کامریڈ فیڈل کاسترو کو سرخ سلام

کامریڈ فیڈل کاسترو دنیا کے ان چند عظیم رہنماؤں میں سے ہیں جنھوں نے محنت کش عوام کی رہنمائی کی


Zuber Rehman December 02, 2016
[email protected]

RAWALPINDI: کامریڈ فیڈل کاسترو دنیا کے ان چند عظیم رہنماؤں میں سے ہیں جنھوں نے محنت کش عوام کی رہنمائی کی اور انقلاب برپا کیا۔ فیڈل کاسترو کامریڈ چی گویرا کے ساتھ مل کر 1969 میں کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب لائے۔ چند انقلابیوں نے 80 ہزار سامراج نواز فوج کو گوریلا جنگ کے ذریعے شکست دی۔ انقلاب کے بعد مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد چی گویرا بولیویا کے جنگل میں لڑتے ہوئے امریکی سی آئی اے اور اس کے آلہ کاروں کے ہاتھوں شہید ہوئے جب کہ فیڈل کاسترو کیوبا کے وزیراعظم اور صدر کے عہدوں پر پچاس برس فائز رہے۔

ان پر متعدد بار امریکی سی آئی اے اور اس کے آلہ کاروں نے قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بار بار معجزانہ طور پر بچتے رہے۔ ایک ایسا ملک جو ریاست ہائے متحدہ امریکا سے صرف سو میل دوری پر ہے، انقلاب کے بعد تمام سامراجی سرمایے اور اداروں کو بحق سرکار ضبط کرلیا۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ بالخیر کردیا۔ کیوبا کے پاس ایٹم بم نہیں اور دور مار اسلحہ نہ ہونے کے باوجود عوامی یکجہتی اور اتحاد کی وجہ سے 57 برس سے سوشلزم قائم و دائم ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کیوبا کا تعلیمی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ اپنے بجٹ کا گیارہ فیصد ہے، جب کہ شرح تعلیم سو فیصد ہے۔ دنیا کے نوے ترقی پذیر ملکوں میں کیوبا کے 36 ہزار ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کشمیر میں زلزلے کے بعد کیوبا سے سیکڑوں ڈاکٹرز نے کشمیریوں کا علاج کیا اور جاتے وقت گیارہ اسپتال قائم کرگئے، اب بھی ہر سال پانچ سو طلبا پاکستان سے کیوبا مفت ڈاکٹری پڑھنے جاتے ہیں۔ کیوبا میں کوئی نجی صنعت کا وجود نہیں ہے۔ دنیا بھر کے سامراجی ممالک کی جانب سے کیوبا پر اقتصادی پابندیوں کے باوجود وہاں نہ کوئی بھوکا ہے، ناخواندہ ہے، بے گھر ہے، لاعلاج ہے، بے روزگار ہے اور نہ کوئی گدا گر ہے۔

کیوبا میں ہیپاٹائٹس، ایڈز اور کینسر کے امراض ناپید ہیں۔ کیوبا کے وزیر صحت نے برطانیہ اور امریکا کو پیشکش کی تھی کہ وہ وہاں ان امراض کا مفت علاج کرنے اور مفت دوائیں دینے کا اعلان کرتا ہے بشرطیکہ وہ ہم سے اپیل کرے۔کیوبا میں ہر قسم کا علاج خواہ کیوبن شہریوں کا ہو یا غیر ملکیوں کا، مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ صحت کا بجٹ بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں خصوصاً لاطینی امریکا میں کیوبا تعلیم اور صحت فراہم کرکے وہاں سے دیگر وسائل حاصل کرتا ہے۔ یہ سارے کارنامے سوشلسٹ انقلاب اور اس کی برکات ہیں۔ اس لیے کہ یہاں سرمایہ داری ہے اور نہ جاگیرداری۔ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کیمیکل کھاد کے بجائے دیسی کھاد (گوبر، کیچڑ، سڑے ہوئے پتے اور کچرے وغیرہ) استعمال ہوتی ہے اور کیڑے مار کیمیکل (پیسٹیسائیڈ) کا استعمال نہیں ہوتا، اس کے بجائے زہریلی جڑی بوٹیوں کے عرق کو پانی میں محلول کرکے رسی سے زراعت پر پھیرا جاتا ہے یا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

ان عوامل کی تعریف یورپی یونین کو بھی کرنی پڑی۔ کیوبا کے زراعت میں ان تدابیر کے استعمال سے متاثر ہو کر یورپ، امریکا، افریقہ اور ایشیا کے بعض ممالک، صوبے اور از خود کاشکاروں نے بھی شروع کردیا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان کے صوبہ میزورام نے کیمیکل کھاد کا استعمال بند کردیا ہے، آندھرا پردیش اور راجستھان کے کسانوں نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کردیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں مہلک بیماریاں ختم ہورہی ہیں۔ جب کہ ہندوستان کی حکومت کیمیکل کھاد استعمال کرنے والے کسانوں کو قرض فراہم کرتی ہے اور دیسی کھاد استعمال کرنے والے کسانوں کو قرضے نہیں دیتی ہے۔

کیوبا میں ہوٹلوں میں انتہائی کم قیمت میں کھانا ملتا ہے اور ٹرانسپورٹ کا کرایہ برائے نام ہے۔ ہاں مگر قیمتی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں یا ہر ایک کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ چمک دمک کے بجائے لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ دنیا کے بورژوا دانشور کیوبا کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ وہاں 1960 اور 50 کے ماڈل کی گاڑیاں چلتی ہیں، اسمارٹ فون کو لوگ ترستے ہیں، قیمتی پرفیوم مل جائے تو سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ سرمایہ دار دنیا میں روز انہ پچھہتر ہزار انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں، جب کہ 83 ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں۔ چمک دمک اور شوشا پانچ فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی لوگ دوا نہ خرید پانے پر میڈیکل اسٹور کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ سامراجی ممالک جینیٹک موڈیفائیڈ سیڈز (مصنوعی طور پر بیج کی پیداوار) غریب ملکوں کو کم قیمت میں بیچتے ہیں یا امداد کی احسان مندی کے سامراجی بندھن میں جکڑ لیتے ہیں۔ اس بیج کے خلاف اقوام متحدہ کے سابق جنر ل سیکریٹری کوفی عنان نے کہا تھا کہ ''یہ بیج افریقیوں کو کھانے کے بجائے مرجانا بہتر ہے، اس لیے کہ اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوتے رہیں گے''۔

جن ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا، اگر وہ ممالک کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے پیشرفت کرتے اور بے ریاستی معاشرے کی جانب جانے کے لیے اپنی رفتار کو تیز کرتے تو شاید روس اور چین میں سوشلزم کی جگہ سرمایہ داری نہ آتی اور نہ عالمی سرمایہ داروں کو سازشوں کا موقع ملتا۔ بہرحال اب بھی سوشلزم کے برکات سے ہی سوشلسٹ کوریا (شمالی کوریا) میں سو فیصد لوگ خواندہ ہیں۔

وہاں بھی کوئی ارب پتی اور گداگر نہیں ہے۔ تعلیم، صحت اور رہائش مفت ہے۔ سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا ہے۔ آج کیوبا اور کوریا کے انقلاب کے اثرات سے ویتنام، لاؤس اور لاطینی امریکا کے 35 ملکوں میں سے 33 میں کمیونسٹ، سوشلسٹ، انارکسٹ اور سوشل ڈیموکریٹوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ جنوبی امریکا کے بیشتر ممالک نے اپنی تیل کمپنیاں، ٹی وی نیٹ ورکس اور اقتصادی زون تشکیل دے رکھے ہیں۔ ایکواڈور، بولیویا، وینیزویلا، ارجنٹینا، پیرو، گوئٹے مالا، یوراگوائے اور نکاراگوا وغیرہ میں زور و شور سے بنیادی اداروں کو قومی ملکیت میں لیا جا رہا ہے۔ کامریڈ فیڈل کاسترو کی گھن گرج والی تقاریر کے اثرات امریکا اور برطانیہ پر بھی پڑنے لگے ہیں۔ وہ تو اب ہم میں نہ رہے لیکن ان کے سوشلسٹ نظریات امریکا اور یورپ پر چھائے جارہے ہیں۔ حالیہ امریکی صدارتی مہم میں برنی سینڈرز نے امریکا میں سوشلزم کی دھوم مچادی۔ اسی طرح برطانوی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کا سوشلسٹ لیڈر جیمری کاربون کا پارٹی کارکنوں کے 65 فیصد ووٹ لے کر جیتنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب دنیا کے عوام عالمی سرمایہ داری سے تنگ آچکے ہیں۔

(تصحیح: ''اشتراکی نظریہ'' نامی مضمون میں پیرس کمیون کا قیام غلطی سے 1871 کے بجائے 1971 چھپ گیا تھا۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں