ظالم دسمبر پھر آنے کو ہے
نجانے جب دسمبر کا مہینہ قریب آتا ہے تو میرے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں
KARACHI:
نجانے جب دسمبر کا مہینہ قریب آتا ہے تو میرے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں، بھوک ختم ہو جاتی ہے،ٹیلی وژن دیکھنے کو دل نہیں کرتا،کسی موضوع پر لکھنے کو دل نہیں چاہتا، کسی بھی طور دن بھر اطمینان نہیں ملتا ،میرے دفتر میں دیوار پر لگا سولہ دسمبر2014 اور پھر سولہ دسمبر2015 کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والا سپلیمنٹ مجھے اس دن کی طرف کھینچ لے جاتا ہے جب اس شہر بے مثال پر ایک قیامت برپا ہوئی تھی ہمارا یقین ہے کہ قیامت نے آنا ہے اور سب کچھ فنا ہو جائے گا مگر شہر پشاور اور خیبر پختون خوا کے عوام نے گذشتہ بارہ برسوں میں جو قیامت خیز مناظر دیکھے ہیں شاید ہی وہ اس قیامت سے کم ہوں؟ میں ایک ٹیلی وژن کے لیے 156 بم دھماکوں کی براہ راست کوریج کرنے کے بعد جس قدر بے حس ہو گیا تھا۔
اس سے زیادہ کا کسی طور یقین نہ تھا مگر سولہ دسمبر کے اس ایک واقعہ نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔نجانے کب تک یہ دن یونہی رلاتا رہے گا مجھے کچھ معلوم نہیں کیونکہ ایک ایک شہید کا چہرہ ہر دم میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔میں نے بہت کوشش کی کہ ہزاروں شہیدوں کی لاشیں اٹھانے والے کندھے یہ ظلم بھی برداشت کر جائیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہو پا رہا ۔الفاظ ختم ہو جاتے ہیں اور سوال اس قدر ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے!جواب دینے والوں کے پاس کسی سوال کا جواب بھی تو نہیں!کیا آپ کو بھی یاد ہے کہ اس ظالم دسمبر نے ہمیں ہمارے سنہرے مستقبل سے کس قدر دور کر دیا تھا؟سولہ دسمبر کا وہ خون آشام دن جب میرے لعل مجھ سے چھین لیے گئے۔
آپ کو یقیناً میری بہنوں کے وہ بین یاد ہوں گے جو انھوں نے اپنے حسین ترین بچوں کے بچھڑ جانے پرکیے۔آپ وہ دن کبھی نہیں بھول سکتے جب صبح سویرے ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ لے کر مستقبل میں قوم کی قسمت سنوارنے کا عزم لیے عظیم ماؤں کے 122 جگر گوشے آرمی پبلک اسکول گئے اور پھر کبھی واپس نہ لوٹے ۔وہ بہت خوش ہوں گے انھیں اپنی مائیں یاد آ رہی ہوں گی جنہوں نے خود انھیں تیار کر کے اسکول بھیجا تھا ایک ایسے اسکول جو باقی اسکولوں سے کہیں زیادہ محفوظ تھا۔وہ سب ہم میں موجود ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں۔ جب رب کائنات نے کہہ دیا تو پھر اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ لہٰذا اے پی ایس کے شہید میرے ارد گرد ہیں مجھے قوی یقین ہے کہ سب میری آنکھوں سے گرنے والے آنسو وہ دیکھ رہے ہوں گے کیونکہ اور کوئی نہیں تو میں ضرور شرمندہ ہوں کہ ہم ان کی عظیم قربانیوں کو وہ عزت و افتخار نہ دے سکے۔
جس کی وہ متقاضی تھیں سب سیاست کی نذر ہو گیا،وہ آہیں،وہ سسکیاں، وہ غم و الم کی داستانیں سب ہوا ہو گئیں۔ میں ان شہیدوں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ ان کا ایک ایک نام میرے دل و دماغ پر ثبت ہے، مجھے آرمی پبلک اسکول کے عملے کے وہ قابل فخر 22 ارکان اور پاک فوج کے تین اہل کار بھی یاد ہیں جو ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے کام آئے۔ آئیے ان سب کو یاد کرتے ہیں۔شہید طلباء کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ننگیال طارق، فہد احمد، باقر علی خان، حیات اللہ، رضوان سریر خان، محمد واصف علی خٹک، سیف اللہ درانی، محمد فرقان حیدر، مبین اسلم قریشی، صاحبزادہ عمر خان، حسنین شریف خان، ارباب صدیق اللہ خان، محمد اویس ناصر، محمد حارث، سید مجاہد حسین شاہ، محمد معظم علی، حامد سیف، تنویر حسین، فضل الرحمان، وہاب الدین، محمد حسن خان، شہود عالم، بلال علی، فہد حسین، ہمایون اقبال، محمد عزیر خان، محمد حماد عزیز، محمد طیب فواد، شیر نواز، ضیا ء الاسلام، محمد سلمان،
زرغم مظہر، اویس احمد، یاسر اللہ، عمیر ارشد، ذیشان شفیق، گل شیر، احمد مجتبیٰ، اسد عزیز، ارحم خان، محمد عزیرعلی، سید حسنین علی شاہ، حامد علی خان، شہزاد اعجاز، باسط علی سردار، حارث نواز، محمد خوشنود زیب، محمد محسن مرتضیٰ، شاہ زیب، اسامہ بن طارق، عدنان ارشد خان، محمد شہیر خان، عمار اقبال، عبداللہ غنی خان، حمزہ کامران، احمد علی شاہ، محمد عمار خان، حمزہ علی اکبر، احمد الٰہی، سید آفاق احمد، شہباز علی، ابرار حسین، ماہیر رضوان غزالی، شاہ فہد، عدنان حسین، محمد شفقت، عامش سلمان، علی عباس، عزیر احمد، ندیم حسین، آزان تریالے، عادل شہزاد، سید ذوالقرنین، مزمل عمر صدیقی، محمد وقار، محمد علی خان، شموئیل طارق، محمد علی رحمان، نور اللہ درانی، سہیل اسلم، ذیشان علی، عاطف الرحمان، ایم سہیل سردار، سعد الرحمان شاہ، محمد علیان ، محمد عبداللہ ظفر، ملک تیمور، بہرام احمد خان، محمد ذیشان آفریدی، ذیشان احمد، محمد طاہر، محمد اظہر نصیر، فرحان جلال، عثمان صادق، محمد عمر حیات، شایان ناصر، سید عبداللہ شاہ ثانی، حسن زیب، حزیفہ آفتاب، اسامہ ظفر، شیر شاہ، ملک اسامہ طاہر اعوان، مبین شاہ آفریدی، حیدر امین، رفیق رضا بنگش، محمد شائبان، محمد یاسین، اسفند خان، محمد داؤد، عمران علی، شفیق الرحمان،
مظہر علی اعظم، یاسر اقبال، ایم ابرار زاہد، محمد زین اقبال، ایمان خان، محمد عمران، عبدالاعظم آفریدی، اشفاق امین، وسیم اقبال، ثاقب غنی، اس واقعہ میں ایک طالبہ بھی شہادت کے درجہ پر فائز ہوئی جن کا نام خولہ بی بی ہے، ہے میں نے اس لیے استعمال کیا کہ یہ سب تو شہید ہیں اور ہم میں موجود ہیں اس لیے یہ کہنا کہ شہیدوں کے نام یہ تھے نہیں بلکہ ہیں۔ اس موقع پر میں انھیں بھی نہیں بھول سکتا جو اسکول کے عملے میں شریک تھے خاص طور پر اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی بہادری اب بھی دلوں کو گرما دیتی ہے ۔ ان کے علاوہ صائمہ زرین طارق،شہناز نعیم،نواب علی، محمد سعید، سحر افشاں، حفصہ خوش، بینش عمر، حاجرہ شریف، فرحت بی بی، صوفیہ حجاب، سعدیہ گل خٹک، محمد شفیق، پرویز اختر، مدثر خان، ظاہر شاہ، محمد حسین، محمد بلال، سجاد علی، احسان اللہ، اکبر زمان اورمحمد سمیع نے جام شہادت نوش کیا جب کہ پاک فوج کے تین جوان لانس نائیک محمد الطاف، نائیک ندیم الرحمان انجم اورسپاہی نوید اقبال دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
تین شدید زخمی طلباء کو بیرون ملک علاج کے لیے بھیجا گیا اور تینوں اب صحت یاب ہیں دو تو ابھی برطانیہ میں ہی ہیں جب کہ بیسیوں بچوں کا علاج پاکستان میں ہوا، میں کوشش کروں گا کہ اگلے کالم میں ان سب سے متعلق تفصیل آپ کے سامنے رکھوں ۔جو بچے برطانیہ میں مقیم ہیں ان کا حوصلہ کیسا ہے اور جن بچوں کا علاج معالجہ پاکستان میں ہوا وہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں یا نہیں،ان کے والدین کیا کہتے ہیں اور ان کے جگر گوشوں کی شہادت ملک وقوم کے کتنا کام آئی ۔کیا جوڈیشل کمیشن بنا؟ کتنے مجرموں کو سزا ہوئی ؟جس طرح پہلے میں نے عرض کیا کہ دسمبر کا مہینہ کم از کم میرے لیے بڑا مشکل ہوا کرتا ہے اور ان شہیدوں کے نام لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ صرف ان ناموں پر ہی غور کریں تو کس قدر خوب صورت نام ہیں کہ لبوں سے اترتے نہیں تو صرف اندازہ لگائیے کہ حقیقت میں یہ شہید کس قدر خوبصورت ہوں گے؟ اگلے دو تین کالموں میں انھی کا تذکرہ ہو گا کہ ان عظیم شہیدوں کی خوشبو میرے ارد گرد کی فضاؤں کو معطر کیے ہوئے ہے۔