کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک نتیجہ خیز ثابت ہوگی

لائن آف کنٹرول پر واقع علاقوں کے مکین کراس فائرنگ کے باعث خوف اوردہشت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں


فرحان احمد خان November 27, 2016
مودی سرکار نے تشدد کا حربہ آزمانے کی کوشش کی اور کشمیری رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ فوٹو : فائل

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں رواں برس آٹھ جولائی کو شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک چار ماہ سے متجاوز ہوچکی ہے ۔ اب کی بار اٹھنے والی اس احتجاجی لہر کامحرک بننے والا نوجوان برھان وانی اب کشمیریوں کا پوسٹر بوائے بن چکا ہے ۔ بھارتی فوج کی جانب سے اس نوجوان کے قتل نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نئی جہت اور توانائی سے ہم کنار کیا ہے ۔

کشمیری گزشتہ ساڑھے چار ماہ سے سڑکوں پر ہیں اور بھارتی فوج کے ساتھ ان کی جھڑپیں جاری ہیں ۔ اس دوران بھارتی فوج نے پیلٹ گنوں کا وحشیانہ استعمال کر کے کئی کشمیریوں کو آنکھوں سے محروم کیا اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے مگر ان کے جذبوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ مودی سرکار کی جانب سے بھرپور طریقے سے پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اس تحریک کو لائن آف کنٹرول کے اُس پار یعنی پاکستان سے فیول کیا جا رہا ہے لیکن ابلاغ کے نسبتاً آزاد ذرائع نے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی ۔ جب بھارتی چیرہ دستیوں کے شکار کٹے پھٹے جسموں کی تصویریں سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی عالمی ذرائع ابلاغ پر پہنچیں تو بھارت کو دنیا میں اپنی ساکھ بری طرح گرتی نظر آئی ۔

عالمی سطح پر سبکی سے بچنے کے لیے بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ابلاغ کے ذرائع کا گھلا گھونٹنے کی کوشش کی اور انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر دی ۔ ' کشمیر ریڈر' نامی اخبار پر پابندی لگا دی ۔ بھارت سرکار کا خیال تھا کہ یہ اخبار پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی ایماء پر تشدد اور قانون شکنی کو ہوا دے رہاہے ۔ اس دوران 18ستمبر کو اوڑی میں بھارتی فوجی مرکز پر ایک بڑا حملہ ہواجس میں مبینہ طور پر چار حملہ آوروں سمیت 23افراد مارے گئے ۔ اس حملے کو بھارتی حکومت نے بھرپور انداز میں کیش کرانے کی کوشش کی اور یہ پروپیگنڈا کیا کہ اس میں سرحد پار کے جنگجو شامل ہیں اور انہیں پاکستان کی حکومت یا حساس اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے قطعی انکار کیا لیکن اس کے باجود بھارت کو کچھ وقت کے لیے کشمیریوں کی تحریک کی جانب سے دنیا کی توجہ ہٹانے کا جواز ضرور ملا ۔

عام کشمیری باشندوں اور شہریوں کے درمیان ہونے والی مسلسل جھڑپوں کے دوران ہی بھارتی حکومت نے ایک وفد مقبوضہ کشمیر بھیجا جس کا مقصد کشمیری حریت پسند زعماء سے ملاقاتیں کر کے اس افراتقری کو ختم کرنا تھا لیکن کشمیری رہنماؤں نے ملاقات سے انکار کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس کے بعد مودی سرکار نے تشدد کا حربہ آزمانے کی کوشش کی اور کشمیری رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مقبول کشمیری حریت لیڈر یاسین ملک کو قید کے دوران غلط انجکشن لگایا گیا جس کی وجہ سے ان کا بازو بری طرح متاثر ہوا ۔ یاسین ملک کی گرفتاری کے بعد عام کشمیریوں میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی اور ان کی رہائی کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا ۔ چارو ناچار جموں کشمیر کی بھارت نواز حکومت کو انہیں کچھ عرصہ بعد رہا کرنا پڑا ۔اس ساری تحریک میں دلچسپی کے کئی پہلو ہیں جس کا مختصر جائزہ ان سطور میں پیش کیا جا رہا ہے:

کشمیری رہنما ہم آواز ہیں
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ احتجاجی تحریک نے ان تمام کشمیری زعماء کو ایک بار پھر اکٹھا کر دیا ہے جن کے بارے میںماضی قریب میں عام خیال تھا کہ وہ اپنے بیچ موجودگہرے تضادات کی وجہ سے ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی حریت کانفرنس کے سربراہ اور بزرگ لیڈر ہونے کی وجہ سے کشمیریوں میں ان کے لیے کافی احترام پایا جاتا ہے ۔ ان کے بارے میں یہ تاثر عام رہا ہے کہ وہ پاکستان نواز ہیں اور کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے پاکستان سے الحاق کے داعی ہیں ۔

دوسری جانب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کشمیری نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں۔ یاسین ملک اور ان کی جماعت کا موقف کشمیر کی مکمل آزادی اور آر پار منقسم اکائیوں(بھارتی مقبوضہ کشمیر،آزادکشمیراور گلگت بلتستان) کی وحدت کا قیام ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حالیہ تحریک میں یہ دونوں زعماء میر واعظ عمر فاروق سمیت ایک ہی لے اور سُر میں بات کر رہے ہیں ۔ وہ بھارت سے آزادی کو پہلی ترجیح قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے وہ سیاسی لیڈر جن پر بھارت نوازی کا لیبل لگتا رہا ہے وہ بھی اس تحریک کو کچلنے کے لیے بروئے کار لائے گئے ظالمانہ ہتھکنڈے دیکھ کر زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

بھارتی انسان دوست حلقوں کا مثبت ردعمل
کشمیر میں مسلسل کرفیو اور پیلٹ گن کے وحشیانہ استعمال سے بھارت کے انسان دوست حلقوں میں بھی گہری تشویش دیکھی گئی ۔ بہت سے دانشوروںنے اپنی تحریروں اور میڈیا ٹاکس میں کھلے لفظوں میں مودی سرکار کی مذمت کی ۔ صحافیوں کے جو وفود دہلی سے سری نگر گئے انہوں نے وہاں کی گلیوں اور ہسپتالوں کا آنکھوں دیکھا حال واپس جا کر لکھا ۔ ایک بھارتی صحافی سنتوش بھارتیہ نے وزیراعظم مودی کے نام خط لکھا جو معروف بھارتی اخبار دی انڈین ایکسپریس سمیت کئی بھارتی و پاکستانی انگریزی اخبارات میں شائع ہوا ۔اس کا عنوان تھا ''پیارے مودی جی! کشمیری ہمارے ساتھ نہیں ہیں'' اس خط میں حکومت کو بتایا گیا کہ کشمیری کس قدر مایوس اور ناراض ہیں ۔

وہ آزادی سے کم کسی بھی چیز پر راضی نہیں ۔ انہیں میڈیا پر بھروسہ نہیں ہے اور ان کا خیال ہے کہ بھارتی چینلز غلط رپورٹنگ کر رہے ہیں ۔ کشمیر میں بھارتی چینل آئی بی این سیون سے وابستہ صحافی نصیراحمد نے اس بنیاد پر ملازمت سے استعفا دے دیا کہ چینل ان سے کشمیر پر بے بنیاد اور من گھڑت رپورٹنگ کا مطالبہ کر رہا ہے ۔

اس کے علاوہ دہلی کی مشہور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی اور اس کی پاداش میں یونین کے رہنماؤں کو گرفتار بھی ہونا پڑا۔ دوسری جانب بہت سے بھارتی چینلز کشمیری آزادی پسندوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم چلاتے رہے ۔ ٹائمز ناؤ کے ایک اینکر ارناب گوسوامی کی بدن بولی کسی صحافی کی بجائے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے کارکن کی طرح محسوس ہوتی ہے ۔ اس قماش کے ٹی وی اینکرز بھارتیوں کے قوم پرستانہ جذبات کو ابھارکر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانے کو ششیں کرتے رہے تاہم انسان دوست حلقوں نے پھر بھی مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستانی عوام کشمیریوں کی حمایت میں پیش پیش
پاکستانی عوام کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا ۔ پاکستان کی حکومت نے سیاسی لیڈروں پر مشتمل وفود بنا کر دنیا بھر میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بظاہر اچھی بات تھی لیکن ان وفود میں شامل اکثر مندوبین ایسے تھے جنہیں مسئلہ کشمیر کی الف ب تک کاعلم نہیں تھا ۔ وہ مختلف چینلز پر انٹرویوز کے دوران ایجنڈے سے مکمل طور پر بے خبر پائے گئے ۔علاوہ ازیں پاکستان اور آزادکشمیر میں حریت کانفرنس کے مختلف دھڑوں نے کسی نہ کسی شکل میں احتجاج جاری رکھا ۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹی وی چینلز پر کشمیریوں کی مظلومیت کو اجاگر کیا گیا گو کہ ملک میں جاری سیاسی تناؤ کے باعث یہ ایشو ذرائع ابلاغ میں ثانوی درجے کی اہمیت ہی لے پایا۔ اخباری صحافت میں اردو اور انگریزی کالم نگاروں نے اس معاملے میں روایتی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ ان کی زیادہ دلچسپی بھی ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں تھی ۔ایک تبدیلی بہر حال دیکھنے میں آئی کہ پاکستان کے وہ حلقے جنہیں عموماً لبرل یا بھارت نواز ہونے کا الزام ہے۔ انہوں نے اب کی بار کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم کی کھل کر مذمت کی اور بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں پر تنقید کی ۔

جنگ بندی لائن کے آس پاس رہنے والوں پر دہشت کے سائے
لائن آف کنٹرول جسے آر پار کے کشمیری سیزفائز یا جنگ بندی لائن کہتے ہیں ، پر اوڑی حملے کے بعد شدید تناؤ کی کیفیت ہے ۔ بھارت نے 29نومبر کو اوڑی حملے کے ردعمل میں پاکستانی کشمیر کے سرحدی علاقے میں جہادیوں کے خلاف کامیاب سرجیکل اسٹرائک کرنے کا دعوی کیا تھاجسے پاکستان نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد آزادکشمیر کے لائن آف کنٹرول پر واقع علاقوں میں ایک بار پھر نوے کی دہائی والا خوف اوردہشت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے ۔ جنگ بندی لائن پر دونوں جانب سے ہونے والی کراس فائرنگ کے باعث کئی کشمیری جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں ۔ افسوناک امر یہ ہے کہ اس دوطرفہ فائرنگ میں کشمیر کے دونوں طرف آباد کشمیری باشندے متاثر ہو رہے ہیں۔

آر پار بنی فوجی چیک پوسٹوں کے نشانے پر رہنے والے لوگ زیرزمین مورچوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور وہ بچے جو نوے کی دہائی کے بعد پیدا ہوئے ،وہ ہر روز کی اس گولہ باری اور دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں نفسیاتی طور پر شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ابھی چند دن قبل پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر ایک بھارتی جاسوس ڈرون مار گرایا اور سمندری حدود میں داخل ہونے والی ایک بھارتی آبدوز کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر بھارتی افواج نے آزادکشمیر کے نکیال،شاردہ ، کوٹلی اور بٹل سیکٹر پر شدید گولہ باری کی جس کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے ۔ مختصر یہ کہ سرحد پر جاری اس کشیدگی نے آس پاس کی کشمیری آبادیوں کو ایک بار پھر انتہائی غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے ۔ یہ سطور لکھتے ہوئے بھی آزادکشمیر کے لائن آف کنٹرول پر واقع علاقوں میں بھارتی گولہ باری کی اطلاعات آ رہی ہیں ۔ فی الوقت یہ کہنا مشکل ہو گا کہ دوطرفہ فائرنگ کایہ سلسلہ کب تھمے گا اور کشمیریوں کی معمول کی زندگی کب شروع ہو گی۔

آزادکشمیر کی حکومت کا کردار اور نئے ممکنہ ایڈونچر کی تیاری
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری احتجاجی لہر کا اثر سیز فائر لائن کے اِس پار شدت سے لیا گیا اورآزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں اُس پار بسنے والے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مسلسل احتجاج کیے گئے اور ریلیاں منعقد ہوئیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر خان نے یورپ کا ایک تفصیلی دورہ کر کے وہاں مقیم کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی کو صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہاں ان کی کچھ ملاقاتیں یورپین ارکان پارلیمنٹ سے بھی ہوئی ہیں جبکہ ریاست نے نئے صدر مسعود خان جو پاکستان کے سابق سفیر بھی رہ چکے ہیں انہوں نے امریکا میں اس کشمیر ایشو کو فلیش کرنے کی سعی کی ہے ۔

دوسری جانب کچھ اقدامات ایسے بھی دیکھنے میں آئے جنہیں بہتر طریقے سے سنبھالا جاسکتا تھا جیسا کہ مظفرآباد ، وادی نیلم اوروادی لیپا میں چند دن قبل کچھ ایسے مظاہرے ہوئے جن میں کالعدم جہادی عناصر سرگرم تھے ۔ ظاہر ہے اس قسم کی سرگرمیوں سے بھارت کو پروپیگنڈے کا موقع ملتا ہے اور مسئلہ کشمیر کی داخلی اور حقیقی تحریک کا رنگ بھی گہنا سکتا ہے ۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کی عالمی سطح پر کوئی الگ شناخت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی قیادت دنیامیں براہ راست اپنا مقدمہ پیش نہیں کر سکتی۔

آزادکشمیر کے ایک سابق صدرکے۔ایچ خورشید نے بہت پہلے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آزادکشمیر کی حکومت کو ریاست کی آئینی اور قانونی حکومت تسلیم کیا جائے تاکہ کشمیری اپنا مقدمہ خود لڑ سکیں لیکن انہیں اس وقت غدار کہہ کر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ۔ چنانچہ اس عاقبت نااندیشی کا نتیجہ یہ ہے کہ عملی طور پر آزادکشمیر میں قائم حکومت اپاہج ہے اور اس کے پاس عالمی فورمز پر براہ راست بات کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔رواں برس بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اٹھنے والی تحریک کے بعد آزادکشمیر سے سیز فائز لائن توڑنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں ۔ اس ممکنہ مہم کے سرخیل ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس اقدام کے ذریعے کشمیر کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں تاہم انہیں ماضی میں ان کے والد سردار عبدالقیوم خان کی جانب سے سیز فائر لائن توڑنے والوں کو غدار اور بیرونی ایجنٹ قرار دیے جانے اور گرفتار کرنے کی وجہ سے آزادی پسند حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے ۔ عتیق خان کے ناقدین کا خیال ہے کہ وہ سیز فائر لائن توڑنے کا یہ ایڈونچر اپنی زوال پذیر سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے کر رہے ہیں ۔ سردار عتیق خان ان دنوں اپنے منصوبے کے سلسلے میں رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی سیاسی پارٹیوں ، جہادی تنظیموں کے کمانڈروں وغیرہ سے ملاقاتیں جاری ہیں تاہم ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ سیز فائر لائن توڑنے کے اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنا پائیں گے یا پھر کسی مصلحت آمیز سرگوشی کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔

مزاحتمی تحریک کا مستقبل کیا ہو گا؟
کشمیر میں اس سے قبل 2010ء میں شدید بھارت مخالف احتجاجی تحریک دیکھنے میں آئی لیکن وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرد پڑ گئی تھی۔اب لوگ اس تحریک کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ منقسم کشمیر کے آر پار اس وقت ایسی قیادت کا فقدان ہے جسے کشمیر کی تمام اکائیوں میں برابر مقبولیت حاصل ہو۔دوسری جانب پاکستان کی غیر واضح کشمیر پالیسی نے کشمیریوں کو شدید مایوس کیا ہے ۔

پاکستان نے عالمی فورمز پر کشمیریوں کے وکیل کا کردار مؤثر طریقے سے نبھانے کی جانب کوئی نئی پیش رفت کرنے کی بجائے ماضی کے بیانات کے تکرار پر ہی اکتفاء کیا ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں بر سر اقتدار کوئی بھی حکومت آزادکشمیر کی حکومت کو ایک خاص حد سے زیادہ بااختیار نہیں دیکھنا چاہتی جس کے نتیجے میں بد دلی اور بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اس سارے پس منظر میں کشمیریوں کی حالیہ مزاحمتی تحریک کو ایک بڑا سنگ میل کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ اس کے نتیجے میں کوئی بڑا اپ سیٹ یا تبدیلی متوقع ہے ، فی الحال آسان نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں