میرے ذہن میں مختلف خیالات تھے اور چونکہ اس وقت نظریں عالمی سیاست پر جمی ہوئی تھیں تو میں اِس اہم مسئلے کو باریکی سے دیکھ ہی نہیں سکا تھا۔ میں جیسے ہی اپنے دفتر پہنچا تو میز پر سات آٹھ اخبارات پڑے ہوئے تھے۔ عادت کے مطابق میں نے اخبارات کھنگالنے شروع کئے تو کل کے تمام ہی اخبارات کے سرورق پر یہ اہم خبر موجود تھی کہ وفاقی کابینہ نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 150 فیصد کا اضافہ کردیا۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ 44,630 روپے سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ، چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 2 لاکھ پانچ ہزار اور وفاقی وزراء کی تنخواہ 2 لاکھ روپے کردی گئی۔
اب تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اس اضافے سے سرکاری خزانے کو 40 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں آخری اضافہ 2004ء میں ہوا تھا۔ خبر پڑھ کر غصہ تو شدید آیا لیکن چونکہ ہمارے لکھے پر اگلے دن پکوڑے بکتے ہیں لہذا خون کے گھونٹ پی گیا۔ خدا کی پناہ! یہ وہی ملک ہے جس کا مجموعی قرضہ 22 کھرب روپے سکہ رائج الوقت سے بڑھ چکا ہے اور جیسے جیسے روپے کی قدر میں کمی ہوگی یہ قرض مزید بڑھتا چلا جائے گا۔
یہ وہی ملک ہے کہ جس کے غریب کو صاف پانی میسر نہیں، صرف لاہور میں ہی چند سال کا پانی رہ گیا ہے اور اس کے بعد نیچے ریت ہے۔ یہ وہی ملک ہے کہ جہاں اگر کسی غریب کے کیس کی باری آجائے اور عدالت عالیہ اس کو بے گناہ ثابت کردے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس کو انصاف فراہم کیا گیا ہے وہ تو دو سال
قبل ہی پھانسی کے پھندے کو چوم چکا ہے۔ اس ملک کی اسمبلی میں کتنے پڑھے لکھے اراکین پارلیمنٹ موجود ہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں سیاست اصل میں کاروبار ہے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک عام کونسلر سے لیکر ایم این اے تک کے تمام ہی الیکشن کو مقامی بااثر شخصیات اسپانسر کرتی ہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ 'سیاسی سرمایہ کاری' کی واپسی کیسے ہوتی ہے؟ ایک مرتبہ اپنے علاقوں میں ہونے والے 'ترقیاتی کاموں' کا جائزہ لے لیجیئے، یہ دیکھ لیں کہ وہ کونسی کمپنیاں اور ٹھیکے دار ہیں جو کہ کام کروا رہے ہیں اور انہوں نے الیکشن میں کس کو سپورٹ کیا تھا۔ کتنے ایسے اراکین پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے اپنے گوشوارے جمع کروائے ہیں؟ کتنے اراکین پارلیمنٹ نے اپنے اثاثوں کی تفصیل الیکشن کمیشن کو جمع کروائی ہے؟
اِن 'لاء میکرز' کی ذہنی استعداد کا اندازہ تو اس بات سے لگائیں کہ جب میں نے ایک رکن اسمبلی سے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں کل کتنی یونین کونسل ہیں؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اس کام کیلئے ایک کمیٹی بنادی ہے جو میرے حلقے کے مسائل بروقت مجھ تک لائے گی۔ یعنی سوال میرا کچھ اور تھا اور جواب اُس نے کچھ اور دیا تھا اور اس کے بعد جب کمرے سے نکلنے لگا تو میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے مجھ سے کہا کہ سوال تو آسان کیا کرو یار۔۔! میں تو اس کا چہرہ ہی تکتا رہ گیا کہ اگر میں صحافی نہ ہوتا تو اس جواب میں کونسا پیغام پوشیدہ تھا۔ وہ موصوف اپنے ذاتی گارڈز کے جھرمٹ میں اپنے اُس دوست کی عالی شان کوٹھی سے نکلے اور گاڑیوں کے قافلے میں روانہ ہو گئے۔ میں چونکہ اُسی حلقے کا رہائشی ہوں تو میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں کہ مسائل میں کمی نہیں اضافہ ہی ہوا ہے۔
مسائل میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ کیوںکہ ایم این ایز کے پاس مناسب فنڈز موجود نہیں ہیں؟ اچھا جی، تو فنڈز کس نے دینے ہیں؟ جی فنڈز تو حکومت نے دینے ہیں؟ حکومت کس کی ہے؟ دیکھیں بھائی، ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ہمیں منظوری کروانی پڑتی ہے اور اُس کے بعد ہی ہم کچھ کرسکتے ہیں۔ چلیں مان لیا، تو آپ جب پروپوزل بناتے ہیں تو کیا وہ جامع ہوتا ہے؟ اس کی فیزیبلٹی رپورٹ تیار کی جاتی ہے؟ اس کا ڈھانچہ بنایا جاتا ہے؟ جی سب کچھ ہوتا ہے؟ اچھا تو حکومت کی جانب سے کیا جواب ہوتا ہے؟ جی حکومت کی جانب سے یہی جواب آتا ہے کہ فنڈز کی کمی ہے اور ملک میں قومی سطح کے اہم پراجیکٹس جاری ہیں۔ یہ وہ مکالمہ تھا جو میں نے ایک 'حاضر سروس' ایم این اے سے اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں کیا تھا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نہایت واضح تھے اور میرا دل کر رہا تھا کہ اپنے ہاتھ میں موجود کافی کے کپ کے ساتھ وہی کروں جو اس موقع پر کرنا چاہیئے لیکن دوسری ٹیبل پر اس کے لحیم و شحیم بڑی بڑی مونچھوں والے تین گارڈز دیکھ کر خاموش ہوگیا۔
اب چونکہ فنڈز کم ہیں لہذا ملک میں تعلیم کی صورتحال میں بہتری نہیں ہوسکتی ہے، فنڈز کم ہیں لہذا ملک میں صحت کی، اسپتالوں کی، ڈسپنسریز کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں ہوسکتی ہے، فنڈز کم ہیں تو صاف پانی کے پراجیکٹس نہیں چلائے جاسکتے ہیں، فنڈز کم ہیں تو غربیوں کو سستی رہائش نہیں دی جاسکتی ہے، فنڈز کم ہیں تو لہذا بڑے شہروں کے علاوہ ملک بھر کا انفراسٹرکچر اپ گریڈ نہیں ہوسکتا ہے۔
فنڈز کی کمی کی وجہ سے بہت سے اہم کام نہیں ہوسکتے ہیں لیکن فنڈز اتنے ضرور ہیں کہ 'غریب و مسکین' اراکین پارلیمنٹ کے گھروں کے چولہے جلانے کیلئے اُن کی تنخواہوں میں 150 فیصد تک کا اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی معمولی سی لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے کنالوں پر محیط جھونپڑیوں میں بیرون ملک سے منگوائی جانے والی خاص سستی سی کافی پیتے ہوئے یہ سوچیں کہ ملک میں مسائل کا انبار کیوں ہے؟ وہ اپنے ذاتی لیکن انتہائی سستے سے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی دیکھ بھال کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو بیرون ملک میں سستی تعلیم دلواسکیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کو لندن، پیرس، نیویارک، دبئی کے سستے ہوٹلز میں رہائش دلوائیں، اب جب فنڈز میں کمی ہے اور ملک مقروض ہے تو پھر بس یہی ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔