پاکستان کی خوشحالی اور سی پیک منصوبہ
پاکستان کی تاریخ میں سقوط پاکستان کے غم کے ساتھ اور بھی بے شمار دکھ اور ناکامیاں شامل ہیں
پاکستان کی تاریخ میں سقوط پاکستان کے غم کے ساتھ اور بھی بے شمار دکھ اور ناکامیاں شامل ہیں، دہشتگردی اندرونی سے بیرونی مداخلت اور سازشیں، سیاچن سے فوجوں کی واپسی، پاکستان کی جڑوں کو کمزور کرنے کی سازش، ہندوستان کی جانب سے سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ، اداروں کی فروخت اور اربوں روپے کا قرض، پاکستانی عوام کے حقوق کی پامالی، معصوم بچوں کا اغوا، دیہاتوں کی حالت زار اور سرکاری اسکولوں کا اصطبل میں بدل جانا، سیاسی تنظیموں کی مفاد پرستی اور وطن سے غداری، اس شکست و ریخت کی کہانی کی بنت میں حکمرانوں کا بنیادی کردار رہا ہے، ہر دور حکومت میں صاحب اقتدار نے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کی اور پاکستانیوں کو بے شمار مسائل کا شکار کردیا۔
سابقہ و موجودہ حکومتوں نے معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے دعوے تو بہت کیے لیکن یہ دعوے اور اعلانات ذرائع ابلاغ تک ہی محدود ہوکر رہ گئے اور سرمایہ داروں نے اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے شروع کردیے، ان کے اس عمل نے بے روزگاری میں مزید اضافہ کیا۔ اب جب کہ ہر طرف تباہی و بربادی کی داستان بکھری نظر آ رہی ہے، ایسے میں سی پیک منصوبہ پاکستان میں خوشحالی و ترقی کا باعث بنے گا، انشا اﷲ!
گوادر کی کہانی بھی سچی اور سحر انگیز ہے۔ اس کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں 1960 میں مسقط کے بادشاہ سلطان قابوس نے گوادر پاکستان کو تحفہ پیش کیا تھا، ساحل سمندر ہونے کی وجہ سے یہاں مچھیروں کی بستی آباد تھی اور گوادر بلوچستان کا حصہ ہے۔دنیا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے Gawadar Development Authority کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا، اس حوالے سے حکومت نے گوادر کو بندرگاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے چین سے معاہدہ کیا گیا تاکہ بے روزگاروں کو روزگار میسر آئے اور یہ پاکستان کی ترقی کے لیے ابتدائی کاوش تھی۔ گوادر کو بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے ملانے کے لیے سڑکیں پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔ گوادر کو دوسرے صوبوں سے ملانے کے لیے سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی بری، بحری، فضائی افواج کا اہم کردار رہا ہے۔ ایک سڑک Coastal Highway کے نام سے موسوم کی گئی ہے، اس کے علاوہ چاروں صوبوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے Routs بھی بنائے گئے ہیں، مثلاً مغربی و مشرقی روٹ۔ الحمد ﷲ گوادر پورٹ کی تعمیر ایک معقول حد تک مکمل ہوچکی ہے، اس کے ساتھ ہی ترقی کا باب روشن ہوگیا ہے۔
چین نے اپنے منصوبے کے تحت پاکستان سے مشاورت اور اہم اجلاس کے بعد 46 ارب ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، اسے سی پیک کا نام دیا گیا۔ دراصل سی پیک China Pakistan Economic Corridor کا مخفف ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان ... جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور چین کے درمیان اہم تجارتی مرکز بننے جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں چین کا پہلا تجارتی قافلہ کاشغر سے گوادر پہنچا تھا، دو بحری جہاز الحین رنزیہاؤ اور کوسکو ویلنٹگن کے ذریعے یہ بڑا کام کیا گیا۔
ان جہازوں کو پاک بحریہ کی نگرانی میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور متحدہ عرب امارات روانہ کردیا گیا تھا، یہ جہاز یورپی یونین بھی جائیں گے، ان کی روانگی کے سلسلے میں 13 نومبر 2016 کو گوادر پورٹ پر ایک تقریب ہوئی۔ تقریب میں چینی کمپنی کے نمائندے، وزیراعظم نواز شریف، سابقہ جنرل راحیل شریف، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہ شریک ہوئے، بیرون ممالک کے سفیروں نے بھی اس عظیم اور بڑی تقریب میں شرکت کو لازمی قرار دیا۔
ترکی نے بھی سی پیک منصوبے میں شمولیت کے لیے چینی صدر شی چن پنگ سے ملاقات کی۔ چین اور ترکی دونوں ہی ملک پاکستان کے گہرے دوست، غم گسار اور ہمدرد ہیں اور پاکستان بھی ان ممالک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، چین و ترکی اس وقت پاکستان کی اقتصادی ترقی میں برابر کے شریک ہیں۔ چین اور ترکی نے اس خلا کو بھی پاٹنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک جاپان، امریکا اور عرب کی طرف سے آنیوالی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی تھی۔
سی پیک ایک بڑے ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے، جس میں 60 سے زائد ممالک شامل ہیں، جو چھ مختلف راہداریوں کے ذریعے ایک نئے عالمی نظام سے منسلک ہونیوالے ہیں۔ سی پیک کی افادیت دوسرے ممالک میں بھی بڑھتی جا رہی ہے اور اب برطانیہ بھی سی پیک کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ دوسرے ممالک بھی اقتصادی راہداری کے حصے دار بنیں گے۔
اقتصادی راہداری کو گیم چینجر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور دوسرے ملکوں نے مل کر جو نظام بنایا تھا اب موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت وہ نہیں رہی، جو ماضی میں تھی، اس کی وجہ دوسرے ملکوں نے اس نظام کو اپنالیا انھی میں چین بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے بعد عالمی منڈیوں تک تجارت کو فروغ دیا ہے اور اب اس نے مزید ترقی اور فوائد کے لیے پاکستان کے راستے اقتصادی راہداری کا منصوبہ بنایا۔ اس سے یہ ہوگا کہ چین کو کئی ہزار کلومیٹر بحری سفر کی بچت ہوگی۔
بے شک زندہ قومیں، زندہ لوگ اسی طرح ترقی کا سفر کرتی اور دوسروں کو بھی شرکت کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ہمارے اپنے ملک پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے، اگر مقتدر حضرات میں قومی حمیت ہوتی تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ پورا ملک ان کا، اور ان کی اولاد کا ہے۔
پاکستان کی ہر قیمتی چیز پر اپنا اور اپنے خاندان کا حق سمجھتے ہیں، ان کی عیش پرستی کی وجہ سے کراچی جیسا بڑا شہر لاوارث بن گیا ہے۔ اب ہمارا پڑوسی ملک تمام ملکی امور انجام دے گا، بجلی، ٹیلی فون اور ایسے ہی دوسرے اداروں کو بھی درست کرنے کا ٹھیکہ اس نے لے لیا ہے، حتیٰ کہ کراچی کی شاہراہوں پر جمع ہونیوالے کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو ہٹانے اور صفائی کرانے کی ذمے داری بھی اس نے اٹھالی ہے، اس سلسلے میں چین سے مشینری آنیوالی ہے، ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی اس کے ہی ذمے ہیں۔
سی پیک کی مستقل کامیابی تو اسی وقت ممکن ہے جب مخالف قوتوں کا خاتمہ ہو، ہمارے اپنے ہی لوگوں میں میر و جعفر موجود ہیں، ان کی نشاندہی اور ان پر گرفت بے حد ضروری ہے۔ بیرون ملک کی طرف نگاہ اٹھائیں تو اس وقت سب سے بڑا مخالف ملک بھارت ہے۔
G-20 سربراہی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملاقات کے دوران چینی صدر شی چن پنگ سے اپنے دلی بغض و عناد بھرے اعتراضات کیے لیکن پاکستان کے دوست چینی صدر نے برجستہ جواب مرحمت فرمایا کہ سی پیک منصوبہ ہر حال اور ہر قیمت میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا، لہٰذا ہمیشہ کی طرح بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، وہ اپنی شکست کا بدلہ سرحدوں پر معصوموں کی جان لے کر کر رہا ہے۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے سیاسی حالات بہتر ہوں، بلوچستان کے سرداروں کو بھی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، اگر وہ محب وطن ہیں، بلوچستان کے عوام کی رہنمائی کے لیے مثبت اصول اور ذرائع روزگار کے مواقع مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے، بلوچستان میں بھارت کی مداخلت زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے، سابقہ جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی نے باغی بلوچوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور اب کچھ بہتری کی صورتحال نے جنم لیا۔
اب چین کے تحت پاکستان کی بدحالی اور اداروں کی خستہ حالی کو درست کرنے کا وقت آگیا ہے، اور اب ہمیں خصوصاً کراچی میں چینی ورکروں اور افسران سے واسطہ پڑے گا، اس کے لیے چینی زبان سیکھنا بھی ناگزیر ہے کہ اپنے دوست سے معاشرتی امور کے سلسلے میں گفت و شنید کی ضرورت تو ضرور پیش آئے گی۔ بقول اس مقولے کے کہ:
یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
اب اس طرح پڑھا جاسکتا ہے کہ:
یارِ من چینی و مَن چینی نمی دانم