روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کا نیا دور

فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد میانمار کی مظلوم اقلیت پر فوج کی یلغار


آصف زیدی November 27, 2016
روہنگیا مسلمان میانمار کی مغربی ریاست اراکانا یا راکھین میں رہنے والے مسلمانوں کو کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دیکھا جائے تو دنیا کے کئی ممالک میں کوئی نہ کوئی بحران یا مسئلہ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ ملک عالی سطح پر توجہ کر مرکز رہتا ہے۔ کہیں اندرونی اختلافات ہیں تو کہیں سیاسی محاذ آرائیاں، کہیں جنگ کا میدان گرم ہے تو کسی خطے میں قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی نے اسے دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا۔ کسی علاقے میں معاشی بحران ہے تو کچھ علاقے مظلوموں پر ظلم و ستم، انسانیت سوز سلوک اور صاحبان اقتدار کی شے پر ہونے والی غنڈا گردی کی تصویر پیش کررہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر، مقبوضہ فلسطین تو دنیا بھر میں انتہائی حساس موضوع بنے ہوئے ہیں اور ان پر ہر بڑے عالمی پلیٹ فارم پر بات بھی ہوتی ہے لیکن میانمار (سابق برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا عالم یہ ہے کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن ان کے لیے آواز عالمی سطح پر اس طرح نہیں اٹھائی جارہی جس طرح اٹھائی جانی چاہیے۔ روہنگیا مسلمانوں کا سرکاری طور پر قتل عام کیا جارہا ہے لیکن عالمی برادری کو تو چھوڑیں مسلم امہ بھی پنے اپنے مسائل میں اتنی پھنسی ہوئی ہے کہ وہ ان مظلوموں کے لیے صحیح طرح صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرپارہی۔

میانمار میں حالیہ دنوں میں سرکاری فوج نے ظلم و بربریت کی انتہا کردی ہے۔ اب تک موصولہ میڈیا رپورٹس کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے اکثریتی علاقے اراکان میں 150 سے زائد مسلمان قتل کیے جاچکے ہیں، جب کہ درجنوں زخمی کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ظلم و زیادتی کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے درجنوں مکانات اور دیگر املاک کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اراکان کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، انھوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں صورت حال انسانی حقوق کے لحاظ سے بدترین ہے۔ میانمار کی فوج قتل و غارت تو کرہی رہی ہے اس کے ساتھ اس نے میڈیا کو بھی صورت حال کی حقیقی کوریج سے روک دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی جو تصاویر اور وڈیو دکھائی جارہی ہیں ان کو دیکھ کر ہر دردمند انسان کی روح کانپ اٹھی ہے۔

میانمار کی فوج کے مظالم سے بچنے کے لیے بہت سے لوگ میانمار اور بنگلادیش کے درمیان موجود دریا کے کناروں تک پہنچ کر کسی محفوظ مقام کی تلاش میں ہیں، لیکن سرحدی محافظ ان کے آگے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ آئیے یہ بھی دیکھیں کہ یہ روہنگیا مسلمان ہیں کون؟

روہنگیا مسلمان میانمار کی مغربی ریاست اراکانا یا راکھین (Rakhine) میں رہنے والے مسلمانوں کو کہتے ہیں، جو میانمار میں اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں جنھیں کبھی بدھوں کے مظالم سہنے پڑتے ہیں تو کبھی سرکاری فوج کی لشکرکشی کے باعث انھیں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میانمار کے علاوہ روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب، پاکستان، بنگلادیش، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور دیگر ملکوں میں قیام پذیر ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 10 لاکھ کے قریب ہے۔ ان کی زبان ''روہنگیا'' ہے جو بنگالی سے ملتی جلتی ہے، اسی وجہ سے انھیں روہنگیا مسلم کہا جاتا ہے۔ مختلف مورخین اور خود روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤاجداد کا تعلق راکھین اسٹیٹ سے ہی ہے، لیکن میانمار کے مورخین کہتے ہیں کہ روہنگیا مسلمان کسی اور جگہ سے ہجرت کرکے یہاں آئے۔

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میانمار کے حکم رانوں اور وہاں رہنے والی دیگر قومیتوں نے روہنگیا مسلمانوں کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان سے نفرت کا اظہار مختلف مواقع پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کرکے کیا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو روہنگیا مسلمان اراکان میں 16 ویں صدی سے آباد ہیں۔ ان کی کئی نسلیں یہاں پلی بڑھی ہیں لیکن تاحال ان کو حقوق ملے نہ شناخت دی گئی اور نہ ہی انھیں اپنایا گیا۔ ان ہی اسی ظالمانہ رویوں کا نتیجہ ہے کہ آج روہنگیا مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے اور پورا میانمار اس طرح چپ ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔

اس ساری صورت حال میں سب سے قابل مذمت کردار ژنگ سان سوچی کا رہا ہے۔ جب وہ خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی تھیں تو ہر انٹرویو میں اور اپنے ہر خطاب میں وہ انسانی حقوق کی پاس داری، ظلم و ستم کے خاتمے، مظلوموں کو ان کے حقوق دلانے کی بڑی بڑی باتیں کرتی تھیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے بہیمانہ ظلم و ستم پر ژنگ سان سوچی نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ اب لگتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر وہ انسانی حقوق کی پاس داری اور مظلوموں سے انصاف کا سبق بھول گئی ہیں یا دہرانا نہیں چاہتیں۔

1946 میں اراکان کے مسلم رہنماؤں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کرکے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے کچھ علاقوں کو ملاکر الگ ریاست بنائی جائے، تاہم وہاں کے حکم رانوں نے روہنگیا مسلمانوں کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد روہنگیا مسلمانوں نے حکم رانوں کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور مختلف مواقع پر اپنی الگ ریاست کا مطالبہ دہرایا، لیکن اس کے جواب میں میانمار کی حکومتوں نے جبرو تشدد کے ذریعے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی اور سیکڑوں روہنگیا مسلمان مختلف اوقات میں ہلاک کردیے گئے، سیکڑوں زخمی کیے گئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیوںکہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ملکوں کو شاید روہنگیا مسلمانوں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ اس سال اس وقت ہوا جب 9 اکتوبر 2016 کو 300 کے قریب مسلح حملہ آوروں نے میانمار کے سرحدی محافظوں پر حملہ کرکے 9 فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ سیکیوریٹی حکام کے مطابق حملہ آوروں نے بنگلادیش سے ملحق سرحدی علاقے میں کارروائی کی، فوجیوں کے خلاف بارودی مواد کے علاوہ چاقو، چھریوں اور دیسی ساختہ بموں کا استعمال کیا گیا۔ 2 دن بعد 11 اکتوبر کو ایسی ہی ایک کارروائی میں 4 فوجی نشانہ بنے۔ اراکان ریاست کے حکم رانوں نے فوجیوں پر حملوں کا الزام روہنگیا مسلمانوں پر عائد کردیا، جس کے بعد روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم اور زیادتیوں کے سلسلے کو مزید وسیع کردیا گیا ہے۔

میانمار کی حکومت نے روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن (Rohingya Solidarity Organization) کو فوجیوں کی ہلاکت ذمے دار ٹھہرایا لیکن بربریت کا نشانہ تمام روہنگیا مسلمانوں کو بنایا۔ 17 اکتوبر کو فیتھ موومنٹ آف اراکان (Faith Movement Arakan) نے مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر میانمار کی فوج پر حملوں کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ کرکے ان کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی۔ نومبر میں میانمار کی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں جن میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ سیکیوریٹی حکام کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے افراد فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔ تاہم یہ دعویٰ اس لیے بے بنیاد نظر آتا ہے کیوںکہ مارے جانے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 250 سے زائد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جن پر فورسز پر حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

اراکان میں فوج کے تشدد اور روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر بالآخر امریکا اور اقوام متحدہ کو ہوش آہی گیا اور چند دن قبل امریکی محکمۂ خارجہ نے صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اصل حقائق کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں جو اطلاعات آرہی ہیں وہ اچھی نہیں حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے میانمار میں امریکی سفیر نے حکومتی اہل کاروں سے ملاقات کی اور صورت حال کو بہتر کرنے کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے علاقے میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ہونے والی خوںریزی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کوفی عنان کا کہنا ہے کہ حالات تشویش ناک ہیں اور اس سے میانمار کم زور ہورہا ہے جب کہ لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہے۔

اسلامی ملکوں کو بھی روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار کا بھرپور اور فوری نوٹس لینا چاہیے، گو کہ تمام اسلامی ملک اپنے اپنے مسائل اور بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس خطے کی بات ضرور کریں اور اس کے لیے آواز لازمی اٹھائیں جس کے باسی صرف مسلمان ہونے کے ''جرم'' میں حکومتی مظالم کا شکار ہیں۔

اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر اقدامات کریں تو میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم اور زیادتیوں کا سلسلہ روک سکتی ہے ورنہ روہنگیا مسلمانوں کا ارزاں خون بہتا ہی رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں