آتشزدگی کے بعد مشکل صورتحال میں ہمارا کردار

سوائے بمباری یا بوائلر پھٹنے کےکوئی آگ شروع سے ہی بڑی نہیں ہوتی۔ معمولی سمجھداری اور کوشش سےاس پر قابو پایا جاسکتا ہے


محمد نعیم December 06, 2016
اِس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر شہر میں موجود تمام بڑی عمارتوں کی اسکرونٹی کی جائے، اور ان عمارتوں کے مالکان و انتظامیہ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ان بنیادی سہولیات کا بندوبست کریں۔ فائل فوٹو

اتوار اور پیر کی درمیانی شب کراچی کے ایک معروف ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں لگی آگ نے 12 انسانی جانوں کو نگل لیا۔ اگر یہ آگ کسی گنجان آبادی والے علاقے کی عمارت یا کسی عام ہوٹل میں لگتی تو شاید اتنے سوالات نہ اٹھتے مگر یہاں یہ حادثہ ایک ایسے ہوٹل میں پیش آیا، جہاں موجود بہترین سہولیات کے باعث پاکستانیوں کے علاوہ دیگر ممالک کے مہمان بھی یہیں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ اِس ہوٹل میں ایمرجنسی راستے یا فائر الارم و فائر سیفٹی کا انتظام نہ ہو، بلکہ سب چیزوں کی موجودگی کے باجود لوگوں نے جان بچانے کے لیے گھبرا کر کھڑکیوں سے کودنے کی کوشش کی، جس کے باعث نقصان زیادہ ہوا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ اور کمشنر کراچی کی جانب سے بھی اس حادثے کے فوراً بعد نوٹس لینے کے بیانات اور تحقیقات کا حکم دینے کی ہدایات سامنے آئی ہیں۔ دیکھا جائے تو ہر حادثے کے بعد اس نوعیت کی بیان بازی ایک روٹین سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ دو چار روز میں حکم دینے والے اور تعمیل کرنے والے دونوں بھول چکے ہوں گے کہ کچھ ایسی بات بھی ہوئی تھی۔ پھر ایسا ہی ایک اور بیان کسی نئے سانحے کے رونما ہونے پر داغا جائے گا۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی کتنی کثیر المنزلہ رہائشی و کمرشل عمارتوں میں ایمرجنسی کی صورت میں اخراج کے ہنگامی راستے، ان پر لکھی ہدایات اور فائر فائیٹنگ کا نظام موجود ہے؟ اس بات سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، میئر کراچی وسیم اختر، کمشنر کراچی اعجاز احمد خان بخوبی واقف ہیں۔ ان کے علاوہ ان عمارتوں میں جانے والے لاکھوں عام شہری بھی جانتے ہیں کہ وہ جہاں رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں اس جگہ اس نوعیت کی کوئی سہولت یا تو موجود ہی نہیں ہے یا اگر خانہ پوری کے لئے ہے بھی تو اس حالت میں کہ ضرورت پڑنے پر کسی کام نہ آسکے۔ اگر میری بات پر یقین نہیں آرہا، تو کسی بھی عمارت میں نمائشی طور پر لگے چھوٹے چھوٹے آگ بجھانے کے آلات fire extinguisher دیکھ لیں، وہ ایکسپائر ہوچکے ہوں گے اور میعاد ختم ہونے کے بعد ان آلات کی کارکردگی صفر ہوجاتی ہے۔

اِس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر شہر میں موجود تمام بڑی عمارتوں کی اسکرونٹی کی جائے، اور ان عمارتوں کے مالکان و انتظامیہ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ ان عمارتوں میں ہنگامی اخراج کے لیے راستوں، اسموک الارم، فائر الارمنگ اور فائر فائٹنگ سسٹم کی تنصیب کو لازمی قرار دیا جائے۔ ان عمارتوں کے مالکان مختلف چارجز اور کرائے کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے لوگوں سے حاصل کرتے ہیں، بدلے میں عوام کا حق ہے کہ ان کی حفاظت کے لئے بھی کچھ اقدامات کئے جائیں۔

اپنے گزشتہ بلاگ میں حادثات کی صورت میں عوام کی رہنمائی کے لئے کچھ باتیں تحریر کی تھیں۔ اس تحریر کے بقیہ حصے میں وہ کام کی باتیں درج کروں گا کہ اگر کہیں آگ لگ جائے تو اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یاد رکھیں، سوائے بمباری یا بوائلر پھٹنے کے کوئی آگ شروع میں زیادہ بڑی نہیں ہوتی۔ معمولی سمجھداری اور کوشش سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں سول ڈیفنس کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا ہم بہت سے وہ نقصان اٹھاتے ہیں جن میں سے 99 فیصد سے بچاؤ ممکن ہے۔


آگ کیسے لگتی ہے؟


آگ لگنے کے لیے ایندھن (کوئی بھی آتش گیر مواد، ٹھوس، مائع یا گیس) آکسیجن اور ایندھن کا درجہ حرارت بڑھ جانا یہ تین عوامل ضروری ہوتے ہیں۔

آگ کو ختم کرنے کے لیے تین میں سے کوئی ایک چیز ختم کردیں آگ ختم ہوجائے گی۔

 

آگ کیسے بجھائی جائے؟


پہلے تو دھیان سے آگ کا جائزہ لیجئے، آگ کو پھیلنے کے لئے ایندھن چاہئے، اگر آپ قریب سے جلنے والی چیزیں ہٹادیں تو آگ خود بخود تھوڑی دیر بعد ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح آگ پر کوئی فوم یا مٹی وغیرہ ڈال کر اس تک آکسیجن پہنچنے سے روک دی جائے تو بھی آگ فوراً بجھ جاتی ہے۔

جلنے والی چیز کے کوئلے کو پانی میں بھگو کر ٹھنڈا کردیں تاکہ وہ دبارہ نہ جل سکے۔

 

آگ کیسے پھیلتی ہے؟



  • اس بات کا علم اور تجربہ ہونا ضروری ہے کون سی چیز کتنی جلتی ہے۔

  • عام طور پر لکڑی اور کوئلہ زیادہ جلتے ہیں۔ اس کے بعد قالین اور پھر چادریں وغیرہ۔
    لٹکی ہوئی چیزیں مثلاً پردے وغیرہ جلدی آگ پکڑتے ہیں۔

  • اگر چھت پر آگ لگے تو پہلے سائیڈ پر جاتی ہے اور اگر چھت لکڑی کی ہے تو انگارے جل کر گرنے سے آگ نیچے آتی ہے۔

  • اگر فرش پر آگ لگے تو پہلے اوپر چڑھتی ہے پھر کھلی کھڑکیوں یا دروازوں کی طرف آتی ہے کیونکہ وہاں سے آکسیجن ملتی ہے۔

  • ایک عمارت سے دوسری عمارت تک آگ لکڑی کے شیڈز وغیرہ یا کھلے دروازوں کی وجہ سے جاتی ہے۔


آگ والی جگہ سے نکلنا



  • گھبرائیں نہیں حوصلے سے کام لیں۔ اگر آپ پریشان نہ ہوں تو آپ بچ بھی جائیں گے اور دیگر لوگوں کو بچانے میں بھی کامیاب ہوجائین گے۔ عام طور پر حادثے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا بھگدڑ سے ہوتا ہے۔ ریجنٹ پلازہ میں ہنگامی اخراج کے راستے تو موجود تھے مگر آگ لگنے کے خوف نے لوگوں کو کھڑکیوں سے کود جانے پر مجبور کردیا۔

  • کوشش کریں جہاں آپ جا رہے ہیں یا کام کرتے ہیں وہاں ایمرجنسی کی صورت میں متبادل راستوں کا آپ کو علم ہو۔

  • فائر ریسکیو والوں کو فون کریں اور اطمینان سے اپنی لوکیشن بتائیں۔

  • اپنے منہ پر گیلا کپڑا، گیلا رومال رکھ لیں۔

  • اگر کمرے میں دھواں بھر جانے کی وجہ سے یا اندھیرا ہوجانے کے باعث نظر نہیں آرہا تو دیوار کے ساتھ لگ جائیں اور ٹٹول کر دروازے یا کھڑکی تک پہنچ جائیں اور کسی کو آواز دیں۔

  • دھواں اور ہوا گرم ہوکر اوپر اٹھتی ہے لہٰذا آپ جتنا فرش کے قریب ہوں گے اتنا ہی دھویں سے محفوظ رہنے میں کامیابی ممکن ہے۔

  • بند دروازے کے ہینڈل کو نہ پکڑیں۔ پہلے ہاتھ کی پشت سے دروازہ چیک کریں۔ اگر گرم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دوسری طرف آگ ہے۔ ہینڈل چونکہ دھات کا بنا ہوتا ہے لہٰذا فوری پکڑنے سے ہاتھ جلنے کا خدشہ ہے۔

  • آپ ایسی جگہ پھنس گئے ہیں جہاں سے چھلانگ لگانی ضروری ہوجائے تو قدموں پر بیٹھ کر نہ لگائیں بلکہ اپنے ہاتھوں پر باہر لٹک جائیں۔ اس طرح آپ 7 فٹ تک فاصلہ کم کر لیں گے۔ اس طرح کمرے میں موجود رسی، چادر، کمبل کو استعمال کریں۔ ایک سرا کسی پائپ یا بیڈ سے باندھ دیں، دوسرے سے لٹک جائیں۔

  • اگر نچلی منزل پر آگ لگی ہے تو کھڑکیاں دروازے بند کرلیں۔ اس آگ کو آپ تک پہنچنے میں کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔

  • اگر آپ کو آگ لگ گئی ہے یا خاص طور پر خواتین کو کچن میں کپڑوں میں آگ لگ جائے تو بالکل نہ بھاگیں۔ زمین پر اپنے آپ کو رول کریں اور اپنے آپ کو کمبل یا چادر سے ڈھانپیں۔ بھاگنے سے شعلے کو مزید آکسیجن ملے گی اور آگ بھڑکے گی۔

  • فوراً فائر الارم جو خطرے کی علامت ہوتا ہے، اُسے بجایا جائے تاکہ اگر کوئی کسی جگہ پر سو رہا ہے تو وہاں دھواں اور آگے پہنچنے سے پہلے وہ جاگ جائے اور اپنی جان بچانے کی کوشش کرسکے۔

  • بڑی عمارتوں سے نکلنے کے لیے لفٹ استعمال نہ کریں کیوںکہ وہ کسی بھی وقت بجلی بند ہونے سے بند ہوسکتی ہے، اور یوں آپ ایک نئی مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ اِس لیے سیڑھیوں کے ذریعے اترنے کی کوشش کریں۔ اگر آگ نیچے سے اوپر کی جانب لگی ہے تو نیچے جانے کے بجائے عمارت کی چھت پر جانے کی کوشش کریں وہاں آپ زیادہ دیر تک محفوظ رہ سکیں گے۔

  • اگر اسنارکل آچکی ہے تو اشارے یا آواز دے کر اسے اپنی موجودگی کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ وہ آپ کی مدد اور آپ کو نکالنے کے لیے اس جانب آسکے۔



اپنے آپ کو اور اپنے راستہ کو محفوظ کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کریں۔



  • موقع پر موجود دوسرے لوگوں کا آگ میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کرنا

  • تماشا دیکھنے کے بجائے، ٹیم تشکیل دیں

  • ٹیم لیڈر بنائیں جو سب کو ہدایات دے وہ خود سب کی نگرانی کرے۔

  • آگ والی جگہ میں جانے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ بنائیں۔ بالخصوص اپنی آنکھوں اور سانس کو دھوئیں سے بچائیں، کیوںکہ دھواں اندر داخل ہوتے ہی آپ کو حواس باختہ کردے گا۔

  • اگر کسی متاثرہ کمرے میں داخل ہونا ہو تو دروازے کی بجائے کھڑکی توڑیں، کیونکہ وہ شیشے کی وجہ سے جلدی ٹوٹ جائے گی۔

  • اگر بلڈنگ کی سرچنگ کرنا ہو تو اوپر سے شروع کریں۔

  • کمرے کی سرچنگ کرنی ہو تو جوڑے میں جائیں۔

  • لوگ بیڈ یا صوفے کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ ایسی جگہیں لازمی چیک کریں

  • اپنے ہمسائیوں کے بارے میں لازمی معلومات رکھیں تاکہ آپ ایمرجنسی میں مدد کرسکیں۔

  • اگر کسی عمارت کی کھڑکیوں سے کوئی کودنے کی کوشش کر رہا ہے تو نیچے موجود جگہ کو ممکن حد تک اس کے لئے محفوظ بنائیں۔ بعض واقعات میں لوگوں نے نیچے چادریں پکڑ کر، نرم گدے رکھ کر یا ایسی تدابیر کے ذریعے کود جانے والوں کو بڑی چوٹ لگنے سے محفوظ بنایا ہے۔

  • اگر آگ پھیل رہی ہو یا نقصان پہنچانے والی ہو تو فوراً وہاں سے نکل جائیں۔

  • آتشزدگی کے واقعات سے بچنے کی ہدایات۔

  • تمام عمارتوں میں چھت پر چڑھنے کے لئے راستہ / سیڑھی لازمی ہونی چاہیئے۔

  • کھڑکیاں بند رکھنی چاہیے۔


 

پہلے سے کئے جانے والے انتطامات

  • عمارتوں میں اسپرنکلر (sprinklers) نصب ہونے چاہیے جہاں سے آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر پائپ کے ذریعے پانی آگ پر ڈالا جاسکے۔

  • بڑی عمارتوں میں ایمرجنسی اخراج کے راستوں میں بڑے بڑے خصوصی اسٹیکرز لگے ہونے چاہیے جن میں اردو اور انگریزی کے علاوہ دیگر معروف زبانوں میں ہدایات درج ہوں کیونکہ ایسے واقعات میں انسان حواس باختہ ہوجاتا ہے اور سب کچھ بھول جاتا ہے۔

  • اسموک اور فائر الارم ضرور لگائیں۔

  • آگ بجھانے کے آلات ضرور رکھیں، ان کی دیکھ بھال ضرور کریں۔

  • پانی کی بالٹیاں اور پانی کا ذخیرہ ہونا چاہیئے۔

  • رہائشی عمارتوں کے واش روم میں پانی کی بالٹی ہر وقت بھری ہونی چاہیئے

  • گوداموں اور کام کرنے کی جگہوں کو کوڑے سے صاف رکھیں۔

  • مشینوں کے اردگرد پھیلے کارٹن، کپڑے کے ٹکرے اور کاغذ فیکٹریوں میں آگے پھیلنے میں ایندھن کا کردار ادا کرتے ہیں۔

  • تیل والے کپڑوں کو بند ڈبوں میں رکھیں۔

  • پیٹرول سے چلنے والے آلات کو بند جگہ پر شعلے کی موجودگی میں دوبارہ نہ بھریں یا کم از کم اُس وقت جب آلہ گرم ہو۔

  • آتش گیر مایہ کو اچھی طرح سے بند ڈبوں میں رکھیں اور چنگاری پیدا کرنے والی اشیاء سے دور رکھیں۔

  • آتش گیر مادہ کو اچھی ہوا دار جگہوں پر استعمال کریں۔

  • دھاتوں میں لگی آگ کی صورت میں آتش زدہ دھات کی خصوصیات کا علم، قوت فیصلہ اور عقل کے صحیح استعمال کے ذریعے ممکنہ آگ سے آپ بچ سکتے ہیں۔

  • مختلف قسم کی آگ بجھانے والے آلات بازار میں موجود ہوتے ہیں۔ ان آلات پر مختلف نشان لگے ہوتے ہیں جس سے آگ کی قسم کا پتا لگتا ہے۔ جیسا کہ اے، بی، سی اور ڈی۔

  • آگاہ رہیں کہ زیادہ تر آلات شروع کے صرف 40 سیکنڈز میں کام کرتے ہیں۔

  • آلہ چلانے والے کو ایمرجنسی حالات میں بغیر وقت ضائع کئے فورا آلہ چلانا آنا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ آلے کو ہر استعمال کے بعد دوبارہ بھروانا چاہئیے۔

  • ہر آگ کو پانی سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ پٹرول یا تیل سے لگنے والی آگ پر پانی ڈالنے سے وہ مزید پھیلے گی۔

  • ایسا فیوز کبھی استعمال نہ کریں جو کسی مخصوص سرکٹ سے زیادہ ریٹ کا ہو۔

  • جس کسی بھی برقی آلے یا مشین سے عجیب بدبو آرہی ہو اُس کو اچھی طرح پرکھیں کیونکہ ممکنہ طور پر اِس قسم کی بدبو ممکنہ آگ کی پہلی علامت ہوتی ہے۔

  • بجلی کے آلات اور وائرنگ کو پردوں، کارپٹ اور لکڑی کے الماریوں وغیرہ سے دور رکھیں۔

  • فیکٹری مالکان، ہوٹلز کی انتظامیہ اور رہائشی عمارتوں کی یونین وہاں کے رہائشی افراد کے لئے ایسی ورکشاپس ضرور کروائیں جن میں انہیں آگ کے آلات کا صحیح استعمال، آگ لگنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر و حفاظتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کریں۔


[poll id="1277"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں