کے ڈی اے کا عذاب پھر مسلط
کے ڈی اے نے کراچی کی ترقی کا کام کم اور اپنی رہائشی اسکیموں میں پھنسے ہوئے لاکھوں غریبوں کو پریشان کیا
جنرل پرویز مشرف کا دور جسے آمرانہ کہا جاتا ہے، میں جو ضلعی نظام قائم کیا گیا تھا اس میں کراچی کے سب سے کرپٹ ادارے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو منتخب عوامی نمایندوں کی سٹی حکومت کراچی میں ضم کرکے عوام کو کے ڈی اے میں عشروں سے قائم فرعونیت اور بے انتہا بڑھی ہوئی کرپشن سے نجات دلائی گئی تھی، جس کا عرصہ تقریباً چودہ پندرہ سال پر محیط تھا، جس پر اس ادارے میں کرپشن ختم تو نہیں کم ضرور ہوگئی تھی، کیونکہ اپنے قیام کے بعد سے یہ ادارہ بیوروکریٹس کی سربراہی میں قائم تھا، جو ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کہلاتا تھا، جن کے کنٹرول میں کے ڈی اے کے سرکاری ممبران مختلف شعبوں کو سنبھالتے تھے۔
کراچی کی ترقی کے لیے اور نئی ہاؤسنگ اسکیموں کو وجود میں لاکر وہاں پلاٹوں کی کٹنگ کرکے عوام کو پلاٹوں کی ارزاں نرخوں پر قرعہ اندازی کے ذریعے فراہمی کم اور وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر بلدیات و ترقیات منتخب حکومت میں اور غیر منتخب حکومتوں میں گورنر کے حکم پر بھی کے ڈی اے میں پلاٹوں کی بندر بانٹ زیادہ تھی۔
1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کے بعد بھٹو صاحب کی عوامی حکومت میں جام صادق علی نے وزیر بلدیات و ترقیات بن کر خوب شہرت حاصل کی اور پلاٹ بانٹنے میں شاہانہ فیاضی کا مظاہرہ کیا تو وزیراعظم بھٹو کو بھی انھیں کہنا پڑا تھا کہ جام صاحب کہیں مزار قائد کے بھی پلاٹ مت بنا دینا اور مزار قائد کو بچا کر رکھنا فروخت مت کردینا۔
کے ڈی اے نے کراچی میں رہائشی مسئلہ حل کرنے کے لیے سٹی حکومت سے قبل گلشن اقبال، گلستان جوہر، شاہ لطیف ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن سمیت متعدد رہائشی منصوبے بنائے تھے جن میں بڑے پلاٹ سیاسی اور سفارشی بنیاد پر اور چھوٹے پلاٹ قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے، مگر قسطوں میں ہوئے تھے۔ راقم کا بھی اسی گز کا ایک پلاٹ تیس سال قبل قرعہ اندازی میں نکلا تھا جو شاہ لطیف ٹاؤن میں تھا جس کے نام پر کے ڈی اے نے ریلوے کی زمین بھی پلاٹ بناکر فروخت کردی تھی، جو بعد میں ریلوے نے عدالتی فیصلے کے ذریعے واپس لی تھی۔
کمشنر محمد سلیم خان جب کے ڈی اے میں سینئر ممبر تھے ان کی سفارش کے باوجود کے ڈی اے کے عملے نے جس طرح رُلا رُلا کر راقم کو ڈپلیکیٹ الاٹمنٹ لیٹر بناکر دیا تھا جس میں سفارش کے باوجود چکر پہ چکر لگواکر تاخیر پہ تاخیر جان بوجھ کر کی گئی تھی۔ اگر سفارش کے بجائے رشوت دے کر یہ کام کرایا جاتا تو گھر بیٹھے اور جلد ہوجاتا جو سفارش کے بجائے رشوت دینے کا کمال ہوتا کیوںکہ کے ڈی اے میں رشوت کے بغیر کام ناممکن تھا۔
کے ڈی اے نے کراچی کی ترقی کا کام کم اور اپنی رہائشی اسکیموں میں پھنسے ہوئے لاکھوں غریبوں کو پریشان کیا اور جس کا کام کے ڈی میں پھنس گیا وہ کے ڈی اے کے بدعنوان افسروں اور خصوصاً نچلے عملے کے ہاتھوں نہ صرف مسلسل لٹتا رہا، بلکہ برسوں پریشان رہا کیوںکہ کے ڈی اے میں فرض اولین شہر کی ترقی نہیں بلکہ رشوت کا حصول تھا۔ کے ڈی اے نے اس سلسلے میں دیگر سرکاری زمینیں ہی فروخت نہیں کیں بلکہ لوگوں کے قرعہ اندازی میں نکلے ہوئے چھوٹے پلاٹوں کی اصل مالک کے علاوہ دیگر کو بھی جعلی فائلیں بناکر رقم بٹوری گئی۔کے ڈی اے میں چھوٹے پلاٹ تو غریبوں کے نکلے مگر بڑے پلاٹوں کی صرف بندر بانٹ ہوئی۔ سندھ کے ایک سابق وزیراعلیٰ کا تو کہنا تھا کہ سرکاری پلاٹ ہوتے ہی بانٹنے کے لیے ہیں، مگر وہ بڑے پلاٹ کسی غریب کے لیے نہیں بلکہ بااثر سیاسی رہنماؤں، بڑے افسروںاور بڑی سفارش کے حامل امیروں کے لیے ہوتے تھے، کیونکہ غریب ساٹھ اور اسی گز اور متوسط طبقہ ایک سو بیس گز سے بڑے پلاٹ لینے کی مالی طاقت ہی نہیں رکھتا تھا۔
کے ڈی اے کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت رکھنے کے بجائے حکومت سندھ کے کنٹرول میں رکھنے کا مقصد ہی اپنوں کو نوازنا اور امیروں کو مزید امیر بنانا تھا۔سرکاری پلانٹ منتخب حکومتوں کی موجودگی میں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزرائے محکمہ بلدیات اپنا حق سمجھتے ہیں کہ پلاٹوں کی رشوت دے کر من پسند افسروں اور نوازوں ہوؤں کو مزید نوازیں، قیمتی پلاٹ رفاحی و فلاحی اداروں اور اپنے لوگوں کو معمولی سرکاری نرخوں پر الاٹ کرکے سرکاری اداروں کو فائدے کے بجائے نقصان اور اپنوں کو فائدہ پہنچائیں۔ اعلیٰ سرکاری افسروں کو ایک نہیں کئی کئی پلاٹ دیے گئے، دو پلاٹ لینے والا ایک شہر میں پلاٹ لے کر مطمئن نہیں ہوتا بلکہ ہر بڑے شہر میں سرکاری پلاٹ حاصل کرلیتا ہے اور ان سرکاری پلاٹوں کی کم قیمت پر الاٹمنٹ کے بعد وہ ان پلاٹوں سے ہی اپنے شاندار بنگلے بھی بنالیتا ہے اور باقی پلاٹ فروخت کرکے کروڑوں روپے بھی کمالیتا ہے۔
اسلام آباد میں زرعی مقاصد کے لیے پلاٹ لے کر وہ فارم ہاؤسز اور گیسٹ ہاؤسز بنانے والوں کے خلاف پلاٹوں کے غلط استعمال پر نوٹس بھی لیا گیا تھا اور سی ڈی اے کو کارروائی کے لیے بھی کہا تھا۔ کے ڈی اے نے حال ہی میں اپنے بارہ بڑے پلاٹوں کی منسوخی کا اعلان کیا ہے جو سندھ کے اعلیٰ افسروں کو الاٹ کیے گئے تھے، یہ منسوخی کسی دباؤ کا نتیجہ ہے، جن کے الاٹی نوٹس ملنے کے بعد عدالتوں سے ریلیف حاصل کرلیں گے اور ہوگا کچھ نہیں۔ ہر شہر کی ترقی وہاں کے بلدیاتی اداروں کا حق اور اختیار ہے اور اگر ان بلدیاتی اداروں کے سربراہ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے بجائے منتخب میئر اور چیئرمین ہوں تو اپنے شہر کو لٹنے نہ دیں اور رفاحی پلاٹوں کو عوامی ضروریات کے لیے استعمال کریں، مگر سرکاری ایڈمنسٹریٹر تو وہاں لاکھوں روپے رشوت دے کر تعیناتی کراتا ہے اور وہ شہر اور شہریوں کے بجائے اپنا ذاتی مفاد اور اپنے اعلیٰ عہدیداروں کی خوشنودی کو ترجیح دیتا ہے کیوںکہ وہ نہ اس شہر کا باشندہ ہوتا ہے اور نہ عوام کا منتخب نمایندہ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزرائے بلدیات بھی بڑے شہروں اور دارالحکومتوں سے کم ہی تعلق رکھتے ہیں ۔
اس لیے وہ سرکاری پلاٹ بے دردی سے بانٹتے ہیں۔ کراچی میں متعدد ایسے بڑے ایمنسٹی پلاٹ ہیں جو پارک پلے گراؤنڈ یا سرکاری اداروں کے لیے مختص تھے مگر بعد میں خالی دیکھ کر وہاں قبضے ہوگئے اور کچی آبادیاں قائم ہوگئیں اور سیاسی حکومتوں میں انھیں لیز کراکر مستقل آبادی کی شکل دے دی گئی اور جب ایسے پلاٹوں پر قبضے ہورہے تھے تو کے ڈی اے اور متعلقہ اداروں نے رشوت لے کر قبضہ کرنے والوں کو نہیں روکا اور شہر میں غیر قانونی آبادیوں کو فروغ دیا۔
سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ اور کراچی کو نقصان پہنچانے کے لیے کے ڈی اے، ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے اپنے کنٹرول میں کرلیے ہیں اور حال ہی میں ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے سرکاری سرپرستی میں منتخب بلدیہ عظمیٰ کی دشمن بن گئی ہے اور سوک سینٹر سے بلدیہ عظمیٰ کے دفاتر خالی کراکر بلدیہ عظمیٰ ہی نہیں شہریوں کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں اور بلدیہ عظمیٰ محدود اور اپنے ماتحت ادارے چھینے جانے کے بعد اولڈ کے ایم سی بلڈنگ منتقل ہونے پر مجبور ہے کیوںکہ سندھ حکومت کمائی والے ادارے قبضے مین لے کر صرف مسائل ہی مسائل لا محدود عملہ، اربوں کے قرضے اور مالی بحران بلدیہ عظمیٰ کو دے چکی ہے کے ڈی اے اسلام آباد کی طرح بلدیہ عظمیٰ کا اہم حصہ ہے مگر سندھ حکومت یہ حق چھین چکی ہے تاکہ کراچی کے منتخب نمایندے کے ڈی اے کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ سے لا تعلق اور کراچی کے شہری جنرل پرویز کے ہٹائے گئے عذاب میں دوبارہ مبتلا ہوجائیں اور کرپشن کو فروغ ملتا رہے۔