صحافت کی ضرورت کیوں
میں لاہور کے ایک کھلے مکان کے بند کمرے میں گویا قید ہوں۔ میرے ساتھ میرا قلم دوات ہے
میں لاہور کے ایک کھلے مکان کے بند کمرے میں گویا قید ہوں۔ میرے ساتھ میرا قلم دوات ہے لیکن میرا ساتھی میرا ایک ملازم ہے جو قطعاً ان پڑھ ہے اور اخباروں کے ڈھیر میں سے مجھے میری ضرورت کا اخبار بھی تلاش کر کے نہیں دے سکتا لیکن میں اس کی خاموش رفاقت سے مطمئن ہوں۔
بچے اور گھر والے صبح چلے جاتے ہیں اور سہ پہر کو گھر لوٹتے ہیں وہ بھی بچے جن کے اسکول چھٹی کر لیتے ہیں لیکن گھر کے کارکن افراد اپنی مزدوری میں شام تک مصروف رہتے ہیں اور پھر رات گئے تک میری تنہائی ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میں نے زندگی بھر اتنا لکھا ہے کہ اب اگر کبھی کچھ نہ بھی لکھوں تو فرق نہیں پڑتا اور لکھا بھی کیا ہے اخباروں کی خبریں اور سیاست دانوں کے بے معنی اور بے مغز بیان۔ اب سوچتا ہوں کہ میں ایک احمق انسان تھا جس نے اپنا قلم اس طرح ضایع کیا۔
میں نے لاہور کے ایک بہت بڑے ایڈیٹر کی نگرانی میں صحافت شروع کی جو ایک صحیح صحافت تھی کیونکہ مرحوم حمید نظامی کسی ایسی صحافت کے قائل نہیں تھے جو کسی مقصد کے تحت نہ ہو چنانچہ اس سخت گیر ایڈیٹر کی قیادت اور رہنمائی میں اس نوخیز صحافی نے بہت مار کھائی لیکن میں وہ صحافت نہ کر سکا جو میرے استاد کے ذہن میں تھی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں اخبار کا ایک ملازم تھا، اپنی مرضی کرنے والا ایک مالک نہیں تھا جس طرح میرا ایڈیٹر تھا جس نے حیرت انگیز محنت کے ساتھ صحافت میں اپنا مقام بنایا اور اپنے سخت مزاج اور سخت الفاظ کے ساتھ صحافت کو ایک نیا اسلوب دیا۔
یہ ایڈیٹر اپنی محنت اور ذہانت سے اپنے دور کی صحافت پر چھا گیا اور نہ صرف اپنے دور کی بلکہ ماضی سے آنے والی صحافتی روایات پر بھی چھا گیا۔ اس نے صحافت میں ایک نیا انداز اختیار کیا۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا انداز رائج کیا اور ماضی کی روایات پر بھی چھا گیا جو پرانے صحافیوں نے رائج کی تھیں۔ حمید نظامی کی صحافت نے وہ عروج پایا کہ صحافت کے موجود پر اسلوب اور انداز پر چھا گیا، اگر یہ کہا جائے کہ حمید نظامی نے صحافت کو ایک نئی زندگی اور نیا اسلوب دیا تو ہرگز غلط نہ ہو گا۔
میں فخریہ انداز میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے صحافت ایک ایسے بے رحم ایڈیٹر کی نگرانی میں شروع کی جو صحافت میں کسی رو رعایت کا قائل نہ تھا اور صحافت کا جو معیار اس نے قائم کر رکھا تھا اس سے انحراف نہ کیا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے بھی کوشش کرتے کہ ان کی تحریر میں بھی ان کے ایڈیٹر کا رنگ ہو یعنی مختصر ترین الفاظ میں وہ سب کچھ بیان کریں جو دوسرے مقالموں میں بیان کرتے تھے۔ مرحوم و محترم حمید نظامی کے ہاں صحافت کا مطلب یہ تھا کہ قارئین تک ایڈیٹر کے خیالات مختصر ترین الفاظ میں لیکن وضاحت کے ساتھ بیان ہوں۔
حمید نظامی صحافت کے ایک نئے انداز کے بانی تھے لیکن افسوس کہ ان کے معاصرین میں سے کسی نے ان کی پیروی کرنی مناسب نہ سمجھی۔ سبھی ان کے مقابلے میں لگے رہے۔ بہرحال حمید نظامی کی صحافت کا ایک دور ان کے ساتھ ہی گزر گیا اور اس صحافت کو آگے رائج نہ کیا جا سکا۔ معلوم نہیں ایسا کیوں نہیں ہوا جب کہ یہ انداز مشکل نہیں آسان تھا اور خود حمید نظامی بہت آسان الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے تھے۔ ان کی صحافت کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ یہ سب میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ حمید نظامی کا انداز صحافت رائج ہونا چاہیے جو قارئین کے قریب ترین ہو اور جس میں پڑھنے والے کو ذہنی زحمت نہیں کرنی پڑتی ہو۔
صحافت حالات حاضرہ کو آسان انداز میں قارئین تک پہنچانا ہوتی ہے۔ جس کسی صحافی نے اداریوں میں ادب پیدا کرنے کی کوشش کی وہ کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ عام قارئین عموماً کم تعلیم یافتہ ہوا کرتے ہیں اور اخبار وہ اس لیے پڑھتے ہیں کہ خبروں کے جو مطالب کوئی ایڈیٹر نکال سکتا ہے وہ ان سے محروم رہتے ہیں اس لیے اخباروں کو پڑھ کر وہ کسی خبر اور کسی واقعے کی اصل تک پہنچتے ہیں۔ قارئین کو الجھانا نہیں چاہیے بلکہ اخبار کو ان کے لیے آسان بنانا چاہیے کہ وہ صحافت کو اپنی ضرورت سمجھ سکیں اسے کوئی مشکل مضمون نہ سمجھیں۔
اخبار کا ہر قاری جانتا ہے کہ وہ اخبار اس لیے پڑھتا ہے کہ حالات حاضرہ کو آسان انداز میں سمجھ سکے۔ ان حالات کے پس منظر سے آگاہ ہو سکے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکے۔ جو اخبار آسان زبان استعمال کرتے رہے اور مشکل مطالب اور زبان سے بچ کر رہے وہ زندہ رہے اور اب تک ان کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ آسان اخبار تھے اور اپنے قارئین کو وہ سب بتایا کرتے تھے جو وہ عام خبروں میں نہیں پا سکتے تھے اور خبروں کے پس منظر کی تلاش میں رہتے تھے۔
اخبار کا اصل مقصد عوام اور قارئین کی مشکلات کو رفع کرنا ہوتا ہے جو بعض خبروں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس طرح وقت کی سیاسی الجھنوں کو حل کرنا بھی اخبار کا بنیادی فرض ہوتا ہے جو عام قارئین خود حل نہیں کر سکتے اور ان کے پاس پس منظر کی معلومات نہیں ہوتیں۔ اخبار کے قاری کو حالات حاضرہ نہایت آسان انداز میں بتانا چاہیے جس سے اس کے ذہن کی الجھنیں ختم ہوں اور وہ اخبار پڑھ کر اپنے آپ کو ایک سمجھدار انسان سمجھ سکے۔ حالات کو صاف صاف بیان کرنا اور سیاست دانوں کی زبان کو آسان بنانا بھی صحافت کا ایک مقصد ہے۔