پڑوسی

ہم پاکستانی سی پیک منصوبے کو ضرور اہم ترین قرار دے رہے ہیں


عثمان دموہی December 03, 2016
[email protected]

ہم پاکستانی سی پیک منصوبے کو ضرور اہم ترین قرار دے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمران ہم سے کہیں زیادہ اس منصوبے کی اہمیت سے واقف ہیں، جب ہی وہ اسے ناکام بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں وہ اس میں رخنہ ڈالنے کے لیے لائن آف کنٹرول پر روزانہ اندھا دھند فائرنگ کررہے ہیں۔ اپنے ڈرون ہماری سرحدوں کے اندر بھیج رہے ہیں، ساتھ ہی اپنی آبدوز ہمارے سمندر میں بھیجنے کا خطرہ تک مول لے رہے ہیں۔

ہم اس منصوبے کو اپنے پڑوسی ممالک کے لیے نہایت فائدہ مند قرار دے رہے ہیں، ہماری ان ممالک سے مراد ایران، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے ہے مگر یہ بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ روس جیسی عظیم طاقت بھی اس منصوبے میں شرکت کے لیے بے تاب و بے قرار ہوکر ہم سے اس میں شمولیت کی درخواست کردے گی۔ گو کہ اس سلسلے میں روس کے نئی دہلی کے سفارت خانے نے تردید کی ہے مگر اس بابت نہ تو ماسکو اور نہ ہی اسلام آباد سے کوئی بیان جاری ہوا ہے جس سے لگتا ہے کہ دہلی سے جاری ہونے والا بیان بھارتی فرمائش پر جاری کیا گیا ہے۔

بھارتی عزائم خواہ کچھ بھی ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ روسی حکومت سی پیک منصوبے کے فوائد سے آگاہ ہوچکی ہے اس منصوبے میں شمولیت، اس کے لیے اسٹرٹیجک حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں شمولیت سے اس کے صدیوں پرانے خوابوں کی تعبیر پنہاں ہے۔ وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے ایک زمانے سے جد وجہد کررہاہے وہ محض گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے برصغیر پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، مگر ماضی میں اس کی اس خواہش کو انگریزوں نے پورا نہ ہونے دیا لیکن یہ بات اٹل ہے کہ اگر انگریز برصغیر کا رخ نہ کرتے تو روس یقینا بحیرۂ عرب تک پہنچ جاتا۔ افغانستان پر اس کا قبضہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اگر وہ افغانستان میں کامیاب ہوجاتا تو پھر ایران یا پاکستان اس کے اگلے نشانے پر ہوتے۔

اس سے قبل اس نے 1971 کی جنگ میں کھل کر بھارت کا ساتھ دیا تھا اور محض اسی کی مدد کی وجہ سے بھارت ہمارے مشرقی بازو کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا تھا، در اصل وہ بھارت کا اس کی آزادی کے بعد سے بھی ساتھ دے رہا ہے اور اس کے ہر آڑے وقت میں اس کی بھرپور مدد کرتا رہا ہے وہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے خلاف ویٹو بھی استعمال کرتا رہا ہے بھارت نے روس کی دوستی کو ہمیشہ ہمارے خلاف استعمال کیا ہے، بھارت روس سے تقریباً پچاس برس تک مستفید ہوتا رہا ہے مگر افغان جنگ کے بعد وہ معاشی مشکلات میں ایسا گرفتار ہوا کہ اس کی سپر پاور کی حیثیت باقی نہ رہی تو بھارت جو اپنے دوغلے پن کے لیے ہمیشہ سے مشہور ہے امریکا کی گود میں جا بیٹھا۔ البتہ روس سے بھی اپنی وفاداری جتاتا رہا۔ اس وقت وہ امریکا کا اتنا قریبی اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے کہ اسے چین اور روس کی گھیرا بندی کا کام سونپ دیا گیا ہے۔

بھارت اور امریکا کی بڑھتی ہوئی قربتوں پر روس پہلے ہی مشکوک تھا اب اس کے خلاف نئی خبر نے اسے باور کرادیا ہے کہ بھارت اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی خارجہ پالیسی کی پرانی روایت کو توڑ ڈالا ہے اب اس نے نئے دوست بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے پرانے روٹھے دوستوں کو منانا شروع کردیا ہے۔ اب چین سے برہمی ختم کرکے اس سے تعلقات میں نئی گرمجوشی پیدا کرلی ہے، ایران سے بھی تعلقات کو بہتر بنا لیا ہے پاکستان کو دشمنوں کی فہرست سے نکال کر دوست ممالک میں شامل کرلیا ہے۔

روس پاکستان سے متعلق خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے کئی اشارے مل چکے ہیں اس نے اپنا بعض اہم حربی سامان پاکستان کو بھارت کے منع کرنے کے باوجود فروخت کیا ہے پھر سب سے بڑا بریک تھرو گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا جب اس نے اپنے فوجیوں کا ایک دستہ مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینے کے لیے پاکستان بھیجا۔ عین اسی وقت مودی پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے تھے اور اب روس کی سی پیک منصوبے میں شمولیت کی خبر نے جوکہ افواہ ہی کیوں نہ ہو ان کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکی دینے والا بھارت خود تنہائی کا شکار ہوچلا ہے۔ روس کا پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ وہ آزادی کے بعد سے ہی روس کو پاکستان سے دور رکھنے کی پالیسی پر چل رہا ہے۔ چند سال قبل روسی صدر پوتن نے پاکستان کا دورہ کرنے کی حامی بھرلی تھی، یہ پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی تھی مگر بھارت سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور اس نے اپنی پاکستان مخالف سفارت کاری کے ذریعے پوتن کا یہ دورہ ختم کرادیا تھا۔ اب حالات بہت مختلف نظر آرہے ہیں۔

اب لگتا ہے کہ روسی حکومت نے بھارت کو ایک حد تک اپنا دوست رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے اگر بھارت اس وقت روس کو سی پیک منصوبے میں شامل ہونے سے روکنے میں کامیاب بھی ہوگیا تو بھی آنیوالے وقت میں روس کو اپنی معیشت کی بحالی اور اپنے لیے ایک بہتر بندرگاہ کی تلاش میں گوادر بندرگاہ سے ضرور جڑنا ہوگا۔

چین بھی اپنی تجارت کو مزید وسعت دینے کے لیے ہی اس منصوبے سے نہ صرف جڑا ہے بلکہ اس کا مالی معاون و مددگار بھی بنا ہے اس منصوبے کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لینے کی وجہ سے بھارت چین سے پہلے سے زیادہ برہم ہوگیا ہے وہ پہلے سے ہی پاک چین دوستی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیوںکہ وہ اس دوستی کو خطے میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خیال کرتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔

پاک چین دوستی کی وجہ سے ہی بھارت کے چھوٹے پڑوسی ملک اس کی ہوس ملک گیری سے محفوظ ہیں وہ نیپال کو کئی مرتبہ اپنا ایک صوبہ بنانے کی دھمکیاں دے چکا ہے بنگلہ دیش تو خیر ہے ہی اس کا مفتوحہ علاقہ۔ البتہ سری لنکا نے اس کے مذموم عزائم کو پاکستان کی مدد سے ناکام بنادیاتھا ورنہ وہ بھارت نواز تامل ٹائیگرز کے ذریعے کبھی کا بھارت کا حصہ بن چکا ہوتا۔

افغانستان میں اس کی اجارہ داری امریکی آشیر باد کی وجہ سے قائم ہے جس سے روس بھی نالاں ہے جہاں تک سی پیک کی اہمیت کا تعلق ہے ایران بھی اس سے متاثر ہے اور اس نے اس میں شمولیت کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک بھی اس منصوبے سے جڑنے کی خواہش رکھتے ہیں کیوںکہ گوادر بندرگاہ ان کے لیے ہر لحاظ سے آئیڈیل ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایران کے سی پیک منصوبے سے جڑنے کے بعد بھارت کی چاہ بہار بندگاہ میں کی جانے والی ساری سرمایہ کاری خسارے کا سودا ثابت ہوگی، چنانچہ بہتر یہی ہے کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں سے باز آجائے اور ایک اچھا پڑوسی بننے کی کوشش کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں