کامیاب شاعر ناکام شادیاں
فلمی ہیروئنیں کسی مالدار شخص ہی سے شادی کی خواہش مند ہوتی ہیں۔
اکثر فلمی ہیروئنوں کی شادیاں محبت کے بجائے مالی منفعت کے حساب سے ہوتی ہیں اور شادیاں بھی اس وقت ہوتی ہیں جب ہیروئنیں شہرت سے دور بڑھاپے سے قریب ہونے لگتی ہیں، پھر انھیں یہ خیال بھی ستانے لگتا ہے کہ اب ایک عدد شوہر بھی ان کی زندگی میں آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں، اس طرح ان کی بڑھتی ہوئی عمر کو ایک سہارا مل جائے گا۔ ایسی صورت میں فلمی ہیروئنیں کسی مالدار شخص ہی سے شادی کی خواہش مند ہوتی ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ جب اپنے دور کی مشہور ہیروئن نشو اور نغمہ نگار تسلیم فاضلی کی شادی کی خبر منظر عام پر آئی تو ابتدا میں لوگوں کو اس شادی پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ اس دوران فلمی حلقوں میں جرح بھی ہوئی تھی کہ نشو اور فاضلی ایک دوسرے کے اتنے قریب کس طرح آگئے۔
ایسی ہی ایک شادی بمبئی فلم انڈسٹری کے نامور رائٹر اور نغمہ نگار گلزار کی شادی اپنے وقت کی مشہور ہیروئن راکھی سے ہوئی تھی۔ اس شادی پر بھی لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شادی کسی جذباتی حادثے کے پس منظر میں تو نہیں ہوئی جب کہ گلزار کی شاعری سے راکھی کو عشق ہوا تھا اور پھر یہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی کے ساتھی بن گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ ہی عرصے بعد نشو اور فاضلی میں علیحدگی ہوگئی اور اسی طرح جلد ہی گلزار کی زندگی سے بھی راکھی دور ہوگئی تھی، البتہ دونوں شاعروں کی زندگی کچھ ملتی جلتی ہے۔
دونوں شاعروں کی بیویاں اپنے پہلے شوہروں سے طلاق لے چکی تھیں اور دونوں ہیروئنوں کی یہ دوسری شادیاں تھیں اور دونوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی رہی کہ دونوں شاعروں کی ہیروئن بیویوں نے ایک ایک بیٹی اپنی نشانی کے طور پر اپنے اپنے شوہروں کے سپرد کردی تھی۔
تسلیم فاضلی کی نشو کے ساتھ شادی پر لوگوں کو ایک خوشگوار حیرانی ضرور ہوئی تھی مگر یہ ایک پیار بھری حقیقت تھی۔ نشو اور تسلیم فاضلی کی پھر ایک بیٹی بھی دنیا میں آگئی، اس بیٹی کے آنے سے اس رشتے کو اور مضبوط ہونا چاہیے تھا مگر بیٹی کی آمد سے تسلیم فاضلی کے خاندان والوں نے اپنا الگ ہی فیصلہ سنادیا کہ فاضلی کی بیٹی صرف فاضلی خاندان کے ساتھ رہے گی، اس کا نشو سے زیادہ تعلق نہیں ہوگا۔ اس بات سے نشو اور فاضلی کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعہ شروع ہوگیا۔ نشو نے کراچی میں رہنے سے انکار کردیا، اور پھر یوں ہوا کہ جس طرح نشو کی اپنے پہلے شوہر سے علیحدگی ہوئی تھی اسی طرح کے آثار فاضلی اور نشو کے درمیان بھی نظر آنے لگے۔
انعام ربانی سے نشو کی ایک بڑی بیٹی صاحبہ تھی جس کو نشو نے شوہر کو دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس طرح جب نشو اور فاضلی کے درمیان تلخیاں زیادہ بڑھنے لگیں تو تسلیم فاضلی اور اس کے خاندان نے فاضلی کی بیٹی مدیحہ کو نشو کے ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا تھا، جب دونوں کے درمیان تنازعات اور زیادہ بڑھے تو ایک بار پھر پرانی تاریخ دہرائی گئی اور نشو اور تسلیم فاضلی کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ نشو دوبارہ سے لاہور چلی گئی اور فلمی دنیا کی رونقوں میں گم ہوگئی۔
تسلیم فاضلی اور نشو سے ملتی جلتی کہانی ہندوستان فلم انڈسٹری کے رائٹر اور شاعر گلزار کی بھی ہے، گلزار اور اداکارہ راکھی نے بھی محبت کی شادی کی تھی۔ گلزار کو راکھی کی آنکھیں بہت پسند تھیں اور راکھی گلزار کی شاعری کی دیوانی تھی۔ جب کہ وہ ایک بنگالی اداکارہ تھی اور گلزار پنجابی۔ یہ راکھی کی بھی گلزار سے دوسری شادی تھی اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ راکھی کی پہلی شادی بھی اس کے والدین کی مرضی سے اور بہت کم عمری میں کلکتہ ہی کے ایک بنگالی فلموں کے معمولی اداکار اجے بسواس سے ہوئی تھی، مگر راکھی کی کم عمری اور اجے بسواس کی بڑی عمر اس شادی میں آڑے آگئی۔
راکھی کو بمبئی کی فلمی دنیا میں جانے سے دلچسپی پیدا ہوئی، اس طرح وہ اپنے پہلے شوہر سے علیحدگی اختیار کرکے بمبئی کی فلم نگری میں آگئی۔ راکھی نے ابتدا میں چند بنگالی فلموں میں کام کیا تھا، پھر اداکاری اس کا جنون بن گئی۔ بمبئی میں اداکار سنیل دت سے اس کی ملاقات ہوئی اور پھر سنیل دت ہی کی سفارش پر اسے فلم ''ریشماں اور شیرا'' میں کاسٹ کیا گیا، راکھی کو اس فلم میں بہت پسند کیا گیا اور پھر یہ بنگالی ساحرہ یکے بعد دیگرے بمبئی کی فلموں میں کاسٹ کی جاتی رہی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ راکھی تمام نامور ہیروز کے ساتھ کام کرنے لگی، جن میں دھرمیندر، ششی کپور، انیل کپور، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن اور دلیپ کمار تک کے ساتھ اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بہت سی کامیاب فلمیں اس کے کریڈٹ پر آتی چلی گئیں۔
اس دور میں مشہور فلم رائٹر اور شاعر سمپورن سنگھ گلزار، راکھی کے شریک زندگی بن گئے۔ شروع شروع میں محبت کی گرمجوشی دونوں کی زندگی کا حصہ بنی رہی مگر پھر بے تحاشا فلموں کی مصروفیت اور غیر معمولی شہرت نے راکھی کا دماغ خراب کردیا تھا۔ راکھی اور گلزار کی ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام میگھا رکھا گیا۔ ابھی میگھا بہت ہی چھوٹی تھی کہ راکھی اور گلزار کے درمیان بھی چھوٹی چھوٹی باتوں نے رائی کو پربت بنانا شروع کردیا۔ گلزار ایک دھیمے مزاج کے شخص ہیں، وہ زور زبردستی کے تعلقات کو کبھی اچھا نہیں سمجھتے تھے، جب انھیں اس بات کا پختہ یقین ہوگیا کہ راکھی کے دل میں اب ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے تو گلزار نے خاموشی کے ساتھ راکھی سے علیحدگی اختیار کرلی اور پھر دونوں ہی الگ الگ راستوں کے مسافر ہوگئے۔
اب میں پھر تسلیم فاضلی کی طرف آتا ہوں۔ تسلیم فاضلی ایک نہایت علمی اور ادبی گھرانے کا چشم و چراغ اور ادب کا نمایندہ تھا۔ دہلی میں اس کے ادبی گھرانے کی بڑی شہرت تھی، اس کے والد امید ڈبائیوی بڑے بھائی اور اس کے کزن بھی ادبی شہرت کے حامل تھے۔ اور خاص طور پر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ندا فاضلی کا بڑا نام تھا، اسی طرح اس کے بڑے بھائی جو لاہور کی فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے، صبا فاضلی ایک اچھے شاعر تھے۔ تسلیم فاضلی کی نشو کے ساتھ شادی کو فاضلی کے خاندان والوں نے تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور تسلیم فاضلی کے ایک اداکار کے ساتھ شادی کے فیصلے پر انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
تسلیم فاضلی نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ شادی کی تھی مگر پھر اپنے خاندان والوں کی ناپسندیدگی کے آگے اپنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور خاندان والوں کی خوشیوں کا احترام کرتے ہوئے نشو سے اپنا تعلق ختم کردیا تھا اور اپنی بیٹی مدیحہ کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ نشو نے بھی مدیحہ کو اپنانے پر کوئی زور نہیں دیا اور اپنی تمام تر توجہ اپنی بیٹی صاحبہ پر مبذول کردی۔
نشو نے بھی پھر پلٹ کر اپنی دوسری بیٹی مدیحہ کی طرف نہیں دیکھا اور اپنے پہلے شوہر اعجاز ربانی سے جو اس کی بیٹی صاحبہ تھی اپنی تمام تر توجہ اس کی طرف مبذول کردی۔ اس طرح تسلیم فاضلی بھی اپنی بیٹی کو اپنے خاندان کے سپرد کرنے پر مجبور ہوگیا۔ تسلیم فاضلی نے اپنے خاندان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے نشو کو اپنی زندگی سے علیحدہ کرنے میں تو کامیاب ہوگیا تھا مگر وہ نشو کو اپنے دل سے نکالنے میں ناکام رہا تھا اور وہ اندر ہی اندر سے یوں لگتا تھا کہ جیسے تیزی کے ساتھ ٹوٹتا جا رہا ہے۔ اس نے لاہور تو چھوڑ ہی دیا تھا مگر ساتھ ساتھ لوگوں سے ملنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک غم تھا جو اسے گھن کی طرح چاٹ رہا تھا۔ اس وقت وہ بتیس سال کا تھا اور اس نے شہرت میں بڑے بڑے سینئر شاعروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ دل کا مریض بنتا چلا گیا اور ایک دن خبر آئی کہ تسلیم فاضلی دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
یہاں مجھے ایک دکھ بھری حقیقت یاد آگئی ہے۔ جس طرح بمبئی کے ایک نامور شاعر گیت نگار اعجاز لکھنوی کو عین عالم شباب میں کثرتِ مے نوشی نے مار ڈالا تھا اسی طرح نشوکی محبت ایک خوبصورت شاعر کو لے ڈوبی ، اور اس طرح بے شمار دلکش گیت لکھنے والے شاعر سے فلمی انڈسٹری محروم ہوگئی تھی۔ خداوند کریم تسلیم فاضلی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین