جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں پانچویں قسط

یہ جمہوریت تو نہیں ہے، بادشاہت ہے اور بادشاہت میں امیدیں ٹوٹتی ہیں تو ٹوٹ جائیں مگر اعتراض کی اجازت نہیں۔


شاہد کاظمی December 10, 2016
جس جاگیردارانہ نظام سے قیام پاکستان کے وقت جان چھڑانے کا تہیہ کیا گیا تھا وہ اب بھی جونک بن کر نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے پاکستان کو چمٹا ہوا ہے۔

وفاق کی تمام اکائیاں آئینی ترامیم کے بعد نہ صرف تتربتر محسوس ہورہی ہیں بلکہ وفاق خود بھی بپھرے ہوئے سمندر کے درمیان ڈولتی ناؤ جیسا منظر پیش کررہا ہے۔ تمام مسائل کا منبع صوبے، وفاق کو اور وفاق تمام تر ذمہ داری صوبوں پر ڈال رہا ہے۔ عوام نے جو امیدیں اپنے معزز اراکین اسمبلی سے وابستہ کی تھیں وہ آہستہ آہستہ آخری ہچکیاں لے رہی ہیں، لیکن کمال دیکھیے کہ اِن تمام تر مسائل کے باوجود بھی جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔

عوام اپنے حقوق کے لئے خود سوزیاں کر رہی ہے مگر جمہوریت کا درخت خوب سرسبز و شاداب ہے اور اپنی شادابی پاکستان براستہ دبئی، قطر و انگلستان خوب دکھا بھی رہا ہے۔ پاکستان میں تو حیران کن طور پر سیاسی پارٹیوں کے دنگل کو بھی جمہوریت کا حُسن کہا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گالم گلوچ کو بھی جمہوریت کے زیور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نہ جانے اب یہ زیور دلہن جمہوریت کا ہے یا باندی جمہوریت کا۔

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)

اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (دوسرا حصہ)

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (تیسرا حصہ)

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (چوتھا حصہ)

ذکر خیر کریں ذرا پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے تیسرے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے صوبے سندھ کا۔ اس صوبے کی پہچان نہ تو مزار قائد اس طرح سے بنا ہے نہ ہی اس کا خوبصورت ساحل بلکہ اِس کی پہچان وہاں موجود سیاسی جماعتوں کی مسلح محاذ آرائی بنی ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے کی پہچان یہ ہے کہ یہاں لانچوں سے اربوں روپے نکلتے ہیں۔ اس صوبے میں لوگ بھوک کی وجہ سے سالانہ طور پر درجنوں یا سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن جاتا ہے، مگر پھر بھی حکمراں ٹولہ یہاں سندھ فیسٹیول اور ثقافت کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتی۔ اس صوبے نے پچھلے کچھ عرصے میں اتنی زیادہ ترقی کرلی ہے کہ عوام کو اب کوئی امید کم ہی ہے۔ یہاں حکومت تو ہے مگر چلتی باہر سے ہی ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی ادارہ کسی وزیر، مشیر، افسر، صاحب کو کرپشن پر ہاتھ ڈالنا چاہیئے تو بیرون ملک جانے کے بہت اچھے انتظامات کئے جاتے ہیں تاکہ پہلے ہی اڑن چھو ہو لیا جائے۔

سندھ میں عوام کسی بھی قسم کی کوئی امید اب نہیں رکھتے۔ شہری علاقوں میں پہلے بس گولی کا انتظار ہوتا تھا مگر اب کچھ خلاصی ہوئی ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں تو یہی امید باقی ہے کہ شاید وڈے صاحب دو وقت کی روٹی عزت سے دے دیں۔ صوبہ سندھ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اول تو میثاق قائم رکھنے کے لئے وفاق کچھ کرے گا نہیں لیکن کسی اور کو دکھانے کے لئے وفاق کوئی حرکت کرنے کی کوشش بھی کر لے تو سندھ کارڈ کا استعمال یہاں کا حکمراں ٹولہ فوراً سے پہلے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ وادیِ مہران میں باقی سب آتے جاتے رہتے ہیں بس رہنما ہی مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں، اور رولا صرف عوام کا ہے جو بے چارے زندہ رہتے ہوئے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

بھلا ہو ہمارے سیکورٹی اداروں کا ورنہ پہلے تو صوبہ سندھ کا یہ عالم تھا کہ بس زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑتی تھی۔ ایک کچی پینسل لی، ایک کاغذ کا ٹکڑا لیا اور اس پہ آڑھے ترچھے حروف ڈال کر ایک تیس روپے کی گولی اس میں ڈالی اور کسی بھی مخصوص پتے پر بھیج دی اور چند ماہ کے لیے اللہ اللہ خیر صلا۔ کرپشن اسکینڈل کی بات کیوںکہ پرانی ہوچکی ہے لہذا میگا کرپشن اسکینڈل کی نئی اصطلاح بھی صوبہ سندھ کی پہچان بنتا جارہا ہے۔ رینجرز اختیارات کا معاملہ ہو، یا کرپشن کا قلع قمع، بلدیہ فیکٹری کا معاملہ ہو یا شپ بریکنگ یارڈ کا مسئلہ صوبہ سندھ میں ہر معاملہ بنا متنازعہ ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

تعلیم کا صوبے میں یہ حال ہے کہ ماضی کے تعلیمی اداروں میں شعور سے زیادہ سے دہشت گردی کے تانے بانے بُنے جاتے رہے ہیں۔ صفورا گوٹھ کے پڑھے لکھے دہشت گرد واضح مثال ہیں۔ سندھ کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابلتے گٹر عوام کی زندگی اجیرن بنا چکے ہیں۔

حکومتی جماعت کے بڑے، کرپشن اور لوٹ مار کی پکڑ سے بچنے کے لیے دیارغیر سے پارٹیاں چلا رہے ہوں، مگر پاکستان کھپے۔ پاکستان کے صنعتی حب کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹا جا رہا ہو مگر پاکستان کھپے۔ عوامی شاہرائیں سیاسی بالکوں کی حفاظت کی خاطر جب چاہے بند کردی جائیں مگر پاکستان کھپے۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ جس جاگیردارانہ نظام سے قیام پاکستان کے وقت جان چھڑانے کا تہیہ کیا گیا تھا وہ اب بھی جونک بن کر نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے پاکستان میں کو چمٹا ہوا ہے۔ یہ جمہوریت تو نہیں ہے، بادشاہت ہے اور بادشاہت میں امیدیں ٹوٹتی ہیں تو ٹوٹ جائیں مگر اعتراض کی اجازت نہیں، سہنا واجب ٹھہرتا ہے۔ چاہے عزت لٹے، سہہ جاؤ، مال لٹے سہہ جاؤ، جان لٹے سہہ جاؤ، کیوںکہ سوال کیا تو جمہوریت پر شب خون کے مترادف ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں