کچھ بدلنے والا نہیں
باوجود کہ دولت، عہدے، رتبے اور مرتبے، جھوٹ، سراب اور سائے ہیں پھر بھی انسان ان ہی چیزوں کے لیے ذلیل وخوار ہوتا رہتاہے۔
ہم سب جس دولت، عہدوں، رتبوں، مرتبوں، کے لیے ساری زندگی مارے مارے پھرتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں دھوکا دیتے ہیں خوشامد اور چاپلو سی کرتے ہیں، کرپشن، لوٹ مار اور فراڈ کرتے ہیں اپنے ہی جیسے انسانوں کو روندتے اورکچلتے ہیں انھیں ذلیل وخوارکرتے ہیں۔
آئیں ان چیزوں کی اصل حقیقت اور حیثیت کو جاننے کی کو شش کرتے ہیں اور ساتھ ہی میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے وہ سیاسی قائدین، حکمران، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار جو 80 سال یا اس سے زائد عمر کو پہنچ چکے ہیں ان سے کسی نہ کسی طرح ملاقات کر کے ان کے دل کابھی حال احوال ضرور کرنے کی کوشش کیجیے گا۔ تاکہ آپ کو بھی دولت، عہدوں، رتبوں، مرتبوں کی اصل حقیقت اور حیثیت سے ذاتی آگاہی ہوسکے۔ دو مرتبہ دنیا کی سپر پاورکا پرکشش ترین صدر رہنے والے بل کلنٹن نے ایک مرتبہ کہاتھا کہ ''اگر آج میرے ہاتھ میں ہوکہ میں تیس سال کا ہو جاؤں اور بدلے میں مجھے امریکا کی صدارت کی قربانی دینی پڑے تو میں اس سودے کے لیے راضی ہوں۔''
اسی دنیا اور اس کی چیزوں کے بارے میں حضرت فضیل بن عیاض ؒ اورخلیفہ ہارون الرشید کے درمیان مکالمہ ہوا تھا، خلیفہ ہارون الرشید حضرت فضیل ؒ کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے لے کر حاضر ہوا تھا تو فضیل بن عیاض ؒ نے پوچھا خلیفہ المومنین اگر آپ صحرا میں پیاسے ہوں اور دم نکلنے کو ہو تو پانی کے چند قطروں کے عو ض کیا دے سکتے ہیں ہارون الرشید نے ترنت جواب دیا ''اپنی آدھی سلطنت'' ۔ فضیل نے دوبارہ پوچھا ''اگر پانی کے یہ قطرے اندر جاکر اودھم مچا دیں اور پیشاب باہر نہ نکلے تو اس تکلیف سے بچنے کے لیے کیا کرگزریں گے'' ہارون الرشید نے جواب دیا ''اپنی باقی ماندہ سلطنت'' فضیل بن عیاض ؒ نے مسکراتے ہوئے کہا ''خلیفہ المسلمین'' آپ مجھے بھی اپنی اس سلطنت میں سے کیا دے سکتے ہیں۔
جس کی قیمت پانی کے چند قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔'' سکندراعظم نے ساری معلوم دنیا فتح کر ڈالی مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا ''میں دنیا کو فتح کرناچاہتا تھا مگر موت نے مجھ کو فتح کرلیا افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے'' نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے ''مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں، میں دو چیزوں کا بھوکا تھا ایک حکومت دوسری محبت، حکومت مجھے ملی مگر وہ میرا ساتھ نہ دے سکی محبت کو میں نے بہت تلاش کیا مگر میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔
انسان کی زندگی اگر یہ ہی ہے جو مجھ کوملی تو یقینا انسانی زندگی ایک بے معنی چیز ہے کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں'' عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک کانام الیوسی ہے جس نے سترہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے موضوعات پر بحث کی جن پر میکیاولی بھی لکھ چکا تھا وہ لکھتا ہے ''جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سر زمین فتح کرنے پر مبارکبا د دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ نہ بولا بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا جب سلطان نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے۔
آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں تو وہ بولا جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا ''بخشی''۔ ابن ابی مہلی نے کہا بولو کیا بولتے ہو ''کھیل کی بازی میں'' فقیر بولا کوئی دو سوافراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آ جائے موت بھی ہوسکتی ہے۔اور یہ سب ایک گیند کی خاطر اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کچھ بھی نہیں سوائے پریشانی کے اور تکلیف کے اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑکردیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اورلیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب ابن ابی مہلی نے اس کی تمثیل سنی تو وہ فوراً اس کے معنی بھانپ گیا اور زارو قطار رونے لگا ''ہم دین پھیلانے کی نیت سے نکلے تھے'' وہ بولا مگر حیف! ہم توگمراہی میں جا پڑے۔
عظیم مسلمان سیاسی فلسفی ابو نصر الفارابی اپنی کتاب ''مدنیتہً الفاضلہ'' جس کا شمار عظیم ترین کتاب میں ہوتا ہے میں اس نے اس بات کا تعین کرنے کی کو شش کی ہے کہ اچھی حکومت کیسی ہوتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ کسی حکومت کو اچھا صرف تب ہی قراردیا جا سکتا ہے کہ اگر وہ علم، کردار اور سلجھاؤ کی ان اقسام پر مبنی ہو جو کہ معاشرے کو حقیقی خوشی سے ہمکنار کرتی ہیں طریقوں کو ان اہداف کے مطابق جانچا جانا چاہیے کہ جن کے حصول کے لیے انھیں بروئے کار لایا جاتا ہے اور بہترین اہداف وہ ہوتے ہیں جو روز مرہ زندگی کی حقیر حقیقتوں سے ماورا ہوتے ہیں اس کے برعکس بری حکومتیں انسانی فطرت کے ناقص خصائل کی عکاس ہوتی ہیں۔ الفارابی نے اس قسم کی چھ حکومتیں گنوائی ہیں جنہیں ہزار سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق پہلی قسم کی حکومتیں وہ ہوتی ہیں ۔
جنہیں ضرورت کی حکومتیں کہا جا سکتا ہے، ایسی حکومتوں کے پیش نظر زندگی کی صرف روز مرہ ضروریات ہوتی ہیں دوسری، امراء کی ''بدمعاش' حکومتوں کی توجہ محض دولت اور خوشحالی پر ہوتی ہے3، ''گھٹیا'' حکومتیں صرف حسی اور خیالاتی مسرتوں کو مد نظر رکھتی ہیں 4،''وقار'' کی حکومتیں جن کے شہری صرف اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ دوسرے ان کی تعریف و توصیف کریں 5۔ ''غاصب'' حکومتوں کے شہری دوسروں پر غلبہ پانے اور انھیں محکوم بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں اور آخر میں ''جمہوری'' حکومتیں آتی ہیں جن کے شہریوں کا بڑا مقصد آزادی ہوتا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ جب کہ ہابز کہتا ہے کہ انسان میں طاقت و اقتدار کی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے ''اقتدار دراقتدار کی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جبتک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی'' وہ کہتا ہے ہم ایسے معاشروں میں زندگی بسرکرتے ہیں جو جنگل سے زیادہ مختلف نہیں اور اس بظاہر انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے نیچے چوروں اور قاتلوں کا ایک جہاں آباد ہے جو نظام میں ذرا سا خلل واقع ہونے پر جھٹ سے باہرآجاتا ہے۔
اب ہم اس نتیجے پر پہنچنے کے باوجود کہ دولت، عہدے، رتبے اور مرتبے، جھوٹ، سراب اور سائے ہیں پھر بھی انسان ان ہی چیزوں کے لیے ذلیل وخوار ہوتا رہتا ہے اور دوسروں کو بھی ذلیل و خوارکرتا رہتا ہے اور آخر میں پشیمانی، شرمندگی کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا ہے،کیونکہ آخرمیں اس کے اپنے اس سے سب کچھ چھین چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد اس کے اپنے وہ ہی سب کچھ کررہے ہوتے ہیں جو وہ ساری عمرکرتا آیا تھا اور پھر ایک دن ان سے بھی ان کے پیارے ساری چیزیں ہتھیا لیتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہتا ہے کیونکہ بظاہر انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے نیچے چوروں اور قاتلوں کا ایک جہاں آباد ہے جو الفارابی کی گنوائی گئی چھ قسم کی حکومتوں میں جھٹ سے باہر آجاتاہے جن کو ہم پچھلے 69 سالوں سے بھگت رہے ہیںلیکن پھر بھی ہم جیسے لوگ کبھی پانامہ لیکس پر چیخ رہے ہوتے ہیں توکبھی کرپشن اور لوٹ مار پر دھرنے دے رہے ہوتے ہیں خوامخواہ۔کیونکہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔