صحت بنا کیا جینا

انسان جب ہر طور پہ آ زاد اور سرحدی احاطوں کے بغیر جیتا تھا اور زندگی کے لطف سے لبریز ہوتا تھا


Zuber Rehman November 24, 2016
[email protected]

معلوم تا ریخ میں انسان جب ہر طور پہ آ زاد اور سرحدی احاطوں کے بغیر جیتا تھا اور زندگی کے لطف سے لبریز ہوتا تھا اس وقت اس کی صحت آج کے مقا بلے میں بہتر تھی۔ اس لیے کہ ما حو لیا تی آ لودگی، غذائی ملاوٹ، صنعتی فضلوں کی آ لودگی، تیزابی بارشوں، میتھا ئین گیسوں اور کاربن سے پاک معاشرہ تھا۔ فضا شفاف تھی جس کی وجہ سے بیماریاں نہ ہو نے کے برابر تھیں۔

جہد البقا کا زمانہ تھا، چاک و چوبند لوگ جنگلوں سے پھل، سبزی اور جڑیں قدرتی ما حول سے بلا معا وضہ حاصل کر تے تھے۔ کوئی ذخیرہ کر تا تھا اور نہ چوری چکاری۔ میرا تیرا کا تصور بھی نا پید تھا۔ تازہ مچھلیاں لوگ خود دریاؤں سے پکڑ کر کھا تے تھے۔ لیکن آج اس مہذب دنیا میں روزا نہ پچھتر ہزار انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں اور دوسری جا نب تراسی ارب پتی اس دنیا کی آ دھی دولت کے ما لک ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران دنیا کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔

سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ سے کروڑوں انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں انسانی صحت کی صورتحال بہت خراب ہے بالخصوص پاکستانی عوام کا معیا زندگی بہتر نہ ہو نے اور صحت کی سہو لتوں کے فقدان کی وجہ سے ایشیا کے دس ملکوں کے مقا بلے میں پاکستان کی اوسط طبعی عمر سب سے کم ہے۔

ایک رپورٹ کے مطا بق پاکستان میں صحت کی شعبے کی خامیوں اور صحت کی مد میں فی کس سرکاری اخراجات میں کمی کی وجہ سے خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میںپا کستا نی شہری کم اوسط طبعی عمر پاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اوسط عمر بہتر سال، چین میں چھہتر سال، بھارت میں اڑسٹھ سال، انڈونیشیا میں انہتر سال، ملائشیا میں پچہتر سال، نیپال میں ستر سال، فلپا ئن میں پچہتر سال، تھا ئی لینڈ میں چوہتر سال جب کہ پا کستان کی اوسط طبعی عمر چھیاسٹ سال ہے۔ حکومت صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف صفر عشا ریہ سات فیصد خرچ کرتی ہے۔

عالمی تنظیم برائے صحت کی سفارش کردہ پانچ فیصد اور مشرقی ایشیائی معیشتوں کے صحت پر کیے جا نے وا لے اخراجات کے تناظر میں انتہا ئی کم ہے۔ ایشیائی گیارہ ملکوں میں عوام کی صحت پر فی کس سرکاری اخراجات کے تنا سب کے لحاظ سے پاکستان دوسرا پست ترین ملک ہے جہاں حکو مت ہر فرد پر سالانہ سو ڈالر کے لگ بھگ فنڈ خرچ کرتی ہے، اس فہرست میں بنگلہ دیش کا شمار سب سے پست ملک کے طور پر کیا جا تا ہے جب کہ پا کستان اس سے بھی پیچھے ہے۔

پاکستان میں محکمہ صحت کے ماتحت نیشنل پروگرام برا ئے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تحت ملا زمین چھ ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلا ف شدید احتجاج کر رہے ہیں، اس شعبے میں تیئس ہزار سے زیادہ خواتین کام کر رہی ہیں، ان خواتین کارکنوں کو گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہوں اور دیگر مراعات نہیں مل رہی ہیں۔ ان مظاہرین نے وزیر اعلی ٰہا ؤس سندھ تک جانے کی کوشش بھی کی لیکن پو لیس نے انھیں آ گے نہیں بڑھنے دیا۔

ملک بھر میں ان کی تعداد تیئس ہزار ہے اور کرا چی میں یہ تین ہزار دو سو اٹھانوے ہے۔ دو ہزار بارہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر انھیں مستقلی کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن انھیں پنشن اور دیگر مراعات دو ہزار بیس تک نہ دینے کی حکمت عملی طے کی گئی تھی۔یہاں تو زندگی بچا نے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی زند گی محفوظ نہیں ہے، پو لیو ورکرز بچوں کو قطرہ پلاتے ہو ئے شہید کر دی جا تی ہیں، اور ان کے اہل خانہ کو کوئی معاو ضہ تک نہیں دیا جا تا۔ اسی طرح جو نئیر ڈاکٹروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا تا ہے۔

ان کو اتنی قلیل تنخوا ہیں دی جا تی ہیں کہ اس سے گزارا مشکل ہو تا ہے، اس کے علاوہ ان ڈاکٹروں کو مستقل کیا جا تا ہے اور نہ انھیں قوانین کے تحت ترقی اور الاؤنسز دیے جاتے ہیں۔ ایک تو صحت کا بجٹ ہی کم ہے اس پر ستم یہ کہ رہے سہے بجٹ میں اتنا خورد برد ہو تا ہے کہ مریضوں تک بجٹ کے رقوم پہنچ ہی نہیں پا تیں۔

پاکستان کے دو بڑے اسپتالوں کو لے لیں، کرا چی کا جناح اسپتال اور سول اسپتال جہاں اپنی باری کے انتظار میں ہزاروں مریض جو اندورون سندھ، جنو بی پنجاب اور بلوچستان سے آئے ہو ئے ہوتے ہیں اسپتال کے صحن میں چادر بچھا کر کھلے آ سمان تلے بے یارو مددگار پڑے رہتے ہیں۔ جب کہ اربوں روپے غیر پیداواری اخراجات پر خرچ کیے جاتے ہیںَ۔ دفاعی اخراجات میں ہر سال اصافہ ہوتا ہے اور صحت کے بجٹ میں ہر سال کمی ہوتی ہے۔

بلٹ پروف گاڑیوں، محلات، مسلح محافظوں کے ذریعے سیکورٹی، پروٹوکول، قیمتی زیورات، کاسمیٹک کے سازو سامان ،کتے بلیوں کی خوراک اور غیر پیداواری اخراجات پر خرچ بے حساب ہے، مگر بیماری میں تڑپتے ہو ئے مریضوں کیلیے صحت کے بجٹ میں کچھ نہیں۔ ہما رے ملک میں اسی فیصد لوگوں کو صاف پا نی میسر نہیں۔ اگر عوام کو صاف پانی فراہم کر دیا جا ئے تو آدھی بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔

پانی صاف کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ نہایت ہی سستی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پھٹکری، سلفر، کلورین، پٹاس اور پھر فلٹر کرنے کے آلات۔ جب کہ ہم اربوں روپے اسلحہ پر خرچ کر تے ہیں۔ ہم مزائل، ایف سولہ، ٹینک، توپ، بم بنا لیتے ہیں لیکن عوام کو صاف پانی اور سستی ادویات فراہم نہیں کرتے۔ اسی طرح تیل، گھی، مصا لحہ جات، دودھ وغیرہ کی ملاوٹ کی انسپیکشن کے باقاعدہ محکمے ہیں، ان کے ڈائریکٹرز ہیں، کروڑوں روپے انھیں تنخواہیں ادا کی جا تی ہیں لیکن ملاوٹ سے پاک یہ چیزیں عوام کو میسر نہیں۔

انسان کی صحت اگر ٹھیک ہو تو وہ سب کچھ بہتر طور پہ انجام دے سکتا ہے اور اگر صحت ہی ٹھیک نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی سماج یعنی اشتما لی نظام میں ہی ممکن ہے جہاں کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کو ئی گدا گر۔ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو گا، کوئی طبقہ اور نہ کو ئی ریاست ہو۔ وہ دن جلد آ نے والاہے جب دنیا کی ساری دولت سارے لو گوں کی ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں