سانحہ اے پی ایس والدین اطمینان قلب چاہتے ہیں
امن چوک میں اے پی ایس شہداء کی یادگار تعمیر کی جائے
PESHAWAR:
گذشتہ کالم جو سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق تھا کے دو سال ہونے کو ہیں اور ان عظیم شہید بچوں کی یادیں ابھی تک دلوں میں تازہ ہیں، اسکول کی پرنسپل اور عملے کے دیگر افراد کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا اور ہمیں فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے پاک فوج کے تین اہل کار بھی نہیںبھولے،گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد کئی شہداء کے والدین نے رابطہ کیا آج بھی ان کے حوصلے بلند اور عزم جواں تھا کہ مادر وطن کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دینے پروہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی کامیابی اس ملک و قوم کے کام آئی اور اب اس ملک سے دہشت گردی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جانا چاہیے۔
شہدا ء کے والدین آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ملنے والی کامیابیوں پر بھی خوش ہیں البتہ انھیں پریشانی اس بات کی ہے کہ کہیں دہشت گردی کا عنصر کسی دوسری شکل میں پھر آ نہ جائے۔شہید اسامہ ظفر کے والد دفتر تشریف لائے ان کا وہ بیٹا بھی ہمراہ تھا جس نے اس سانحہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی کو اس دھرتی پر قربان ہوتے بھی دیکھا ۔میں نے پوچھا کہ بیٹا وہ واقعہ یاد آتا ہے۔ کہنے لگا جی یاد آتا ہے!اس دن جو کچھ ہوا سب یاد ہے لیکن اگر بچانے والے جلدی آ جاتے تو بہت سے بچے بچ جاتے!اسامہ ظفر کے چھوٹے بھائی کو تو ریسکیو کروا لیا گیا لیکن اسامہ جو فائرنگ سے شدید زخمی ہو گیا تھا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہو گیا۔
ظفراقبال بھی ان والدین میں شامل ہیں جنہوں نے اس واقعہ کی عدالتی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ۔مظاہرے کیے،احتجاج کیا اور صرف یہ مطالبہ کیا کہ اس قدر بڑے سانحے پر خاموشی کسی بھی طور بہتر نہیں اور خاموشی اختیار کی گئی تو نہ صرف سیکیورٹی اداروں کی جانب انگلیاں اٹھیں گی بلکہ شاید سیاستدانوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ کیا جا سکے۔سیاست دان تو کسی نہ کسی طور اکھٹے ہو گئے اور پھر اس کے نتیجے میں آرمی نے آپریشن ضرب عضب بھی شروع کر دیا ساتھ میں نیشنل ایکشن پلان پر بھی کام کا آغاز ہو گیا لیکن دو سال گذرنے کے بعد بھی اے پی ایس شہداء کے والدین یہ جانتے ہوئے کہ ان کے بچے واپس نہیں لوٹیں گے آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔
ظفر اقبال سے میں نے پوچھا کہ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ اے پی ایس سانحہ کی عدالتی انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ خیبر پختون خوا میں درجنوں نہیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں بم دھماکے ہوئے ان میں بیسیوں بلکہ کئی سو خود کش دھماکے تھے اور کبھی بھی کسی واقعہ کی عدالتی انکوائری نہیں ہوئی ! ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے بچے واپس نہیں لوٹیں گے اور شاید حکومت سمیت سبھی اس واقعہ کو بھول جائیں لیکن جن کی آنکھوں کی روشنی اس سانحہ میں چلی گئی وہ مرتے دم تک اپنے پیاروں کو نہیں بھول سکتے اور صرف اے پی ایس شہداء کے والدین ہی نہیں بلکہ کسی بھی دھماکے میں شہید ہونے والے کسی بھی شخص کے رشتہ دار دوست احباب کسی بھی طور اپنوں کو نہیں بھول سکتے مگر اس واقعہ کی نوعیت بھی تو فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ایک ایسا اسکول جو انتہائی اہم اور حساس مقام پر واقع تھا کس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنا اور سول انتظامیہ کس طرح بے بسی کی تصویر بنی رہی، یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب بغیر عدالتی انکوائری کے مل ہی نہیں سکتے۔ظفر اقبال کہتے ہیں کہ والدین آج بھی چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جس کی روشنی میں ذمے داران کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔عمران خان جنہوں نے بلند و بانگ وعدے کیے تھے، شہداء کی جانب سے وکیل بن کر وفاق کے خلاف مقدمہ لڑیں گے۔شہید بچوں کی عظیم قربانی کے شایان شان بغیر کسی درجہ بندی کے سرکاری اعزازات دیے جائیں۔
امن چوک میں اے پی ایس شہداء کی یادگار تعمیر کی جائے۔وہ لائبریری جس کے بارے میں عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اعلان کیا تھا کہ اسے شہداء اے پی ایس کے نام سے منسوب کر دیا جائے گا بلا تاخیر اس اعلان کوعملی جامہ پہنایا جائے۔ہر سال سولہ دسمبر کو عام تعطیل کا اعلان کیا جائے اور خیبر پختون خوا سمیت سارے ملک میں سرکاری سطح پر دعائیہ تقریبات منعقد کی جائیں۔صوبائی اور وفاقی سرکاری اداروں میں شہداء کے بہن بھائیوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں اورپاکستان آرمی ان شہید بچوں کو ضرب عضب کا شہید قرار دے کر اعزازی کپتان کا عہدہ دے ۔
پہلے ان مطالبات پر بات ہو جائے کہ سوال یہ ہے کہ شہداء کے لواحقین خاص طور پر ان کے والدین کو آخر کیا پڑی ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبات کر کے اپنا غم خود ہی تازہ کر دیتے ہیں ؟اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے بچوں کو جس بے دردی سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور جس طرح ان کے گلے کاٹے گئے وہ زخم کسی بھی طور مندمل نہیں ہو سکتے اس کے بدلے میں حکومت نے بیس بیس لاکھ روپے دے دیے ،جو اسکول کا عملہ تھا ان کے لواحقین کو لگ بھگ اسی اسی لاکھ روپے ملے، بعض کو ستارہ امتیاز اور زیادہ تر کو تمغہ امتیاز ملا ۔
ایک تمغے کے ساتھ چھ چھ لاکھ روپے اور دوسرے تمغے کے ساتھ دیگرمزید سہولتیں بھی تھیں ان اقدامات نے بھی شہید بچوں کے والدین کے دل و دماغ کو منتشر کردیا، اسی طرح ان کا یہ مطالبہ کہ کم از کم ایف آئی آر تو درج کی جائے کیونکہ جو ایف آئی آر پہلے درج تھی اسے سیل کر دیا گیا تھا وہ محض چند سطری ایف آئی آر تھی جس نے شہیدوں کے لواحقین کا سینہ چھلنی کر دیا ۔والدین مطالبہ کرتے ہیں کہ عدالتی کمیشن بنایا جائے تاکہ اس سانحہ کے ذمے داران کا تعین کیا جا سکے تو آخر قباحت کیا ہے کیونکہ پاکستان آرمی نے تو اس واقعہ میں کوتاہی برتنے والوں کے خلاف پہلے ہی کارروائی کر لی ہے تو اب اگر سول انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں اور والدین چاہتے ہیں کہ کمیشن بنایا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟
کیا ماضی میں بننے والے کسی ایک کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہوا؟ کیا کسی کو سزا ملی ؟ تو جن شہیدوں کے والدین اپنا اطمینان اس میںجانتے ہیں کہ ایک کمیشن بنا دیا جائے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ عمران خان نے پشاور میں پہلے سے قائم آرکائیوز لائبریری کو شہدا ء اے پی ایس کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا تو پھر اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود اس کا نام تبدیل کیوں نہیں کیا جا سکا؟آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اسامہ شہید کے والد نے انھیں ملنے والے بیس لاکھ روپے ابھی تک امانت کے طور سنبھال رکھے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کا دل یہ رقم خرچ کرنے کو نہیں کرتا کہ یہ گمان نہ ہو کہ ان کے بیٹے کی قیمت بیس لاکھ روپے لگائی گئی!وہ اور بہت سے والدین یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں پیسے کی ضرورت نہیں صرف اطمینان قلب درکار ہے تو پھر آخر ہماری حکومتیں انھیں یہ اطمینان قلب کیوں نہیں دے پا رہیں؟دوسری طرف پشاور ہائی کورٹ میں دائر تین مقدمات بھی ہیںکہ ان پر کارروائی کب ہوتی ہے۔