بغیر سماجی انصاف کے امن کا تصور
ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے
KARACHI:
ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے، محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا بھی ہے تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف اور اس پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔ نجکاری، رائٹ سائزنگ اور ڈاؤن سائزنگ کے نام پر ان کا استحصال اور انھیں بے روزگار کیا جاتا ہے۔ ٹھیکیداری نظام یا تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ بھی محنت کشوں کے استحصال کی جدید صورتیں ہیں۔
چونکہ حکمرانوں کا تعلق جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے ہے اس لیے وہ مزدوروں کے حقوق اور مزدور راج کی نعرہ بازی تو ضرور کرتے ہیں مگر محنت کشوں کو اپنے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انھیں محنت کشوں کی حالت زار سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ ان کے مفادات کا تحفظ مزدوروں کی صفوں میں موجود ان کے پیشہ ور کارندے کرتے ہیں۔ ایسے مزدور لیڈر پاکٹ یونینز اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو سرکاری اداروں کی لوٹ مار اور تباہی میں حکمرانوں کے دست و بازو کا کام کرتے ہیں۔
یہ لوگ مزدوروں کے نام پر سیمینار، کانفرنسیں اور ریلیاں منعقد کرتے، وعدے وعید اور دل فریب نعرے اور اعلانات تو کرتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ مزدور مفادات اور ان کے حقوق کے تحفظ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور تعطل سیاسی جماعتیں، ان سے وابستہ اور پاکٹ یونینز، لیبر ڈپارٹمنٹ اور لیبر کورٹ ہیں۔ پچھلے ہفتے سپریم کورٹ میں عدالتی احکامات کی روشنی میں سروس ٹریبونل کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری میں چیف جسٹس سے مشاورت نہ کرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ سروس ٹریبونل ایک اہم ادارہ ہے جس پر پوری سول سروس کا انحصار ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سروس ٹریبونل کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے حوالے سے کوئی رولز نہیں ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رولز نہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ منظور نظر افراد کا تقرر کیا جائے تاکہ مرضی کے فیصلے کرائے جاسکیں؟ اگر رولز آف بزنس نہیں ہے تو یہ ایک طرح کی بادشاہت ہے۔ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، دوسری جانب بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ ریٹائر لوگ تو اپنی اننگز کھیل چکے ہوتے ہیں، انھیں کام میں دلچسپی نہیں ہوتی مگر وہیل چیئر پر لاکر انھیں اداروں کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ 70/80 سال کے لوگوں کی تقرری کی جاتی ہیں جو مشکل سے کسی کا ہاتھ پکڑ کر آئیں، وہ آخر کیا کام کریں گے۔ اگر یہاں عمر کی حد مقرر نہیں تو 80-70 سال کے لوگوں کا تقرر ہوگا۔ فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ چیئرمین نے دو سال میں صرف دو فیصلے کیے ہیں۔
زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو مزدوروں سے نہیں اپنے مفادات سے دلچسپی ہے۔ مزدور دوستی کا نعرہ تو محض ڈھونگ ہے۔ جب ان کا مفاد ہوتا ہے تو اداروں میں کود پڑتے ہیں، مزدوروں کو بے روزگار اور اداروں کو بند کرا دیتے ہیں۔ اداروں میں انتظامیہ سے لے کر مزدور یونینز تک لوٹ مار اور کرپشن اور اس کی پشت پناہی میں انھی سیاسی شخصیات اور جماعتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل انھی کی لوٹ مار اور دخل اندازیوں سے مکمل تباہی سے دوچار ہوچکا ہے، جہاں پیداوار بند ہے، مشینیں خاموش اور محنت کش خوفزدہ اور سہمے ہوئے ہیں، اب ان کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہیں ہے۔
انھیں کئی کئی ماہ کے بعد کچھ رقم ادا کردی جاتی ہے، ملازمین میں بیماریوں اور اموات کی شرح بڑھ گئی ہے، ریٹائر اور مر جانے والے ملازمین کے لواحقین واجبات سے محروم ہیں، مگر ادارے اور ان کے ملازمین کی بحالی کے لیے مزدوروں کا کوئی ہمدرد و مسیحا ایوانوں میں آواز نہیں اٹھاتا ہے۔ کبھی کوئی ملازم تنخواہ نہ ملنے پر اسٹیل ملز کی بلڈنگ سے کود کر خودکشی کرتا ہے تو کبھی کوئی ریٹائر ملازم واجبات نہ ملنے پر سوک سینٹر سے کود کر مر جاتا ہے۔ اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کرنے پر سرعام لاٹھیاں کھاتے اور واٹر کینن سے بہتے نظر آتے ہیں۔ خود سوزی اور بچے فروخت کرنے کے واقعات تک رونما ہورہے ہیں۔ کوٹ ادو سے خبر آئی ہے کہ جگر کے مرض میں مبتلا شخص مسلسل 4 ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کے باعث بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگیا، جنازے میں ملازمین اور شہریوں نے ٹی ایم او کے خلاف احتجاج کیا۔
ردعمل کے خوف سے افسران نے اس کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی۔ ایسے بے شمار واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں لیکن صاحب اقتدار و اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے، انھیں تو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ قوم کے ان خادموں نے ایک قرارداد کے تحت خود ہی اپنی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فی صد کا اضافہ کرلیا ہے۔ یہ اتنے غریب ہیں کہ ٹیکس تک نہیں دیتے ہیں، جب کہ یہ کلرکوں اور چپڑاسیوں تک کی تنخواہوں سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ انھیں چند ٹکوں کے عوض اعلیٰ و انواع اقسام کے کھانوں کی سہولت حاصل ہے، جدید لائبریری کی سہولت ہے، جس سے کوئی بھولا بھٹکا کبھی کبھار استفادہ حاصل کرلیتا ہے، ورنہ یہ ویران رہتی ہے، علاج و معالجہ، سفر وغیرہ کی سہولیات ان کے علاوہ ہیں۔
یہ لوگ ایوانوں سے غیر حاضر رہتے ہیں یا پھر اپنے اپنے خلفشار اور مشن میں مصروف رہتے ہیں۔ قانون سازی اسمبلیوں کا بنیادی کام ہوتا ہے لیکن کام آرڈیننسوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں خود چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جمہوری دور میں آرڈیننس لائے جارہے ہیں، کیا پارلیمنٹ کام نہیں کررہی ہے؟ اسمبلیوں میں کورم پورا نہیں ہوتا، بائیکاٹ اور استعفوں کے نام پر ہفتوں، مہینوں غائب رہا جاتا ہے اور اس دورانیہ کی تنخواہیں بھی وصول کرلی جاتی ہیں۔ تنقید اور شور شرابے پر کہا جاتا ہے کہ یہ رقم وہ خیراتی ادارے کو دے دیںگے، یعنی حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ۔ انھیں یہ حق کس نے دیا کہ قوم کی خون پسینہ کی کمائی اور سرکاری خزانے کو خیرات کے طور پر بانٹیں۔ تنخواہوں میں اضافے پر کہا جاتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ابھی بھی یہاں تنخواہیں کم ہیں۔
لیکن اپنے شہریوں کو حاصل سہولیات اور مراعات کا ان کے ملکوں کے شہریوں سے موازنہ نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ محنت کشوں کی نشستوں پر بھی کاروباری شخصیات براجمان ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں عدالت نے حکم دیا ہے کہ مزدوروں کی نشست پر صرف وہی شخص انتخاب لڑنے کا اہل ہوگا جس کا ذریعہ معاش جسمانی مشقت سے ہوگا۔ فیصلے میں مزدور کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ''معاش کے لیے جسمانی مشقت پر یقین رکھنے والا مزدور کی تعریف پر پورا اترتا ہے''۔
قتل و غارت گری، لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ، کرپشن، دہشت گردی وغیرہ ان سب کی بنیاد سماجی ناانصافی اور قانون کا اطلاق نہ ہونے، محنت کے عالمی ادارہ ILC، جو مزدور مفادات کے تحفظ کا عالمی ادارہ ہے، اس کا سلوگن بھی یہی ہے کہ ''امن کا تصور بغیر سماجی انصاف کے نا ممکن ہے''۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایل او کی توفیق کردہ سفارشات اور ISO کے معیارات پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ مزدور قوانین تو سرمایہ داروں کے جوتے کی نوک پر ہوتے ہیں، ان کے اطلاق کے ذمے دار ادارے اپنی ہوس اور مفادات کی خاطر ان کے دست و پا بنے ہوئے ہیں، حکمرانوں کی یہ نفس پرستی اداروں اور ملک کو مکمل طور پر تباہی و بربادی سے دوچار کردے گی۔ حکمرانوں کو کم از کم اپنے مفادات کے لیے ہی اس پہلو پر سوچ بچار کے لیے وقت نکال لینا چاہیے۔