قوم کے ماسٹرصاحب
ہمارے بہت سے اداروں کی طرح ماسٹر صاحب کا ادارہ بھی زوال کا شکار ہوگیا،
''بھائی آپ نے اتنے پیسے خرچ کرکے جہاز کا ٹکٹ لیا ہے، تھوڑے سے پیسے خرچ کرکے ذرا ڈھنگ کے کپڑوں کا ایک جوڑا بھی لے لیتے۔آپ باہر جا رہے ہیں پاکستانیوں کا اچھا تاثر پیش کریں۔'' 1992 میں کراچی کے موجودہ جناح انٹرنیشنل ٹرمینل کے افتتاح کے بعد وزیراعظم نے یہ بات ٹرمینل کا دورہ کرتے ہوئے باہر جانے والے ایک پاکستانی سے کہی جو بہت سے پاکستانیوں کی طرح عجب حلیہ بنائے باہر جارہا تھا۔کہنے کو یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر ذرا سوچیے کہ اگر ہم پاکستانی ذرا ڈھنگ کے کپڑے پہن کر قدرے مہذب سے لوگوں کی طرح سفرکرنا شروع کردیں تو صرف اس چھوٹی سی بات سے ہی دنیا میں ہمارا تاثرکتنا بہتر ہوجائے، مگر ہمیں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو قوموں کو بڑا بناتی ہیں سکھائے توکون سکھائے؟
ہمارے بہت سے اداروں کی طرح ماسٹر صاحب کا ادارہ بھی زوال کا شکار ہوگیا، ماسٹر صرف کورس ہی نہیں پڑھاتے تھے بلکہ زندگی گزارنے کے طریقے بھی سکھاتے تھے۔ تربیت یافتہ منظم قوم اور غیر تربیت یافتہ تمیزوآداب، طریقوں اور سلیقوں سے یکسر محروم بے ہنگم ہجوم ہوتے ہیں، جیسے کہ ہماری ہر سڑک پہ نظر آتے ہیں۔ حکمران سڑکیں تعمیرکرتے ہیں، لیڈر قومیں تعمیرکرتے ہیں ورنہ سڑکیں تو لیبیا، عراق اور شام میں بھی بہت شاندار بنیں۔ تو لیڈرصرف سڑکیں ہی نہیں بناتے بلکہ اپنی قوم کو سڑکوں کا مہذب استعمال بھی سکھاتے ہیں۔ رہنما صرف قوم پہ حکمرانی نہیں کرتے بلکہ قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، یہ کام ہمارے حکمران بھی کرسکتے ہیں اورخاصی آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔
آئیڈیا یہ ہے کہ حکمران ہر پندرہ دن پہ قوم سے ایک غیر روایتی انداز میں مخاطب ہوں جسے کہ انگریزی میں ہم چٹ چیٹ کہتے ہیں یعنی ہلکی پھلکی گفتگو، گپ شپ وغیرہ۔ وزیر اعظم ہر بار کسی ایک آئیڈیے پہ بات کریں مثلاً اسٹوڈیو میں ایک طرف وزیر اعظم بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ایک بڑا ٹی وی اسکرین بھی موجود ہے اور متعلقہ موضوع کے کچھ ماہر بھی۔ اب وزیراعظم قوم کو پولی تھین شاپنگ بیگزکے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ پولی تھین قدرتی طور پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے ماحول میں سالوں موجود رہ کر قدرتی ماحول، انسانوں اورجانوروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
کیسے ان پولی تھین تھیلیوں سے ہمارے ہاں کوڑے کے خوفناک حد تک بڑے بڑے ڈھیروں سے سیوریج لائنوں سے نکال کر نکاسی آب کے نالوں تک سب کچھ چوک ہوچکا ہے۔ سڑکیں کھدتی ہیں تو تہہ در تہہ پولی تھین کی تھیلیاں برآمد ہوتی ہیں، کیسے ان پلاسٹک کی تھیلیوں سے ہمارے پانی کے ذخائر ، ہمارے دریا اور سمندر مر رہے ہیں، کون کون سی زہریلی گیسیں ہیں جو یہ پلاسٹک کی تھیلیاں فضا میں ہر طرف پھیلاتی ہیں جب انھیں جلایا جاتا ہے اور یہ گیسیں انسانوں کے لیے کس کس طرح کے موذی امراض پیدا کرتی ہیں۔ وزیراعظم قوم کواس بارے میں بتاتے ہوئے ساتھ لگے ٹی وی اسکرین پر مختلف متعلقہ مناظر بھی دکھائیں، ساتھ ہی اپنے ساتھ موجود ماہرین کی رائے بھی لیں۔
پھر وزیر اعظم قوم کوکپڑے کا عام سا تھیلا اور بان کی عام سی ٹوکری بھی دکھائیں اور قوم کو سکھائیں کہ وہ بجائے درجنوں کی تعداد میں پلاسٹک کی تھیلیوں میں روزمرہ کے سودے اور مختلف چیزوں کو ڈال کر لانے کے بجائے اس طرح کے تھیلوں اور ٹوکریوں میں بھرکر لاسکتے ہیں مثلاً پھل، سبزی، مختلف اشیا کے پیکس وغیرہ بغیر کسی پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالے بغیر تھیلے یا ٹوکری میں رکھ کر لاسکتے ہیں البتہ چاول، آٹا، گوشت وغیرہ تھیلی میں ڈال کرکپڑے کے تھیلے یا ٹوکری میں رکھنا پڑے گا تاہم دوسری چیزوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں نہ ڈالنے سے ہر روز فی فرد درجنوں پلاسٹک کی تھیلیاں کم ہوسکتی ہیں یعنی ہر روزکروڑوں پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال نہیں ہوں گی۔ وزیر اعظم صاحب ہی پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والوں کو کپڑے کے تھیلے اور کاغذ کے لفافے وغیرہ بنانے پر راغب کرنے کے لیے مخصوص مدت کے لیے مختلف ترغیبات کا بھی اعلان کرسکتے ہیں۔
اسی طرح ایک گفتگو میں وزیراعظم قوم سے پانی کے اوپر بات کرسکتے ہیں اور قوم کو ٹی وی اسکرین پہ مختلف مناظرکی مدد سے پانی کے احتیاط سے خرچ کرنے کے طریقے سکھا سکتے ہیں مثلاً جیسے کہ شیو کرتے ہوئے، برتن دھوتے، کپڑے دھوتے وقت نل مسلسل نہ کھولیں، گاڑیاں پانی سے نہلانے کے بجائے گیلے اور ایک سوکھے کپڑے سے صاف کریں اس طرح یہ زنگ سے بھی محفوظ رہیں گی، پانی کے زیر زمین اور اوور ہیڈ ٹینک ابلنے نہ دیں، نل ٹپکنے اور پائپ لیک نہ ہونے دیں۔ کچن میں ایک بالٹی رکھیں جس میں ایک برتن کے ذریعے استعمال ہونے والا سادہ پانی ڈالتے جائیں جیسے سبزیاں پھل وغیرہ نل کے نیچے وہ برتن رکھ کر دھوئیے یعنی صابن وغیرہ کے استعمال کے بغیر جو پانی استعمال ہو رہا ہو وہ نل کے نیچے برتن کے ذریعے بالٹی میں جمع کرتے جائیں اور اسے باغ، پودوں، جھاڑو پوچے وغیرہ کے لیے استعمال کرلیں، کیسے کھیتوں میں آب پاشی کے لیے کم پانی استعمال کریں۔
وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے متعلقہ ماہرین بھی اس موضوع پہ بات کریں اوروزیراعظم اسلامی تعلیمات کے ذریعے بھی بتائیں کہ پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔ وزیراعظم کی اس گفتگو سے اگر پاکستان کے صرف 10 فیصد گھروں میں بھی پانی احتیاط سے استعمال ہونے لگے تو یہ روز کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لیٹر بنیں گے اور پانی کے بچنے کے جو معاشی، سماجی اور شہری فوائد ہوں گے ۔
وزیراعظم اس بارے میں بھی قوم کو بتائیں۔ اس طرح کے ان گنت آئیڈیاز ہیں جن پہ وزیراعظم قوم سے ہر پندرہ دن پہ بات کرسکتے ہیں بلکہ ساتھ کچھ افرادکی کالز بھی موصول کرسکتے ہیں۔ یہ گفتگو نہ صرف ہمارے قومی رویوں میں بہتری لاسکتی ہے بلکہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو سیکھ کر یہ قوم جلد ترقی کرسکتی ہے۔ وزیر اعظم اپنی قوم سے نہ صرف قریب ہوں گے بلکہ دنیا بھر میں ایک ماڈرن اور تخلیقی انداز میں کام کرنے والے رہنما کے طور پر جانے جائیں گے جو اپنے روایتی فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی تعمیر کے لیے غیر روایتی طریقے بھی استعمال کرتا ہے اور وزیر اعظم کے ساتھ ہمارے وزرائے اعلیٰ بھی اسی طرح کی گفتگو کے پروگرام کرسکتے ہیں۔ مقصد تو ایک ہی ہوگا کیونکہ قوم بھی ایک ہی ہے۔