کرسمس کا تہوار دمکتے چہرے شاپنگ بخار اورہلہ گلہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش ہونے کی وجہ سے کرسمس عیسائی دنیا کا سب سے بڑا تہوار ہے۔


Muhammad Akhtar December 23, 2012
مسیحی دنیا کے دیگر بڑے تہوار’’یوم تشکر‘‘ یا Thanks giving day اور نیا سال بھی آتے ہیں فوٹو: فائل

کل کرسمس نائٹ اور پرسوں کرسمس ہے۔مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے وہ تمام خطے جہاں مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں، وہاں پر ''کرسمس سیزن'' عروج پر پہنچا ہوا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش ہونے کی وجہ سے کرسمس عیسائی دنیا کا سب سے بڑا تہوار ہے اور عام طور پر بیس نومبر سے لیکر یکم جنوری کا عرصہ کرسمس سیزن کہلاتا ہے۔اس عرصے کے دوران نہ صرف کرسمس بلکہ مسیحی دنیا کے دیگر بڑے تہوار''یوم تشکر'' یا Thanks giving day اور نیا سال بھی آتے ہیں۔اسکولوں اور کاموں سے چھٹیاں ہوتی ہیں اور لوگ اپنے تہوار کو مناتے اور کرسمس کی چھٹیوں کو انجوائے کرتے ہیں۔وہ شاپنگ کرتے، ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے ، پکنک مناتے، نئی نئی فلمیں دیکھتے اور دیگر ہلا گلا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چہرے خوشی کی مسرت سے دمکتے اور آنکھوں میںآنے والے خوش کن لمحوں کی چمک بھرپور انداز سے عیاں ہوتی ہے۔

کرسمس کے موقع پر ایک بار پھر شاپنگ کا بخار عروج پر ہے۔لوگ اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے طرح طرح کی چیزیں خرید رہے ہیں۔ کوئی نئے کپڑے اور جوتے لینے کے لیے بازاروں میں گھوم رہا ہے تو کوئی گھر پر پارٹیاں اور دعوتیں کرنے کے لیے کھانے کا سامان اور دیگر اشیاء خریدنے میں مصروف ہے۔ نوعمر بچیاں کپڑے جوتے جبکہ میچور خواتین کرسمس کی چھٹیوں کے دوران مختلف قسم کی ڈشز اور میٹھے کی تیاری کے لیے اجزاء خریدنے میں مصروف ہیں۔کھانا پکانے کی نئی نئی ترکیبوں کی کتابیں خریدی جارہی ہیں۔لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے کے لیے تحفے تحائف پسند کررہے ہیں اور چھوٹے بچے کھلونوں اور اپنی پسند کی دیگر اشیاء خریدنے کے لیے والدین کے ساتھ بازاروں میں اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

امریکا اور کینیڈا میں کرسمس سیزن کو ''ہالیڈے سیزن'' یا محض ''ہالیڈیز'' بھی کہا جاتا ہے جو اواخر نومبر سے لیکر یکم جنوری تک چلتا ہے۔اس عرصے میں خوب شاپنگ کی جاتی ہے اور ریٹیلرز کے لیے یہ زبردست کمائی کے دن ہوتے ہیں۔اس کے مقابلے میں یورپ بالخصوص انگلینڈ (چرچ آف انگلینڈ) میں کرسمس سیزن دسمبر کے آخری عشرے سے لیکر جنوری کے پہلے ہفتے یوم ظہور عیسیٰ Epiphany تک چلتا ہے جبکہ رومن کیتھولک چرچ کی پیروی کرنے والے یورپی ملکوں میں یہ سیزن سات سے آٹھ جنوری تک چل سکتا ہے۔اس موقع پر یورپ ، امریکا اور دیگر خوشحال مغربی ملکوں میں کاروبار عروج پر ہوتے ہیں اور تاجر پیشہ طبقے کے لیے یہ سنہری دن ہوتے ہیں۔

امریکا کا قومی کرسمس ٹری

کرسمس کے موقع پر واشنگٹن میں امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہائوس کو بھی خوبصورتی کے ساتھ آراستہ وپیراستہ کیا گیا ہے۔قومی کرسمس ٹری اور امریکی ریاستوں کی نمائندگی کرنیوالے چھوٹے چھوٹے کرسمس ٹریز ایک حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں کرسمس کو سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر گھر کی سجاوٹ کی ذمے دار خاتون اول کے ذمے ہوتی ہے۔ موجودہ خاتون اول مشیل اوبامہ نے اس ذمے داری کو خوبصورتی سے نبھایاہے۔

یاد رہے کہ امریکا کے وائٹ ہائوس میں ''قومی کرسمس ٹری'' لگانے کا آغاز 1923 میں ہوا تھا اور اس کے بعد ہرسال قومی کرسمس ٹری باقاعدگی سے لگایا جاتا ہے اور یہ ایک امریکی روایت بن چکی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں ہوتی رہیں اور اب ایک بڑے قومی کرسمس ٹری کے ساتھ 56 چھوٹے ٹری بھی لگائے جاتے ہیں جو امریکا کی ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی کی نمائندگی کرتے ہیں۔امریکا کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ ، جرمنی ، فرانس ، اٹلی ، اسپین ، بیلجئم اور دیگر یورپی ملکوں میں بھی کرسمس اسی طرح بھرپور مسرت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

پاکستان کی مسیحی برادری کرسمس پورے مذہبی جوش وخروش سے مناتی ہے۔لاہور، کراچی اور راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں آباد مسیحی برداری کے لوگ اس موقع پر نئے کپڑے اور جوتے پہنتے ہیں۔ چرچ جاتے ہیں اور عزیز رشتہ داروں سے ملتے ہیں۔ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے اور خشک میووں اور دیگر پھلوں کا تبادلہ کرتے ہیں اور سیروتفریح سے لطف اٹھاتے ہیں۔ شہر کے بڑے بڑے گرجا گھروں میں مسیحی عوام کا رش ہوتا ہے۔ پارکوں ، سینماگھروں اور دیگر تفریح گاہوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔اس موقع پر مختلف ٹی وی چینلز پر کرسمس کے حوالے سے خصوصی پروگرام اور تفریحی شوز بھی نشر کیے جاتے ہیں اور اخبارات میں کرسمس کی مناسبت سے صفحات شائع ہوتے ہیں۔پاکستان کے علاوہ بھارت ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں میں بھی مسیحی برادری اسی طرح جوش وخروش سے کرسمس مناتی ہے۔

سانتا کلاز

کرسمس کی بہت سی روایتوں کے ساتھ جڑی ایک روایت سانتا کلازکی بھی ہے۔سانتا کلاز کو دیگر کئی ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے جیسے سینٹ نکولس، فادر کرسمس یا محض سانتا، یہ ایک لیجنڈری ، دیومالائی اور تاریخی کردارہے جو مختلف مغربی ثقافتوں کے مطابق کرسمس نائٹ کے موقع پر اچھے بچوں کے لیے تحائف لے کر آتا ہے۔سانتاکلاز کا جدید حلیہ ایک ڈچ سانتاکلاز سے لیاگیا ہے ۔سانتاکلاز کے ساتھ مختلف یورپی ملکوں میں مختلف روایتیں جڑی ہوئی ہیں تاہم سب روایتوں میں لگ بھگ ایک روایت مشترک ہے کہ یہ بچوں بالخصوص غریب بچوں کے لیے تحائف لے کر آتا ہے کہ کرسمس کے موقع پر انھیں کسی کمی کا احساس نہ ہو۔یونانی دیومالا اور بازنطینی عیسائی روایات میں بھی اس کے ساتھ کئی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ بہرحال سانتاکلاز کرسمس کی ایک اہم علامت بن چکا ہے۔

سانتا کلاز عام طور پر ایک ایسے کردار کی عکاسی کرتا ہے جو ہنسے ہنسانے اور خوش مذاق گھنی سفید داڑھی والا آدمی ہے جس نے سفید پٹیوں والا ایک سرخ جبہ پہنا ہوتا ہے اور پائوں میں چمڑے کے موٹے بوٹ ہوتے ہیں۔اس نے عام طور پر اپنے کاندھے پر ایک تھیلا اٹھا رکھا ہوتاہے اوروہ اس تھیلے سے تحائف نکال کربچوں کو دیتا ہے جو کینڈیز' کھلونوں اور کتابوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔

کرسمس سے جُڑے مـسـائـل

کرسمس اور کرسمس سیزن کے اثرات کے حوالے سے مختلف اسٹڈیز کے مطابق اس کے عوامی صحت پر خراب اثرات بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ کرسمس کے دنوں میں جس طرح کئی ہفتوں تک نئے نئے کھانے اڑائے جاتے ہیں اس کے صحت پر اثرات یقینی طور پر اچھے نہیں۔ماہرین کے مطابق کرسمس سیزن کے دوران صحت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اگلے سال بھر تک ختم نہیں ہوتے حتیٰ کہ اگلا کرسمس آجاتا ہے۔اس طرح جو بیماریاں پہلے سے ہوتی ہیں جیسے بلڈ پریشر ، شوگر اور دل کے امراض کی حالت بھی خراب ہوجاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کرسمس سیزن کے دوران امریکا میں بڑی تعداد میں شہریو ںکا وزن بڑھ جاتاہے جو اوسطاً ایک پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ وزن عام طورپر پورا سال قائم رہتا ہے اور دوبارہ کم نہیں ہوتا اور یوں سال بہ سال وزن میں دس سے بیس پونڈ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں کے موسم میں ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر کی سطح ویسے ہی بلند ہوجاتی ہے اور کرسمس سیزن اس مسئلے کو اور بھی سنگین کر دیتا ہے۔

اس طرح کینیڈا کی ایستھما سوسائٹی کاکہنا ہے کہ کرسمس سیزن کے دنوں میں ہوا میں دمہ کے حملے کا باعث بننے والے مواد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے دمہ کے مریضوں کو خاصی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ایک تو 90 فیصد لوگ کرسمس کی چھٹیوں میں زیادہ تر وقت گھر میں گذارتے ہیں جبکہ گھروں کو اندر اور باہر سے مختلف چیزوں سے سجایا جاتا ہے اور یوں ماحول میں ان کی وجہ سے ایسے مادوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو دمہ کے مریضوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔دمہ کے مریضوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ خوشبودار موم بتیاں استعمال نہ کریں اور سجائے جانے والے کرسمس ٹریز کے زیادہ قریب مت جائیں۔

کرسمس کے دنوں میں یورپ اور امریکا میں آتشزدگی کے واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یوایس فائر ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ کرسمس اور اس کی تعطیلات میں آتشزدگی کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں لوگ گھروں کو مختلف طریقوں سے گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور گیس پوری نہ آنے کی صورت میں آگ جلانے کے لیے طرح طرح کے متبادل انتظامات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں کو کاغذ کی اشیاء ، پلاسٹک ، برقی قمقموں ، موم بتیوں اور جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے اور یوں آگ لگنے کی صورت میں وہ فوری طور پر پھیل جاتی ہے۔کینیڈا کے حکام کے مطابق کرسمس کی چھٹیوں کے دوران موم بتیوں کے باعث آگ لگنے کے واقعات میں 140 فیصد تک اضافہ ہوجاتا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ جھلس کر ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں۔زیادہ تر واقعات لوگوں کی معمولی غفلت کے باعث ہوتے ہیں۔

اس طرح کرسمس کے دنوں میں دھند، برفباری اور دیگر مسائل کے باعث سڑکوں کے حادثات بھی بڑھ جاتے ہیں۔بڑی تعداد میں حادثات شراب نوشی کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں کیونکہ مغربی ممالک میں کرسمس کے دنوں میں بہت سے لوگ اپنا وقت شراب کے نشے میں گذاردیتے ہیں۔

وہ اور ہم ۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں دکانداروں کے اس رجحان سے سب واقف ہیں کہ رمضان المبارک ہو'عیدین یا کوئی بھی تہوار ہو تو وہ ان کو ناجائز طور پر کمائی کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور ہر چیز کئی گنا مہنگے د اموں فروخت کرتے ہیں اور یوں غریب لوگوں کے لیے یہ تہوار رحمت کے بجائے ایک زحمت بن کر رہ جاتے ہیں۔دکاندار اس موقع پر ہر کھری کھوٹی چیز بیچ ڈالتے ہیں اور وہ بھی اپنے منہ مانگے داموں بیچتے ہیں۔اس موقع پر جعلی ''سیل'' لگائی جاتی ہیں جن میں کم قیمت اور نقائص والی چیزوں کو نکالا جاتا ہے۔اس موقع پر یہ دکاندار اور کاروبار کرنے والے لوگ اسلام کے ان تمام سنہری اصولوں کو بھول جاتے ہیں جو کہ دین اسلام کی جانب سے تجارت کے لیے ان کو بتلائے گئے ہیں مثلاً اشیاء کو ان کے جائز دام پر فروخت کرنا اور فروخت سے پہلے ان کے نقائص بیان کرنا۔

اس کے مقابلے میں یورپی ممالک اور امریکا میں کرسمس کے موقع پر دکانداروں کارویہ مختلف ہوتا ہے۔ اس روز مینوفیکچررز زیادہ مقدار میں اشیاء تیار کرتے ہیں اور دکاندار ان کو عام دنوں کے مقابلے میں کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غریبوں اورکم آمدنی والے طبقات کے لیے خصوصی رعایتی اسکیمیں اور مراعات متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ان ممالک میں جعلی ''سیل'' کے بجائے حقیقی معنوں میں ''سیل'' لگائی جاتی ہیں اور ان میں فروخت کی جانیوالی چیزوں کا معیار کسی طرح بھی کم نہیں ہوتا۔اس طرح مغربی دنیا میں کرسمس اور دیگر تہوار صحیح معنوں میں تہوار بن جاتے ہیں اور غریب اور کم آمدنی والے طبقات بھی ان کو بھرپور جوش وخروش سے مناتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں