مشرقی پاکستان…یادوں کی دَھنک
بھارتی جارحیت کے مقابلے میں ہماری جنگی حکمت عملی ہمیشہ دفاعی نوعیت کی رہی ہے۔
ISLAMABAD:
''جنرل نیازی اپنا ریوالور تو بھارتی جنرل کے حوالے کر آئے تھے مگر وہ اپنا فوجی جھنڈا اپنے بریف کیس میں محفوظ کرکے پاکستان لے آئے۔ ان کو جب 1974ء کے وسط میں جی ایچ کیو میں اسپیشل ڈی بریفنگ کمیٹی کے سامنے بلایا گیا تو وہ اپنی کار پر وہی جھنڈالہراتے ہوئے آئے۔ بریگیڈئیر ظفر اقبال نے بطور سیکریٹری اسپیشل کمیٹی،پاکستان آرمی کے ایڈجوٹنٹ جنرل کے حکم پر ان پر واضح کیا کہ نہ تو مشرقی کمان کا وجود باقی ہے اور نہ جنرل نیازی اس کے کمانڈر ہیں 'لہذا وہ یہ جھنڈا اپنی ذاتی لائبریری میں تو سجا سکتے ہیں مگر قواعد وضوابط کے مطابق اس کو اپنی کار پر نہیں لہرا سکتے۔
تب جنرل نیازی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے یہ جھنڈا سمیٹ لیا'' یہ تھی جنرل نیازی کی ذہنی حالت،ہتھیار ڈالنے کے بعد اُنھوں نے خود مشرقی کمان کا وجود حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا تھا ۔ دو سال بھارت کی ذلت آمیز قید کاٹنے کے بعد بھی وہ حقائق کو سمجھ نہیں پائے تھے۔
''مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔''بھارتی جارحیت کے مقابلے میں ہماری جنگی حکمت عملی ہمیشہ دفاعی نوعیت کی رہی ہے جس کا بنیادی اصول،اس حماقت پر مبنی تھا کہ کسی بھی جنگ کی صورت میں پاکستان مغربی محاذ پر بھارتی فوج کو اس قدر اُلجھا کر رکھ دے گا کہ بھارت مشرقی پاکستان پر کوئی بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے گا ۔ 1965ء کی جنگ کے دوران اس نام نہاد ملٹری ڈاکٹرائن کا پول ساری دنیا کے سامنے کھل چکا تھا کہ ایک ہزار میل دور مشرقی محاذ کا مغربی محاذ سے تعلق جوڑنا کسی حماقت سے کم نہیں تھا۔بھارت کی ہر طرح سے فوجی برتری کے باوجود مغربی محاذ پر دبائو بڑھا کر مشرقی پاکستان کا دفاع کرنا دن میں خواب دیکھنے کے مترادف تھا۔
1971ء میں بھارت نے پاکستان کے اَبتراندرونی حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے مشرقی پاکستان کو ہدف بناکریلغارکا منصوبہ بنایا۔جس پر ہمارے فوجی حکمت کاروں نے فیصلہ کیا کہ جو نہی بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرے گا، مغربی محاذ پر ہماری سریع الحرکت مسلح افواج برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے دشمن کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرلیںگی تاکہ بھارت مشرقی پاکستان میں کوئی فیصلہ کن کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔مشرق کا دفاع مغرب سے کرنے کے جنگی فلسفے کے تحت جنرل نیازی کو دو کلیدی ہدایات دی گئی تھیں۔ ڈھاکا کے دفاع کو ہر حالت میں یقینی بنانا اوراپنی کمان کے وجود کو برقرار رکھنا تاکہ مشرقی پاکستان کی حکومت اور اس کے اقتدار اعلیٰ کو برقرار رکھا جا سکے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے تک ڈھاکا شہر میں کسی قسم کی عوامی بغاوت نہ ہونے دی بلکہ ڈھاکا شہر کے لوگوں کو غیر ملکی ذرایع ابلاغ سے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے بارے میں علم ہوا تھا۔
بریگیڈئر (ر) ظفر اقبال کی سوانح حیات ''یادوں کی دَھنک میں''بڑے دلچسپ اور عبرت آموز انکشافات کیے گئے ہیں۔ مصنف، تجزیہ نگار اور دفاعی امور کے ماہر، بریگیڈئیر ظفر اقبال کو 1973ء میں جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر ری پیٹری ایشن مقرر کیا گیا تھا۔ جس کا بنیادی کام بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی کے بعد فوج میں دوبارہ بحالی کے تمام انتظامات کرنا تھا۔ اس حساس نوعیت کی ذمے داری کی وجہ سے بریگیڈئیر ظفر اقبال کو سانحہ مشرقی پاکستان اور اس کے اسباب کے بارے میں براہ راست معلومات اور دستاویزات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔خاص طور پر اعلیٰ فوجی قیادت کے انٹرویو سے بیش بہا، قیمتی معلومات حاصل ہونے کے ساتھ بڑے دلچسپ اور عبرت ناک واقعات سے بھی آگاہی ہوئی ،جسے بریگیڈئیر صاحب نے بلا کم وکاست بیان کردیا ہے ۔ انھوں نے کسی ماہر مصور کی طرح بڑی چابک دستی سے مرحوم مشرقی پاکستان کے فوجی اور سیاسی حالات کی منظر کشی کی ہے ۔ جس میں عقل مندوں کے لیے عبرت کا خاصا سامان موجود ہے۔
بریگیڈئیر ظفر اقبال ،ہمارے دوست جنید سلیم کے قریبی عزیز ہیں ۔جو ایک مزاحیہ ٹی وی پروگرام میں سنجیدہ دانشور کاکردار ادا کرتے ہیں۔ جنرل نیازی کا جنگی منصوبہ مضبوط مراکز پر مشتمل قلعہ بندیوں کا سرحدی علاقے میں مربوط نظام تھا۔ جس میں اس سیاسی مفروضہ کوبنیاد بنایا گیا تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان کے کسی ایک حصے پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی حکومت بنادے گا لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ بڑھتی ہوئی تخریب کاری، نقل وحمل میں بے حد دشواریوں، مسلسل اور لگاتار جنگ، ذہنی اور اعصابی تنائو اور تھکان کے ساتھ بھارت چہار اطراف سے حملہ کرکے ان کی جنگی حکمت عملی کو ناقابل عمل بنا دے گا۔ راولپنڈی جی ایچ کیو نے بھی مشرقی کمان کی منصوبہ بندی کی ان کمزوریوں کی بروقت نشاندہی نہ کرکے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ جنرل نیازی حد سے زیادہ خود اعتمادی یا خود فریبی میں مبتلا تھے کہ دشمن کے حملے سرحدوں پر ہی روک لیے جائیں گے۔ انھیں ستمبر میں بھارتی حملے کی تمام تفصیلات سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ بھارت 21نومبر کوعید کے دن مشرقی محاذ پر حملے کا آغاز کرے گا۔
بھارت مشرقی پاکستان پر فیصلے کن وار کرنے کے لیے طویل عرصے تیاریاں کررہا تھا۔ 1970ء کی انتخابی مہم میں علیحدگی پسند رجحانات کے حامل تما م عناصر کی بھارت نے دامیِ ،درمے ،سخنے مکمل حمایت کی تھی اور پھر 30جنوری 1971ء کو گنگانامی فوکر طیارہ اغواکرانے کا ناٹک کرکے اسے لاہور ائیر پورٹ پر نذر آتش کرایا گیا جس کے بعد پاکستان پر بھارتی فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی لگادی گئی اور ڈھاکا سے فضائی رابطہ براستہ کولمبوکرناپڑا۔
جنرل نیازی کا یہ جرم ناقابل معافی تھاکہ اس نے احمقانہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پوری کمان کو دور دراز سرحدوں پر متعین کرکے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی بربادی کا مکمل سامان کرلیا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ڈھاکا میں نیم فوجی دستوں کی چند کمپنیوں کے علاوہ کوئی بھی شہر کا دفاع کرنے کو موجود نہیں تھا، اس سے بھی بڑھ کر ڈھاکا شہر کی دریائے گنگا، دریائے میگھنا اور میمن سنگھ، تانگیل کے جنگلات پر مشتمل دفاعی تکون پر مورچہ بندی کی کوئی کوشش نہ کی گئی اور یوں جنرل ناگرہ چند بھارتی کمانڈوز کے ساتھ ایک جیپ پر سوار ہوکر ڈھاکا میں داخل ہوگیا اور یوں بن لڑے مشرقی کمان ڈھیرہوگئی۔
1971ء میں یحیٰی خان کا کردار بھی بڑا شرمناک رہا ۔ انھیں قبل از وقت بھارتی جنگی منصوبے کی تمام ترتفصیلات سے آگاہ کردیا گیا تھا۔لیکن اُنھوں نے مشرقی پاکستان کو بچانے کے لیے کوئی موثر فوجی یا سفارتی کارروائی کرنا مناسب نہ سمجھا۔اُنہیں جب 21نومبر کو مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کی اطلاع دی گئی تو وہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کسی قسم کے واضح احکامات جاری کرنے سے گریز کرتے رہے۔22نومبر کی شام ایوانِ صدر میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں یحییٰ خان مشرقی پاکستان میں پیدا شدہ سنگین صورت حال سے مکمل لاتعلق اور لاپروا نظر آئے۔اس مختصر مگر غیر سنجیدہ اجلاس میں اُنھوں نے صرف یہ کہا ''میں مشرقی پاکستان کے لیے دُعا خیر کے سوا کیا کرسکتا ہوں''۔وہ مشرقی پاکستان کو کھونے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے ۔اُنھوں نے پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین دور میں 13قیمتی دن ضایع کیے نہ بھارتی حملے کا سنگین معاملہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا اور نہ ہی مغربی پاکستان سے اپنے ہی تیار کردہ ملٹری ڈاکٹرئن کے مطابق شدید جوابی حملہ کیا۔
افواج پاکستان کے کرنل سے لے کر جنرل تک سینئر افسروں سے پوچھ گچھ کے لیے اُس وقت کے کورکمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خان کی سربراہی میں اسپیشل ڈی بریفنگ کمیٹی (آفتاب کمیٹی)تشکیل دی گئی تھی جس کے ارکان میں اُس وقت کے ایڈجوئٹنٹ جنرل میجر جنرل انور قریشی ،ڈائریکٹر ملٹری انٹیلی جنس ،میجر جنرل عبداللہ ملک،ڈی پی ایس بریگیڈئیر اعجاز احمد ،ایڈمرل آر ایم شیخ (پاکستان نیوی )اور ائیر کموڈور کریم اللہ (پاکستان ائیر فورس) تھے جب کہ ڈائریکٹر ری پیٹر یشن، بریگیڈئیر ریٹائر ظفر اقبال کو سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔
اس کمیٹی کے سامنے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی (کمانڈر ایسٹرن)میجر جنرل جمشید خان ، میجر جنرل رائو فرمان علی پیش ہوئے۔ اس کے علاوہ نیوی کے ایڈمرل محمد شریف اور فضائیہ کے ائیر کموڈور انعام الحق کو بھی بلایا گیا۔ جب کہ مشرقی محاذپر 39ڈویژن کے کمانڈر میجرجنرل رحیم خان جو سقوط ڈھاکا سے ایک ہفتہ پہلے بھارتی فضائی حملے میں زخمی ہوگئے تھے جنھیں بعدازاں برما پہنچا دیا گیاتھا۔اُس وقت جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف تھے۔خصوصی طور پر آفتاب کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ۔کمیٹی نے پیش ہونے والے ہر افسر سے ایک پیشگی تحریری رپورٹ حاصل کرلی تھی جس کی بنیاد پر ان سے بغیر کسی لگی لپٹی کے کھل کر سوال و جواب ہوئے ۔جس کے بعد مکمل چھان بین دیگر دستاویزات سے استفادہ کے بعد ہر افسر کی کارکردگی اور کردار کے بارے میں علیحدہ علیحدہ سفارشات مرتب کی گئیں۔
آفتاب کمیٹی کا دائرہ کار صرف فوجی معاملات تک محدود کردیا گیا تھالیکن بوجہ اُس وقت کے کمانڈر اَن چیف جنرل یحییٰ خان ،اُن کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل حمید خان اور پرنسپل اسٹاف افسر جنرل پیرزادہ سے پوچھ گچھ کا موقع نہ دیا گیا ۔
فوجی معاملات سے قطع نظر یہ بھی تاریخ عالم کامنفرد اور انوکھا واقعہ ہے کہ اکثریت اقلیت کے مظالم سے تنگ آکر الگ ہوگئی ہو ۔واضح رہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی 56%جب کہ مغربی پاکستان کی آباد ی کا تناسب 44%تھا۔اگر ہم تاریخ کو اس کے صحیح تناظر میں نہیں دیکھیں گے تو اپنے جغرافیے کی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔یہ نوشتہِ دیوار ہے کوئی پڑھے یا نہ پڑھے۔