چھوٹی چھوٹی امیدیں بڑے بڑے لوگ
ترقیاتی فنڈز سے لے کر پینے کے پانی تک سے محروم رکھا گیا، سرکاری ملازمتوں کے دروازے سختی سے بند کردیے گئے ہیں
1963 وکیل ہائی کورٹ 1968 وکیل سپریم کورٹ 1980 جج سندھ ہائی کورٹ، دس سال بعد چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، مئی 1992 جج سپریم کورٹ، یکم جولائی 1999 تا 26 جنوری 2000 چیف جسٹس آف پاکستان، پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار، چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی قربانی، گھر پہ نظر بندی، 2008 مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے مشترکہ صدارتی امیدوار قابل تعظیم ترین عہدوں اور اصولوں کی توقیر بڑھانے والے عزت مآب جسٹس سعید الزماں صدیقی جیسے انمول انسانوں کے اصولوں اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ملک اور قومیں ان کی عمر کو خاطر میں نہیں لاتے۔
البتہ صحت ضروری ہے بلکہ ایسے بلند پایہ انسان اگر صحت اچھی نہ ہو تو خود ہی کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتے، چنانچہ ہم عام لوگوں کو امید تھی کہ جناب جسٹس صاحب ہماری بد قسمتی کہ جن کے لیے چلنا پھرنا محال، سیڑھیاں چڑھنا ناممکن اور بنا کسی تعطل کے کسی عہدے یہاں تک کہ گورنر جیسے نمائشی عہدے کے بے معنی تقاضے نبھانا بھی مشکل لگتا ہے وہ اس عہدے کی پیشکش قبول نہیں فرمائیںگے مگر ہم عام لوگوں کی دوسری ان گنت امیدوں کی مانند یہ امید بھی خاک میں ملی جب ہم نے جناب عزت مآب جسٹس صاحب کو فرط مسرت کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرتے اور بعد ازاں گورنر ہاؤس کی جگہ اسپتال پہنچتے دیکھا۔
ادھر جسٹس صاحب سے پہلے کے گورنر محترم عشرت العباد سے بھی ہم جیسے عام لوگوں نے عام سی چھوٹی چھوٹی سی امیدیں لگائے رکھیں۔ مثلاً جب 14 سال پہلے گورنر سندھ بنے تو ہمیں کچھ گمان سا ہوا کہ متوسط طبقے اور 98 فی صد غریب عوام کی نمائندہ پارٹی کے نمائندے کی حیثیت سے آپ جناب نو آبادیاتی دور کے گورنر ہاؤس اور فرعونی وی آئی پی پروٹوکول وغیرہ سے انکار فرمادیںگے اور عام انسانوں کے نمائندے کے طور پر اس تمام تام جھام سے پرہیزکرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیںگے۔ تاہم ہماری یہ امید بھی حسرت ناتمام ہی ثابت ہوئی جب متوسط طبقے کے آپ جناب وی آئی پی پروٹوکول کی پوری آب و تاب کے ساتھ شاہی گورنر ہاؤس میں جلوہ افروز رہے۔
ادھر 2008 کے بعد جس طرح کراچی کو لوٹا گیا۔ ترقیاتی فنڈز سے لے کر پینے کے پانی تک سے محروم رکھا گیا ، سرکاری ملازمتوں کے دروازے سختی سے بند کردیے گئے ہیں جس طرح کراچی کو کچرا کنڈی اور کھنڈر بنا دیا گیا جس طرح کراچی کو دنیا کا چھٹا بد ترین ناقابل رہائش شہر بنادیاگیا۔ اس سب پہ بارہا ہمیں موہوم سے امید ہوئی کہ عشرت العباد آواز اٹھائیںگے بلکہ احتجاجاً اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیںگے بجائے اپنی نظروں اور عہدے کے سامنے کراچی کی تباہی دیکھنے کے مگر جناب وہ امید ہی کیا جو پوری ہوجائے عشرت العباد مثالی مستقل مزاجی کے ساتھ گورنر ہاؤس میں جگمگاتے رہے اور آخرکو دبئی سدھارے۔
لیکن آپ داد دیجیے کہ ہم غیر معمولی لوگوں سے معمولی امیدیں وابستہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ مثلاً شہباز شریف جن کی ایڈمنسٹریشن صلاحیتوں کی چہار جانب دھوم ہے ان سے ہم عام فانی انسان امید لگا بیٹھے کہ کیونکہ مارڈرن ایڈمنسٹریشن میں ڈیلیگیشن آف اتھارٹی یعنی اختیارات کی تقسیم کی بنیادی اہمیت ہے، تو جناب 2008 میں تیسری بار کمال مہربانی سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمانے کے فوراً ہی بعد صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروائیں گے اور بھرپور حکومتی اختیارات اور مالی خود مختاری کی حامل شہری حکومتیں قائم فرمائیں گے جیسی کہ دنیا کے جمہوری ممالک میں پائی جاتی ہیں مگر جناب غیر معمولی اذہان قدرت نے معمولی سی امیدوں پہ پورا اترنے کو تھوڑی ہی بنائے ہیں۔
کوئی ادھر 2014کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے ہنگامے میں وزیراعظم نے وزرائے کرام کو ہدایت فرمائی کہ وہ باقاعدگی سے اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی اورکامیابیوں پہ باقاعدہ پریزنٹیشن دیا کریںگے جس پہ سعد رفیق نے ریلوے کے بارے میں باقاعدہ پریزنٹیشن دے کر ہماری امیدوں کوکہاں سے کہاں پہنچادیا اور پھر حسب قومی روایت عام لوگوں کی عام سی امیدوں کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے دوسرے رہنماؤں سے ہم عام لوگوں کی امیدیں تھیں کہ وہ نت نئے آئیڈیاز اور ان کے خالق لوگوں کی ایک فعال ٹیم بناکر ملک بھر میں انتہائی تخلیقی منصوبوں کے ذریعے معاشی، سماجی، ماحولیاتی اور تعلیمی میدانوں میں انقلابی کامیابیوں کے ذریعے اندرون و بیرون ملک قابل تقلید مثالیں قائم فرمائیں گے تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
2013 کے انتخاب میں جب کراچی میں ووٹوں کی روایتی صفائی کے باوجود پی ٹی آئی کو لاکھوں ووٹ پڑگئے تو ہم عام لوگوں کو کہاں سے کہاں امید پیدا ہوئی کہ عمران خان کراچی کے مسائل، تباہی اور لوگوں کے ساتھ صوبائی حکومت کے حقارت آمیز سلوک پر آواز اٹھانا گوارا فرمائیںگے مگر آپ جناب نے اپنی توجہ ایم کیو ایم اور اس کے حامیوں کی ہجو پہ ہی مبذول رکھنا زیادہ مناسب سمجھا، بس جناب امید کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ مثلاً جنرل پرویز مشرف نے جب بصد مجبوری حکومت کا بارگراں اپنے جری شانوں پہ اٹھا ڈالا تو ہم عام انسانوں کو اپنے بے باک و بے خوف کمانڈو کمانڈر سی ای او اور بعد ازاں صدر محترم سے امیدیں وابستہ ہوئیں کہ وہ ملک میں نئے صوبے، نئے ڈیمز بنائیں گے۔
آپ جناب نے ق لیگ بنادی، ہمیں امید ہوئی کہ جناب ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریںگے آپ نے این آر اوکردیا آپ پچھلے چند دنوں کی ہی مثال لیجیے ہندوستان نے ہمارے سات فوجی اور چار بچے شہیدکردیے، چنانچہ ہمیں اپنی ہر دلعزیز حکومت سے ہندوستان کے ضمن میں قرار واقعی رد عمل کی امید پیدا ہوگئی اور پھر ہوا یہ کہ سرتاج عزیز نے بھارت میں کانفرنس میں شرکت کا عزم مصمم ظاہرکیا تو ساتھ ہی ہماری جونیئر ہاکی ٹیم کو بھارت جانے کا حکومتی این او سی بھی مل گیا،کیا بتائیں کہ کیسے کیسے بڑے بڑے لوگوں سے کیا کیا امیدیں ہم نے نہیں لگائی بس سمجھ میں نہیں آتا کہ کبھی پوری کیوں نہیں ہوپاتیں، ارے! کہیں ایسا تو نہیں کہ پچھلے 70 سال سے ہمارے ہاں بڑے آدمی ہی پیدا ہونا بند ہوگئے؟