جلتی کتابیں اور روشنی
ایمر سن کہتا ہے ’’ہر جلتی کتاب دنیا کو روشن کر دیتی ہے‘‘
ایمر سن کہتا ہے ''ہر جلتی کتاب دنیا کو روشن کر دیتی ہے'' تاریخ پے در پے اس حقیقت کی شہادتیں فراہم کررہی ہے کہ کتابیں متحرک اور زندہ قوتیں ثابت ہوئی ہیں جنہوں نے واقعات کا دھا را بدل ڈالا ہے، یہ کتابیں ہی ہیں جنہوں نے دنیا یکسر تبدیل کر ڈالی جہاں کہیں اور جب کبھی مخالف گروہوں کو دبانے اور افکار کو ختم کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ ان کا پہلا قدم بلا اختلا ف یہ ہی رہا کہ مخالفانہ افکار کی کتابوں اور ان کے مصنفوں کو تباہ کردیا جائے۔
ڈاکٹر ڈریپر اپنی کتاب ''معرکہ ٔ مذہب وسائنس'' میں لکھتے ہیں کہ اسکندریہ کا کتب خانہ جس میں اندازاً سات لاکھ کتابیں تھیں اسے جولیس سیزر کے حکم سے بر باد کردیا گیا اور اس کی نصف کتابیں جلا دی گئیں پھر قیصر تھیوڈو سیس دوئم نے تھیافلس کو حکم دیا کہ باقی ماندہ کتابیں جلا دو۔ جب اسپین کا مشہور مورخ اور وشیش 413 میں اسکندریہ پہنچا تو وہاں ایک بھی کتاب موجو د نہ تھی۔
قرون وسطیٰ میں راہبوں کی علمی سرگرمیاں یہ تھیں کہ وہ یونان و روما کی کتابیں جلا کر ان کی جگہ مسیحی اولیا کی داستانیں رکھ دیتے تھے چونکہ اس زمانے میں کاغذ نایاب تھا۔ لہذا اس کی جگہ چرمی جھلی استعمال ہوتی تھی جس کی قیمت کافی زیادہ تھی ۔اس لیے یہ راہب جھلی پہ لکھی ہوئی کتابیں کھرچ ڈالتے اور ان پر دعائیں اور اولیا کی داستانیں لکھ دیتے تھے۔ پاپائے اعظم گریگوری سائنس، تاریخ ، ادب، شعر اور دیگر علوم کا شدید دشمن تھا اور دینیات یا دعاؤں کے سوا کسی اورصنف کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ اس نے رومی سیاست دان و خطیب سسرو اور مورخ لیوی کی سب کتابیں تلف کر ڈالیں۔
فرانس کے ایک پادری سینٹ بر نارڈ کی تنگ نظری کا یہ عالم تھا کہ وہ عوام کو ملکی قوانین کے مطالعے سے بھی روکتا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں کے بڑے بڑے ثقافتی مرکز چار تھے قرطبہ ، غرناطہ، اشبلییہ اور طلیطلہ (ٹالیڈو) ہر مرکز میں عظیم الشان کتب خانے تھے جنہیں بعد میں پادریوں نے جلادیا، صرف طلیطلہ میں وہاں کے بشپ زی نی نیزنے مسلمانوں کی اسی ہزارکتابیں نذرآتش کیں، انگلستان کے ایک مورخ ہچببن اسٹرلنگ لکھتے ہیں کہ چوتھی صدی عیسوی میں راہبوں کے گروہ جا بجا گھو متے نظر آتے تھے یہ جہاں بھی کوئی کتاب یا آرٹ کا کوئی نمونہ پاتے تو اسے جلا دیتے۔
چوتھی صلیبی جنگ میں جب صلیبیوں کا لشکر قسطنطنیہ میں پہنچا تو اس نے ساری کتابیں جلا دیں۔ دو سو سال پہلے جب اسپین نے امریکا کی ایک ریاست میکسیکو پر حملہ کیا تو وہاں ساری کی ساری کتابیں جلادی گئیں۔ طرابلس میں اس دور کی عظیم ترین لائبریری تھی جس میں کتابوں کی تعداد تیس لاکھ بتائی جاتی ہیں جب صلیبیوں کا لشکر اس شہر میں پہنچا توکتب خانے کو آگ لگا دی گئی، تمام کتب جلا ڈالی گئیں۔ اسپین کی مذہبی عدالت نے جو 1478 میں قائم ہوئی تھی عربی علوم پر یہودی علماء کی لکھی ہوئی چھ ہزارکتابیں نذر آتش کردیں۔
یونان کی ایک لڑکی ہائے پیشیا اسکندریہ میں تحصیل علوم کے لیے آئی اور برسوں کی محنت کے بعد وہ ایک ممتاز فلسفی بن گئی۔ اسے افلاطون و ارسطو کے فلسفے اور ریاضی میں بڑا عبور حاصل تھا۔ اسکندریہ کے بشپ سائرل نے اسے کافرہ قرار دے دیا اور پھر ایک روز اسے ننگا کرکے بازار میں گھسیٹا گیا پھر اسے گر جے میں لے گئے وہاں تیز سیپیوں سے اس کی کھال کھرچی پتھر سے اس کا سر توڑ ڈالا لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور انھیں آگ میں پھینک دیا گیا۔
گلیلیو فلارنس اٹلی کا وہ مشہور ہیت دان ہے جس نے دوربین ایجاد کی تھی جب اس نے کاپرنیکس کے نظام شمسی کی تائیدکی توپوپ نے اسے گرفتارکرکے مذہبی عدالت کے سامنے پیش کردیا۔ اس نے وہاں ڈر سے توبہ کرلی لیکن 1632 میں اپنی کتاب '' نظام عالم'' شایع کردی جس پر اسے جیل میں پھینک دیا گیا جہاں وہ دس سال تک انتہائی دکھ اٹھانے کے بعد 1642 میں فو ت ہوگیا ۔ اٹلی کے مشہور فلسفی برونو جو فلسفے میں ابن رشد اور اسپینوزا کا پیروکار تھا۔
مذہبی عدالت نے 1600 میں زندہ جلا دیا ۔کپلر جس نے سب سے پہلے کشش ارضی اور سمندر پرچاند کا اثرکے نظریات پیش کیے تھے جب اس نے 1618 میں اپنی کتاب شایع کی تو کلیسا نے اسے کافر قرار دے دیا اور اس کی کتاب سپردآتش کر دی گئی ۔ ڈانٹے فلارنس اٹلی کا شہر ہ آفاق فلسفی شاعر تھا اس نے اپنی لازوال کتاب ''طربیہ خداوندی '' پہ اٹھارہ بر س صرف کیے تھے اور یہ دیگر تین اورکتابوں کا بھی مصنف تھا۔ 1301 میں اسے وطن سے نکال دیا گیا اور 20 برس تک مسافرت میں بھٹکنے کے بعد 1321 میں فوت ہوگیا۔
نسل انسانی پہ اس سے بڑا ستم کیا ہوسکتا ہے کہ وحشی بادشاہوں اور پادریوں نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ کتابیں جلادیں اور رہی سہی کسر تیرہویں صدی میں تاتاریوں نے پوری کر دی۔ انھوں نے بغداد، کوفہ، بصرہ، حلب، دمشق، خراسان، خوارزم اور شیراز کی سیکڑوں لائبریریاں جن میں کتب کی مجموعی تعداد تین کروڑ سے زیادہ تھی بھسم کر ڈالیں۔ بے شمار فلسفی و علما مار ڈالے لیکن تمام ظلم و ستم کے باوجود علم ، وقت اورسچ کو قید نہیں کیا جاسکا نہ ہی روکا اور دبا یاجا سکا اور نہ ہی اپنے مطابق چلایا جا سکا کیونکہ سچ کو آپ جتنا چھپانے اور دبانے کی کوشش کریں گے سچ اتنی ہی طاقت سے آپ کے سامنے آجا ئے گا۔
کامڈن نے کہا تھا جب تم کسی کتاب کے بند اوراق کوکھولتے ہو تو تمہیں اڑنے کے پر مل جاتے ہیں تمام تر و حشت و بر بریت کے باوجود انسان کو اس کی قربانیوں اورجدوجہد کے نتیجے میں آخرکار پر مل ہی گئے۔ اندھیروں کی قوتوں کے لیے علم اور سچ مو ت ہے ان کی بقا صرف اور صرف جہالت میں ہی ہے ۔اسی لیے اندھیروں کی قوتوں نے اپنی تمام تر طاقت پاکستان کے عوام کو جاہل رکھنے کے لیے لگا رکھی ہیں۔
ہمارے ہاں بھی وہی صدیوں پر انا کھیل کھیلا جارہا ہے بس طریقہ کار بدلا ہوا ہے آج ان ہی قوتوں نے سچ کو چھپانے اورمٹانے کے لیے خوف اور نفرت کا ہتھیار اپنایا ہوا ہے لیکن یہ قوتیں یہ نہیں جانتی ہیں کہ انسان دیکھے جاسکتے ہیں ٹٹولے جاسکتے ہیں تم انھیں پکڑ سکتے ہو ان پر حملہ کر سکتے ہو اورقیدکر کے ان پر مقد مہ چلا سکتے ہو اور انھیں تختہ دار پر لٹکاسکتے ہو۔ انھیں خود کش حملہ کرکے مار سکتے ہو لیکن اس طرح خیالات اور سچ پر قابونہیں پایا جا سکتا وہ نا محسوس طور پر پھیلتے ہیں نفوذ کر جاتے ہیں چھپ جاتے ہیں اور اپنے مٹانے والوں کی نگاہوں سے مخفی ہوجاتے ہیں اور روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونما پاتے ہیں پھلتے پھولتے ہیں جڑیں نکالتے ہیں۔
جتنا تم ان کی شاخیں جو بے احتیاطی کے باعث ظاہر جائیں، کاٹ ڈالو گے اتنا ہی ان کی زمین دوزجڑیں مضبوط ہوجائیں گی ۔ ویچو کہتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ اس عمل کو اس نے Ricorsi کا نام دیا ہے، تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پرایک جیسے ہیں، ضروریات ایک جیسی ہیں مفاد ایک جیسے ہیں یہی خیال نسل ، رنگ اور زبان کے تعصبات کو آہستہ آہستہ مٹا رہا ہے۔
رومن شہنشاہ مارکس آریلیس نے وحدت نوع انسان کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کا وقت آگیا ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا کی طرح پاکستا ن سے وحشت و بربریت کے دورکاخاتمہ نہ ہو اورعقل وفکر کی نشوونما نہ ہو عمل ارتقا کی مزاحمت کی جاسکتی ہے اس کی رفتارکو سست کیا جاسکتا ہے لیکن اسے کسی خاص مر حلے پر روک دینا توکسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔