طرف ہے جس میں کچھ پیر نما حضرات نعوذ باللہ خدا کا روپ دھار کر مقتدین سے اپنے پاؤں پر سجدے تک کرواتے ہیں بظاہر بہت سے معقول صورت اور نارمل لوگ عجیب و غریب قسم کی دھنوں پر رقص کرتے، حال کھیلتے اور نام نہاد پیر صاحب کے گرد عجیب و غریب قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔
اگر یہ سب کچھ اسی طرح سے ہے جیسے ان ویڈیوز میں دکھایا جا رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں! کیا ہماری دینی جماعتوں' مذہبی مبلغین اور مفسرین اور اس حوالے سے قائم سرکاری اداروں کو اس میں کوئی قباحت دکھائی نہیں دیتی، ممکن ہے ان میں کچھ چیزیں جعلی اور بناوٹی بھی ہوں مگر ان تمام لوگوں کے چہرے تو آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں روحانی شخصیات کی تعظیم اپنی جگہ مگر ان کے نام پر مجرے کرنا یا کروانا کس اسلام کا حصہ ہیں! ہم سب کو سوچنا چاہیے!۔
چند دن قبل اسی سوشل میڈیا پر ایک ایسی خبر نظر سے گزری جس نے چونکانے کے ساتھ ساتھ مجھے پریشان بھی کردیا، معلوم ہوا کہ ڈاکٹر پروفیسر اشتیاق گوندل جو پنجاب یونیورسٹی میں گزشتہ 25سال سے تدریس کی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں دو دن سے ان کا کچھ پتہ نہیں وہ اور ان کا ڈرائیور مع کار کے لاپتہ ہیں اور ان کے دونوں فون بند جا رہے ہیں۔ میں نے فوراً برادرم وقاص جعفری سے رابطہ کیا کہ اس خبر کی تصدیق کی جا سکے اور یہ بھی معلوم ہو سکے کہ معاملہ اور موجودہ صورت حال کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ خبر درست ہے مگر اصل معاملہ ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا اگر اس کا تعلق کچھ شرپسند اور بندش عائد کی جانے والی مذہبی تنظیموں یا افراد کی پکڑ دھکڑ سے ہے تب بھی اشتیاق گوندل کا اس سے کوئی تعلق نہیں بنتا کہ ان کے دینی رجحانات بہت معتدل اور خوشگوار نوعیت کے ہیں اور اس کی گواہی میں بھی دے سکتا ہوں کہ نہ صرف میں ان کو برسوں سے جانتا ہوں بلکہ ان کے ساتھ کئی بار سفر کرنے کا موقع بھی ملا ہے اور ظاہر ہے سفر انسان کو جاننے اور سمجھنے کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ابھی دو ماہ قبل امریکا میں وہ میرے اور انور مسعود کے ساتھ تھے اور ہر جگہ ان کی گفتگو میں علمیت' تدریسی انداز اور شگفتگی کی وہی لہر تھی جو ان کی ذات کا حصہ ہے ابھی تک ان کے بارے میں کوئی واضح خبر سامنے نہیں آئی۔ امید ہے کہ میاں شہباز شریف جو استاد کے مرتبے کو جانتے ہی نہیں اکثر اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ان کی بازیابی کے لیے خصوصی اور فوری ہدایات جاری کریں گے کہ یہ ان کا فرض بھی ہے اور مشن بھی۔ رب کریم ڈاکٹر اشتیاق گوندل اور ان کی طرح کے تمام معتدل مذہبی فکر رکھنے والوں کا حافظ و ناصر ہو کہ اگر یہ لوگ بھی درمیان سے اٹھ گئے تو پھر سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔