ادب سلامت رہی نا ہاجرہ

بیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں بزرگوں سے 1857ء کی قیامت کے جھوٹے سچے قصے بہت دل چسپی سے کہے اور سنے جاتے تھے


Rizwan Tahir Mubeen November 27, 2016
طاقوں اور روشن دانوں والے ان سخت روایت پسند گھروں کی انگنائیوں کو ہی بچیوں کے کھیل کے ’میدان‘ کا درجہ حاصل تھا۔ فوٹو : فائل

'غدر' کو برپا ہوئے نصف صدی بیت چکی تھی۔۔۔ کہتے ہیں تب وقت بہت دھیرے دھیرے سرکتا تھا۔۔۔ شاید اس لیے بھی یہ سمے اور بھی طویل محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ہندوستان کی راج دہانی دلّی کے گھاؤ اب کچھ بھرنے سے لگے تھے۔۔۔ مگر بیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں بزرگوں سے 1857ء کی قیامت کے جھوٹے سچے قصے بہت دل چسپی سے کہے اور سنے جاتے تھے۔۔۔ کہ یہ اس وقت لوگوں کی آنکھوں دیکھی تھی، اُس وقت جنہوں نے گڈے گڑیوں سے کھیلنا سیکھا تھا، آج جھریوں زدہ صورتوں کی ہو چکی تھیں، مگر 'غدر' دلی والوں کے ذہنوں پر ایک خوف ناک پرچھائیں کی صورت نقش تھا۔

اُس وقت کے قصے کہانی ہی کیا، بزرگوں کی دعاؤں سے لے کر پھیری والوں اور دست دراز کرنے والے فقیروں تک کی صداؤں میں بھی 'غدر' کی بازگشت ہوتی۔ بوڑھے سہم جاتے، بوڑھیاں کانوں کو چھوکر آسمان کی سمت دیکھتیں اور پناہ مانگتیں کہ 'خدا، اب کسی کو ایسی نفسانفسی نہ دکھائیو۔۔۔!'

اب ہندوستان میں مکمل طور پر ملکہ برطانیہ کا سکہ چلتا تھا۔۔۔ مقامی سطح پر کچھ لوگ تخت برطانیہ سے اختیارات کی مانگ کرتے تھے، کچھ سینہ ٹھونک کر آزادی مانگتے اور کچھ لٹھ لیے بھڑنے کو بے قرار ہوتے۔۔۔ بہتیرے مذہبی پیشوا بھی لوگوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے۔۔۔ مگر ابھی دھرتی پر سام راجی شکنجے ڈھیلے ہونے کے آثار نہ تھے۔۔۔ دلّی اب سنبھل رہی تھی، 1911ء میں جارج پنجم دارالحکومت کلکتے سے واپس دلّی لے آئے تھے۔

راج دہانی واپس ملی، تو قطب مینار، لال قلعے کے فخر اور جامع مسجد کا ناز لیے اس شہر والوں کے بے چین دل کو کچھ قرار آیا تھا، انہیں لگا کہ کچھ پرانے سے دن لوٹنے لگے ہیں۔۔۔ کیا ہوا اگر بادشاہ اب ولایتی ہے اور اس کا مسکن بھی دلی نہیں، بلکہ سات سمندر پار ہے۔۔۔ مگر ہندوستان کے اس اجڑے دیار کی مانگ تو سجنے لگی ہے ناں۔۔۔ اسی شبھ گھڑی پرانی دلی کے چاندنی چوک کے قریب واقع 'پنجابی کٹرے' کی ایک روایتی وضع کی حویلی میں عبدالوہاب کے گھر ایک ننھی بچی کی قلقاریاں گونجیں۔۔۔ بھرے پُرے کنبے میں شامل ہونے والی اس پری کا نام ہاجرہ بی رکھا گیا۔

طاقوں اور روشن دانوں والے ان سخت روایت پسند گھروں کی انگنائیوں کو ہی بچیوں کے کھیل کے 'میدان' کا درجہ حاصل تھا۔۔۔ ڈیوڑھیوں سے باہر کا سفر شرم وحیا کی پیکر ان عورتوں کے لیے ڈولیوں کے بغیر نہ ہوتا تھا۔۔۔ پردے کا انتظام ایسا ہوتا کہ گھر کے مرد جاکر کہاروں کو کہہ آتے کہ فلاں وقت خواتین کو سفر درپیش ہے اور کہار ڈولی اٹھا کر گھر کے دروازے کے سامنے دھرتے اور اوٹ میں ہو لیتے، تاوقتے کہ خواتین سوار نہ ہوجائیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اس 'وقفے' میں لڑکے بالے شرارت میں خالی ڈولی میں بھاری بھرکم پتھر جما دیتے، سادہ لوح کہار ڈولی اٹھاتے، تو وزن سے سمجھتے کہ شاید سواریاں بیٹھ گئیں، منزل پر جو آواز لگاتے اور ڈولی 'ہلکی' نہ ہوتی تو پتا چلتا کہ ماجرا کیا ہوا۔

وقت گزرنے کے ساتھ عبدالوہاب کے گھر میں بچوں کی رونق میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔۔۔ اللہ نے بیٹوں اور بیٹیوں دونوں سے نوازا تھا۔۔۔ ہاجرہ بی کی پیدائش کے دو، تین برس کے بعد ایک بیٹی نے 1914ء میں آنکھ کھولی، جس کا نام 'سلامت جان' رکھا گیا۔۔۔ یہ وہی برس تھا، جب دنیا میں ایک بڑی جنگ چھڑگئی، جسے اب پہلی عالمی جنگ کہا جاتا ہے۔

یوں تو بھرے پُرے کٹم میں اوپر تلے کے بہن بھائیوں میں محبت کم نہ تھی، مگر ہاجرہ بی اور سلامت جان تو گویا ایک جان دوقالب تھے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر گویا اپنے ہونے کا احساس ہوتا۔۔۔ رات پلکیں موندنے سے پہلے بھی ایک دوجے کو محبت سے دیکھے بغیر چین نہ پڑتا تھا۔ پہننا اوڑھنا ہو یا کھانا پینا، ماں باپ تو سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے، مگر یہ دونوں تو گویا جذباتی طور پر ایک دوسرے کی جڑواں تھیں۔ برابر کی بہنوں میں کبھی کسی نہ کسی بات پر تکرار، کسی چیز پر جھگڑا ہو ہی جاتا ہے، ناسمجھی ہوتی ہے ناں، تو کبھی آنکھیں بھی چڑھ آتی ہیں۔ تیوریوں پر خفگی کی لکیریں گڑ جاتی ہیں، مگر ہاجرہ بی اور سلامت جان کی محبت تو دیدنی تھی، ان کا بس چلتا، تو پلک جھپکنے کے لیے بھی خود کو ایک دوسرے سے پرے نہ کرتیں۔ کبھی تو ایسا لگتا کہ یہ سب انہیں الگ الگ کیوں سمجھتے ہیں۔

امّاں ہمارے دوپٹے الگ الگ کیوں دیتی ہیں؟ کیا ہم دونوں ایک دوپٹیا میں نہیں سما سکتیں؟ ناشتے کی کڑک روٹی ہو یا شام کی باقرخانی یا پاپڑ۔۔۔انہوں نے تو کبھی چیزوں کو ایک دوسرے میں الگ، الگ بانٹنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔

دونوں کی گڑیا ایک تھی، تو قلم اور تختی بھی سانجھی۔۔۔ جھلسا دینے والی گرمی میں فالسوں کا رس بھی دونوں ایک ہی کٹورے سے پیتیں۔ ایسا لگتا کہ ایک دوسرے کا جھوٹا پیے بغیر انہیں قرار نہیں آتا۔ جاڑوں میں جب سب بہن بھائیوں میں گجک، مونگ پھلی اور چلغوزوں کی پڑیاں بٹتیں، تب بھی وہ دونوں ایک ہی لفافے سے کھاتیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کھاتی ایک ہے، تو سیر دوسری ہوتی ہے۔ ایک بے چین ہوتی، تو دوسری بے آرام رہتی ہے۔

کچھ دن پہلے ابّا دارجلنگ سے لوٹے تو اپنے ہر بچے کے لیے ایک، ایک مفلر اور دھسّا لائے۔۔۔ جانے کیا چوک ہوئی کہ گن کر نو،نو کے حساب سے لانے کے باوجود اب آٹھ، آٹھ کا حساب آرہا تھا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ بچپنے میں نئی چیزوں کی مسرت ہی الگ ہوتی ہے۔۔۔ اب کون ہے، جو بہ خوشی اس تحفے سے دست بردار ہونے کو تیار ہو۔۔۔! ابّا پوٹلا اُلٹائے اسی فکر میں تھے کہ ہاجرہ بی نے ابّا کی مشکل ہی آسان کر دی 'ہم دونوں ایک ہی دسّے میں آسکتے ہیں، مفلر بھی ایک ہی کافی ہے۔' کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے یہ جاں گسل مسئلہ حل ہوگیا، ابّا بھی حیران تھے، اپنی دونوں بچیوں کے ایثارومحبت کا یہ انداز ان کے لیے بھی بے حد متاثر کُن تھا۔

کہتے ہیں بیٹیاں آنگن کی بیلوں کی طرح ہوتی ہیں۔ پتا بھی نہیں چلتا، دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ہو جاتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب بڑوں نے بچپن کی دہلیز پھلانگنے والی ہاجرہ بی کے ہاتھ پیلے کرنے کا فیصلہ کیا اور بارات بھی دلی سے کہیں دور کلکتے سے آرہی تھی، یعنی ہاجرہ کو بیاہ کر اب کلکتے جانا تھا۔۔۔ یہ خبر سلامت پر بجلی بن کر گری۔ یہاں تو پل بھر کی دوری کا بھی نہ سوچا تھا، کہاں دوسرا شہر۔۔۔!

اف خدا! یوں لگتا تھا کہ کسی نے جسم سے جان ہی نکال لی ہو۔۔۔ کتنے ہی طریقے ذہن میں آتے تھے کہ کسی طرح وہ بھی بیاہے جانے والی بہن کے ساتھ کلکتے ہولے، مگر کوئی طریقہ کارگر نہ ہو سکتا تھا۔ دل چسپ امر یہ تھا کہ بہن کے ساتھ ہونے کے ہر غیرپختہ منصوبے میں اماں، ابّا اور گھر کے چھُٹ جانے پر کوئی غم نہ تھا، بس کسی طرح بہن کے ساتھ رہنا مقصود تھا۔

'اری، کا ہے بولائے جاتی ہے، بیٹیوں کو تو ایک دن رخصت ہونا ہی ہوتا ہے، کون سا ہمیشہ کے لیے جا رہی ہے، اللہ خیر رکھے ہر دوسرے، تیسرے مہینے یہاں آجایا کرے گی۔۔۔' اماں نے دل کڑا کرکے سلامت جان کو ڈانٹا تھا۔ ہاجرہ کاگھر سے جانا ہی کیا کافی نہ تھا کہ پردیس جانا بھی ٹھہرگیا۔۔۔ حقیقت میں ایسا لگتا تھا کہ زندگی رک سی گئی ہے۔ دنیا خالی ہو گئی ہے۔۔۔

پہل دوج ہو یا آنکھ مچولی، اب ہر طرح کے شغل سے اس کا دل اچاٹ تھا۔۔۔ اس کا تو کھیلنا کودنا، کھانا پینا اور ہنسنا رونا سب ہاجرہ کے سنگ ہی تھا۔ آنکھ مچولی میں جب کبھی ان دونوں پر 'دام' آجاتا، تو کس طرح جان بوجھ کر وہ ایک دوسرے کی کھلی ہوئی بانہوں میں پہنچ جاتی تھیں، اور یوں ایک کے بعد دوسرے پر 'دام' آجاتا۔ ساتھ کی سادہ ہم جولیاں بھی نہ سمجھتیں کہ وہ کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔

باورچی خانے میں اکیلے وقت بِتانا اب کتنا کٹھن ہوگیا تھا، کہاں پہلے ایک چولھا سنبھالتی، تو دوسری نعمت خانے پر مدد کے لیے موجود ہوتی۔۔۔ اب نہ سل بٹے پر چٹنی پیسنے میں کوئی لطف تھا، نہ بیسن کی پھلکیوں کی خوش بو سے جی خوش ہوتا۔۔۔ امام دستے پر گرم مسالا پیستے ہوئے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنا یاد آتیں تو 'موصلی' کی دھمک سے کلیجہ گویا پھٹ ساجاتا۔۔۔ دسترخوان پر شلجم کے اچار کا مرتبان کس قدر سُونا سُونا سا لگنے لگا تھا، اکیلے اچار کا پانی بھر بھر کر پینے کا اب جی ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اب تو اس کا ایک گھونٹ بھی لینا دوبھر تھا۔ گرمیوں میں کبھی قلفی کھائی، تو سانجھے چمچے سے دونوں کا باری باری کھانا۔۔۔ اور زبردستی ایک دوسرے کو کھانے کو کہنا۔۔۔ پھر جاڑے آئے اور ابا کا لایا ہوا دھسّا اکیلے اوڑھنا پڑا تو ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔

اِدھر 1927ء میں نئی دلی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ 'پنجابی کٹرے' والا شہر اب پرانی دلّی کہلانے لگا۔ ہاجرہ بی کے بھاگ کلکتے سے جُڑے تھے، تو سلامت جان کا بَر بھی دلی میں نہ تھا۔۔۔ انہی دنوں اس کی ڈولی کلکتے سے بالکل مخالف سمت کراچی جانا ٹھہر گئی۔۔۔ہاجرہ سے دوری کا غم تو کلیجے کو لگا ہی تھا، چناں چہ اب دلی سے کراچی کوچ کرنا بھی جھیل ہی لیا۔

نئی نگری، نئی زندگی۔۔۔ رفتہ رفتہ اسی خامشی کی عادت ہوگئی۔۔۔ اُدھر ہاجرہ بھی بال بچوں میں مصروف، اِدھر بھی مصروفیت نے غم کو کچھ پرے کیا۔۔۔ اب نصف سے زیادہ زندگی دونوں ایک دوسرے کے بغیر گزارچکے تھے۔۔۔ مصروفیت میں درد شاید ٹھہر سے جاتے ہیں، مگر بھلائے نہیں جاتے۔۔۔ کبھی ملتے تو گھنٹوں باتیں ہوتیں۔۔۔ دوریوں کا شکوہ تو دونوں کی آنکھیں ملتے کے ساتھ ہی ایک دوسرے سے کردیتی تھیں۔ دونوں جانتی تھیں کہ یہ فاصلے تقدیر نے لکھے تھے۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ ساتھ مل بیٹھنے کی پیاس نہ رہی تھی، آج بھی اپنے ہاتھ سے ایک دوسرے کو نوالے دینے کا لطف اٹھانے کو مچل مچل جاتیں۔ اپنے ہاتھ کے اچار، چٹنیاں ایک دوسرے کو چکھانے کے واسطے مرتبان سینت سینت کر رکھتیں۔۔۔ کلکتے سے دلی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور تھی، تو اب کلکتے سے کراچی کی مسافت 22 سو کلومیٹر تک دراز ہو گئی تھی۔۔۔ گویا ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔ لگ بھگ17 اٹھارہ برس ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والی یہ بہنیں اسی معمول کے ساتھ زندگی گزارتی رہیں۔۔۔

تقدیر کو ابھی ان کی محبت کا مزید امتحان مقصود تھا۔۔۔ ابھی 1947ء آنا جو باقی تھا۔۔۔ اور یہ وہ قیامت تھی، جس نے جانے کتنوں کی جان لی اور کتنوں کو قطرہ قطرہ موت دی۔۔۔ سیاسی بساط پر ہندوستان کے دو ٹکڑے ہونا طے ہوچکا تھا۔۔۔ ستم ظریفی سے یہ بٹوارا ان دونوں بہنوں پر مرے پہ سو درے کی صورت نازل ہوا۔۔۔ 22 سو کلو میٹر کی دوری اب دو الگ الگ ملکوں کی صورت 'اجنبی' بھی ہونے والی تھی۔ کلکتہ ایک طرف رہ گیا تو کراچی سرحد کی دوسری طرف کے حصے میں آیا۔۔۔ ایک طرف پرانی دلی اور قرب وجوار میں 1857ء کے 90 برس بعد ایک اور بربادی کی تیاری تھی، تو دوسری طرف یہ دونوں بہنیں بہت دور دو الگ، الگ شہروں میں کلیجہ تھامے کراہ اٹھی تھیں۔۔۔

بٹوارے سے پہلے ہی 'پنجابی کٹرے' کے ایک پرانے واقف کار بابو لال نے عبدالوہاب کے سرگوشی کی تھی کہ 'یہاں سے نکل چلو، دلی میں بہت خون خرابہ ہونے والا ہے۔۔۔!' جوان بچیوں کو لیے عبدالوہاب جیسے تیسے کراچی آن پڑے۔ پھر دلّی پر جو قیامت ٹوٹی، اس نے غدر کے ہنگاموں کو شرما دیا۔۔۔ بزرگوں سے 1857ء کی ہول ناکیاں سننے والے اب بوڑھے ہوکر اس سے بدتر قتل وغارت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔ دلی کا نوحہ لکھنے کو تو ملا واحدی سے لے کر شاہد احمد دہلوی تک میسر آگئے، لیکن بہن کو بہن سے جدا کرنے والے نوحے تو اتنے ہیں کہ اس کے واسطے ہزاروں انتظار حسین بھی شاید تھوڑے پڑجائیں۔۔۔

کاش، کسی نے کلکتے کے اس گھر میں بیٹھی ہاجرہ کے دل کو ٹٹولا ہوتا کہ بی بی ہندوستان تقسیم کریں یا نہ کریں؟ یا کراچی کے ساحلی علاقے میں بسنے والی سلامت کی مرضی پوچھی ہوتی۔ وہ دُہائیاں دیتیں کہ پہلے ہی برسوں بیت جاتے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کا جھوٹا پانی پیے۔۔۔ اب پانی تو بہت پیتے ہیں، مگر پیاس نہیں بجھتی۔ اب کھانا کھا کر پیٹ تو بھر جاتا ہے، مگر دوسرے کے ہاتھ سے کھانے جیسی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔۔۔ اب کسی پکوان میں لذت ہے، نہ کسی میوے میں لطف۔۔۔ ہم تو چھوٹی سی دوپٹیا میں بھی تنہا نہ ہوتے تھے، اب بڑے سارا دوپٹہ اکیلے اوڑھو تو کاٹ کھانے کودوڑتا ہے۔ ہر ہنسی پر بھی ہماری آنکھیں بھر آتی ہیں۔

ہونی کو کون روک سکا ہے۔۔۔ دلّی کے گلی کوچے تو کبھی کے چھُٹ چکے تھے۔۔۔ اب بے گناہوں کے لہو سے ایک طویل گھاؤ دھرتی کے سینے میں گھونپ دیا گیا۔۔۔ یہ دکھ تو کروڑوں ہندوستانیوں میں فقط دو بہنوں کا تھا، ابھی ہاجرہ اور سلامت کی ماں جیسیوں کا تذکرہ نہیں، جنہیں ہجرت کاایسا فیصلہ کرنا پڑا کہ ایک بیٹی اِدھر (کلکتہ) اور ایک اُدھر (کراچی)۔۔۔ گویا ''دکھ تو ایک جیسا ہے، انتخاب کرنا ہے۔۔۔!''

کلکتے میں ہاجرہ کراہی تھی، تو کراچی میں سلامت جان کا رہا سہا چین بھی سلامت نہ رہا۔۔۔ بٹوارے کے ہنگام سے پہلے ہی تو دونوں بہنوں نے اپنی محبت کو دوام دینے کے لیے ایک دوسرے کی سمدھن بننا طے کر لیاتھا۔۔۔ مگر ہائے یہ 'سرحد' کس بلا کا نام ہے، یہ کوئی خونیں آسیب ہے۔۔۔ جو لوگوں کو ملنے نہیں دیتی۔۔۔ قریب جو آتا ہے، نگل لیتی ہے۔۔۔ دھاڑتی ہے اور آگ اُگلتی رہتی ہے تاکہ کوئی قریب نہ پھٹکے۔۔۔ اور اِس طرف والے کبھی اُس طرف جانے کی نہ سوچیں۔۔۔ یہ پنچھی، یہ ندیا اور پون کے سب جھونکے بغیر روک ٹوک آجائیں، چلے جائیں۔۔۔ نیلے گگن پر آوارہ بادل بھی تیرتے ہوئے اُدھر سے اِدھر اور اُدھر سے اِدھر ہولیں۔۔۔ موسم بھی ایک سا ہو اور آکاش بھی سانجھا۔۔۔ زور چلتا ہو تو فقط دھرتی کے سینے پر اور وہ بھی صرف انسانوں پر۔۔۔ کہ خبردار کوئی تڑپتا ہوا دل دوسری طرف جا کر کسی اپنے کا جی ہلکا نہ کرنے پائے۔۔۔ دیکھنا، کوئی چھُٹی ہوئی دلّی جا کر بچپن نہ یاد کرسکے۔۔۔

اب ایک گھر کی دوبیٹیاں نہیں، دو الگ الگ دیش واسیوں کے ملنے کی بات تھی، نتیجتاً میل جول مزید سکڑگیا۔۔۔ اب جب بھی ملتیں، یہی کلام ہوتا 'آپا، کہا سنا معاف کرنا۔۔۔ یا قسمت یا نصیب، اب ملیں کہ نہ ملیں۔۔۔'' کوئی لفظ میسر نہیں، جو اس جملے کے کرب اور دکھ کی انتہاؤں کو بیان کر سکے۔۔۔

1965ء کی جنگ ہوگئی، اور منقسم خاندانوںکے بیچ ان فصیلوں کو مزید اونچا کردیا گیا۔۔۔ اب دونوں طرف آنا جانا مزید محال ہوگیا۔۔۔ دلّی جانے کو بے چین 'امّاں جی' بھی ہو آتی تھیں، جب سے سفری کاغذات پر تصویر لگانے کی منادی ہوئی، انہوں نے کلیجے پر پتھر رکھ لیا اور دوبارہ ہندوستان نہ گئیں۔ ہاجرہ اور سلامت کی دو الگ، الگ شہروں میں شادی، ہندوستان کا بٹوارا اور اب آمد ورفت کے لیے رکاوٹیں، مسلسل آزمائشوں کا شکار محبت اب چوتھے کٹھن ترین مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ ہر سانس ایک ساتھ لینے والی بہنیں اب ایک دوسرے کے لیے پردیسی بن چکی تھیں۔۔۔

دلی میں ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر ہوش سنبھالنے والی ہاجرہ اور سلامت اب نانی، دادی بن چکی تھیں۔۔۔ مگر محبت کو زوال کہاں ہے۔۔۔ جب بھی روبرو ہوتیں، پھر سے وہی نوعمر سی لڑکیوں کی طرح ایک دوسرے سے چمٹ جاتیں۔۔۔ بچپنے میں ہاجرہ کبھی اپنے ہاتھ سے گڑ، پت یا گجک اپنی چھوٹی بہن کو کھلاتی تھی، تو آج وہ اپنے ہاتھ سے بنگال کے لائے ہوئے تازہ سانچی پان اس کے منہ میں رکھتی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ ڈھاکا الگ ہونے کے بعد سلامت نے پان ترک کردیا تھا۔

یہ تو فقط فاصلوں کے دکھ تھے۔۔۔ اب دونوں کس دل سے ایک دوسرے کو رخصت کرتی تھیں، یہ خدا جانتا تھا یا اُن کا دل۔۔۔ پھر دکھوں کا سلسلہ ابھی تھما کہاں تھا۔۔۔ ہاجرہ بی 1983ء میں اپنی پوتی کے بیاہ کے واسطے کراچی آئی۔۔۔ دونوں بچھڑی ہوئی بہنوں کے لیے یہ دُہری خوشی کا موقع تھا، لیکن فرشتہ اَجل تاک میں تھا۔ ہاجرہ بی کے جس بیٹے کی بچی کی شادی ہو رہی تھی، اس کا انتقال ہوگیا۔۔۔ خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ بن گیا۔۔۔ ظاہر ہے شادی موخر ہوئی اور پردیس سے پوتی کی شادی میں شرکت کے لیے آئی ہوئی ہاجرہ کو پوتی کی وداعی دیکھنا تو کیا نصیب ہوتا، اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرنا پڑا۔۔۔ اب ویزہ ان کے مزید قیام کی راہ میں حائل تھا، چناںچہ واپس کلکتہ جانا پڑا۔۔۔

بیٹے کی موت کا وار کیا کم کاری ہوتا ہے۔۔۔ ہاجرہ بی نے بھی دکھوں بھری دنیا سے آنکھیں پھیر لیں۔۔۔ اِدھر کراچی میں ان کی جوڑی دار سلامت بھی اس وقت بستر علالت پر تھی۔ کلکتے سے آئی ہوئی بری خبر انہیں دی جائے، تو کیوں کر۔۔۔ مگر وہ محبت ہی کیا، جو ایک دوسرے کی خبر نہ لے سکے۔۔۔ انہوں نے فضا میں سوگ کی بو بھانپ لی اور گویا ہوئیں ''مجھے پتا ہے، آپا کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔ جلد ہی میں بھی ان سے جا ملوں گی!''

پھر ایک سال میں ہی سلامت جان نے بھی بہن سے دوری کی نصف صدی طویل جدائی کو شکست دے دی۔۔۔14 جولائی 1986ء کو وہ بھی اُس نگری کی طرف ہجرت کرگئی، جہاں ہاجرہ بی اور ان کے درمیان زمینی مسافت تھی اور نہ ہی ویزے اور سرحد کی رکاوٹیں۔۔۔ یہ بٹوارے اور دوریاں دنیا کے تھے، سو دنیا میں رہ گئے۔۔۔ یہاں ان کے آخری مسکن بھی سرحدوں کی قید میں ہیں اور ان کے درمیان اب بھی بھیانک مونہوں والی سرحدیں ہیں۔۔۔ اور22 سو کلومیٹر کی زمینی مسافت حائل ہے، مگر عالم برزخ میں شاید ہاجرہ بی نے بانہیں پھیلا کر اسے اپنی آغوش میں بھینچ لیا ہوگا۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں