بلی کی محبت
اگر دنیا بھر میں پچاس فیصد جنگلات ہوجائیں توکوئی بھوکا نہیں مریگا
انڈونیشیا کا سب سے بڑا جزیرہ اور صوبہ جاوا جس کی آ بادی پچاس لا کھ سے زیادہ ہے اس میں ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کی پالتو بلی ایک سال سے اس کی قبر پر بیٹھی اس انتظار میں ہے کہ اس کا مالک کب قبر سے نکل کے آئیگا اور اسے پیارکریگا، 28سالہ ایک نوجوان اس بلی کو بڑی کوششوں سے اپنے گھر لے آیا اور اسے کھانا کھلانے لگا لیکن بلی کھانا توکھالیتی تھی مگر کھانے کے بعد فورا قبر پرجا کر بیٹھ جاتی ہے۔
ایک سال سے قبر پر بیٹھے رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ محبت، یگانگت، قربت اور وفاداری کی انتہا ہے، ویسے تو سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق جن جانوروں کے دماغ میں ہلکے کھڈے کی نشانی ملتی ہے، ان جانوروں کے دماغ زیادہ کام کرتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مقابلتاً چالاک ہوتے ہیں اور جن جانوروں کے دماغ گول مٹول ہی رہتے ہیں ان کے دماغ زیادہ موثر ہوتے ہیں اور نہ زیادہ کام کرتے ہیں۔ جن کے دماغ میں اونچ نیچ پائی گئی وہ ہیں لومڑی، گیدڑ، کتے، کوے اور گھوڑے وغیرہ جب کہ جن کے دماغ گول مٹول رہے وہ بھینس،گائے، بکری اور بلی وغیرہ یعنی بلی کا دماغ زیادہ کام نہیں کرتا اورمقابلتا کم عقل والی ہوتی ہے۔اس کے باوجود اس کی محبت، قربت اور چاہت کی انتہا دیکھ لیں جب کہ سب سے اعلیٰ اور زگ زیگ (اونچا نیچا) والا دماغ انسان کا ہوتا ہے جب کہ محبت، یگانگت اوربھائی چارگی کے بجائے قتل وغارتگری اور حقارت، نفرت اورخونخوار ریت میں ڈوبا ہوا ہے۔
غلامانہ نظام سے لے کر آج سرمایہ داری تک انسان کے ہاتھوں کروڑوں انسان غلام بنے، قتل ہوئے اورذلت وتذلیل کے شکارہوئے۔ روم کے بادشاہوں نے بھوکے شیروں کے پنجرے میں غلام کو چھوڑ کر خونخواری کا کھیل دیکھتے اور قہقہے لگا تے رہے،کس بل کی اس وحشیانہ نمائش شاید جانوروں میں بھی نہ ہو۔صرف دوعالمی جنگوں میں 5کروڑ انسان قتل ہوئے، جن میں ڈھائی کروڑ صرف روس کے تھے، برطانوی سامراج نے لاکھوں کروڑوں غلاموں کو جنوبی امریکی ملک سوری نام سے جاپان کے بعید ملک فیجی تک، جنوبی افریقہ سے کیریبین ممالک تک غلاموں کو پکڑکر وہاں پہ جبری مشقت کرواتے تھے۔
ہندوستان کے سلطان شمس الدین التمش کے دور میں ہندوستان سے بیس لا کھ غلاموں کو عراق، عرب، خراسان، وسطی ایشیا، ترکمانستان ، ترکی، یونان اورکوہ قاف میں ایک ایک تنکہ (رائج الوقت سکہ) میں فی غلام کو فروخت کیا کرتے تھے جب کہ ترکی کے غلام ہندوستان میںگورے ہونے کے ناتے تین تین تنکے میں بیچے جاتے تھے۔ برطانوی سامراج ، امریکی سامراج ، پرتگیزی سامراج، ڈچ سامراج ہسپانوی سامراج ، جاپانی سامراج ،فرنچ اورجرمن سامراج منگول، مغل اور یونانی سامراج نے ایشیا،امریکا اورافریقہ کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لاکھوں،کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا پھر وہ ان وسائل سے مالا مال ہوکر اب مہذب بن گئے ہیں۔
پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکی سامراج نے اب تک بلاواسطہ اور باالواسطہ اٹھاسی ملکوں میں حملہ، سازش اور پروکسی وارکرکے ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل کرچکا ہے جس میں سب سے زیادہ قتل جنوبی افریقہ، ہندوچین، برصغیر، جنوبی امریکا اوراب پاک افغان، عالم عرب اور مغربی افریقہ شامل ہے ۔ان قبضوں اورقتل غارتگری کے لیے اسلحے اور بارودکی ضرورت ہوتی ہے اور انھیں استعمال کے لیے میدان جنگ اور اٹھانے کے لیے وہ ہاتھ چاہیے جو ایک دوسرے کو قتل کریں۔ اس کام میں سالانہ کھربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ بجٹ دفاع کے نام پر جنگ کے لیے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگی توازن کو برقرار رکھنے کے بعد ہی امن قائم ہوسکتا ہے۔کیا دلیل ہے؟ ساحرلدھیانوی نے خوب کہا تھا کہ ''جنگ خود ایک مسئلہ ہے ،جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی، آگ اورخون آج ، بھوک اور احتیاج کل دیگی'' اگر آج دنیا کی سرحدیں ختم کردی جائیں، اسلحے کی پیداواراور تجارت ختم کردی جائے تو دنیا میں کم ازکم غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، صحت اورتعلیم بہتر ہوسکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ پھر کھرب پتی کیسے بنیں گے اور ہر روزاس دنیا میں بھوک سے پچہتر ہزارانسان کیسے مرینگے ۔ سائنسی اورتیکنیکی ترقی اچھی بات ہے مگر یہ صرف ایک فیصد لوگوں کے لیے ہے تو بری بات ہے۔
انیس سو چھ میں روس کے معروف انقلابی دانشور لیوتالستوئے نے کہا تھا کہ ''سائنسی اورتیکنیکی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جا سکتا ہے'' اس وقت ہر ماہ صرف بھوک سے ڈیڑھ لاکھ انسان اس دنیا میں مررہے ہیں جب کہ دوسری جا نب تیراسی ارب پتی اس دنیا کی کل دولت کی آ دھی دولت کے ما لک ہیں،اگر اسلحے کی پیداوار، سائنسی تحقیق اور تیکنیکی ترقی کو روک دیا جائے اور یہ رقم دنیا میں صرف درخت لگانے پرخرچ کی جائے توکوئی بھوکا نہیں مریگا۔
یو این اوکے اعدادوشمارکے مطابق جنوبی امریکی ملک سوری نام میں ستانوے فیصد جنگلات ہیں، جنوبی کوریا میں انہتر فیصد، امریکا میں چالیس، ہندوستان میں بیس اور بنگلہ دیش میں سولہ فیصد جب کہ پاکستان میں گزشتہ دس برس میں تین فیصد سے گھٹ کر دوعشاریہ 5فیصد کے رقبے پر جنگلات رہ گئے ہیں۔ یو این اوکے فیصلے کے مطابق کل رقبے میں پچیس فیصد جنگلات لازمی ہونی چا ہیے۔اس ماحولیات کی تباہی میں سب سے پیش پیش امریکا، چین اور ہندوستان ہیں۔
اگر دنیا بھر میں پچاس فیصد جنگلات ہوجائیں توکوئی بھوکا نہیں مریگا۔ پھل، سبزی، مچھلی، ساگ، پرندے اور جانوروں کے گوشت اور انڈے مفت حاصل ہوسکتے ہیں۔ چند سالوں کی بات ہے کہ جنوبی امریکا کے ایک ملک میں جنگل کی کٹائی اور تباہی ہورہی تھی۔ یہ پیرو یا برازیل کی بات ہے۔
بہرحال حکومت اسے روکنے میں جب ناکام ہوگئی تواس نے اعلان کیا کہ جنگل، جنگل میں رہنے والے جنگلی لوگوں کا ہے، وہ اس کی حفاظت کریں پھر جنگل کے باسیوں نے ایک کمیٹی بنائی اورکمیٹی نے اپنا مکھیا چن لیا۔ چند برسوں میں جنگل دن دگنا اور رات چوگنا ہوگیا۔ درختوں کی کٹائی رک گئی، دریاؤں کے پانی شفاف ہوگئے۔ جانوروں کی چہل پہل ہونے لگی اورپرندے چہچہا نے لگے۔ اب وہاں کے جنگلی باسی صحت مند، خوش باش اورخوشحال ہوگئے، ان کے بچے قریبی علا قوں میں پڑھنے جانے لگے۔
بیماریاں ناپید ہو نے لگیں ۔کینسر، یرقان،ایڈز، ٹی بی اورچیچک نام کی بیماری ہمیشہ کے لیے کافور ہوگئی ہیں۔ وہ اپنی قدرتی جنگلی پیداوارکو دوسرے علا قوں سے تبادلہ کرتے ہیں لیکن اپنے علاقوں میں کسی کوگھسنے نہیں دیتے جب کہ ہمارے مہذب معاشرے میں ہر سال اس دنیا میں لا کھوں کروڑوں انسان گولیوں، بھوک، حادثات ،جلنے، لڑائیوں، جنگوں اور قحط سے مرتے ہیں اس لیے سب سے پہلے انسان کو جراثیم سے پاک اورملاوٹ سے پاک پانی اورغذا مہیا کرنے کی ضرورت ہے پھر بیماریاں غائب ہوجائینگی،اس کے بعد تعلیم اور تفریحات پر خرچ کرنے ہونگے۔ ملکوں کی سرحدیں جب ختم ہوجائیں گی، ملکیت،جائیداد، نہ ہوگا تو انسان جینے لگے گا۔