فلمساز جس کی دعوتیں بڑی مشہور تھیںحصہ اول
کھلانے والے کے سب دیوانے ، اور یہی وجہ ہے کہ کھلانے والے کا ہاتھ ہمیشہ اونچا رہتا ہے
یہ مثل مشہور ہے کہ کھلانے والے کے سب دیوانے ، اور یہی وجہ ہے کہ کھلانے والے کا ہاتھ ہمیشہ اونچا رہتا ہے اور اس کے رزق میں کبھی کمی نہیں آتی۔ عام معاشرے میں تو ایسے لوگ مل جاتے ہیں مگر فلمی دنیا میں ایسے لوگ کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ میں آج فلمی دنیا کی ایک ایسی شخصیت کا تذکرہ کر رہا ہوں جو ایک مشہور فلمساز تھے اور دل ان کا حاتم طائی کی طرح تھا، جب کہ فلمی دنیا میں تو ایسے لوگوں کی بہتات رہی ہے جو اپنا تو اپنا، دوسروں کا مال بھی کھانے کے چکر میں ہوتے تھے اور آرٹسٹوں کا معاوضہ بھی مار لیا کرتے تھے، لیکن کراچی کے ایک فلمساز قدیر خان ایک ایسی پسندیدہ شخصیت تھے کہ جو آئے دن اپنے گھر میں لوگوں کو دعوت پر مدعو کرنے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے۔
جو اکثر و بیشتر اپنے گھر میں چھوٹی موٹی تقریبات کا انعقاد کرتے تھے اور دوستوں اور احباب کو عمدہ عمدہ کھانے کھلا کر بڑے خوش ہوتے تھے اور ان کی بیگم بھی اپنے شوہر کا خوب ہاتھ بٹاتی تھیں بلکہ بعض مزیدار ڈشیں وہ خود بھی بناتی تھیں اور وہ ساری دعوتیں فلمساز قدیر خان کی بیگم کی نگرانی ہی میں ہوا کرتی تھیں۔ فلمساز قدیر خان کے گھر اکثر و بیشتر لاہور کے نامور فنکاروں کی دعوتیں ہوتی رہتی تھیں، کبھی شمیم آرا، شبنم، زیبا، محمد علی اور کبھی نیئر سلطانہ کی واپسی کے لیے شاندار دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اکثر یوں بھی ہوتا تھا قدیر خان کو اپنی کسی فلم کا آغاز کرنا ہوتا تھا تو وہ پہلے اپنے گھر ایک دعوت کرتے تھے اور پھر اس دعوت میں اپنی فلم بنانے کا اعلان کرکے صحافیوں کو بھی ایک سرپرائز دیا کرتے تھے۔
ان کی دعوتوں میں کبھی کبھی محفل موسیقی کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ چنیدہ چنیدہ مقامی فنکار بھی ان محفلوں کی زینت ہوا کرتے تھے۔ کراچی کے فنکاروں میں خاص طور پر معین اختر اور کراچی کے فلمی صحافیوں میں اسد جعفری پیش پیش ہوا کرتے تھے اور ان محفلوں میں ہدایت کار اقبال یوسف کی شمولیت بھی بڑا رنگ جمایا کرتی تھی۔ ایک بہت ہی شاندار دعوت فلمساز قدیر خان کے گھر چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور ان کی بیگم کے اعزاز میں بھی، ان کی شادی کے بعد ہوئی تھی، جس کا تذکرہ بھی فلمی حلقوں میں عرصے تک دلچسپی کا باعث بنا رہا تھا۔ اسی طرح کی ایک خوبصورت تقریب مصنف و ہدایت کار شوکت ہاشمی کی کراچی میں آمد کے بعد سجائی گئی تھی، جب وہ ڈھاکہ سے فلم ''ہمسفر'' بناکر آئے تھے۔
یہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا زمانہ تھا اور آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری رنگین فلموں کی طرف آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شوکت ہاشمی صاحب کی شخصیت کے بارے میں، میں یہ بات بتاتا چلوں کہ وہ کافی عرصے تک بمبئی کی فلم انڈسٹری سے بحیثیت مصنف اور معاون ہدایت کار وابستہ رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انڈین فلم انڈسٹری میں فلم نویس ماہانہ تنخواہوں پر پروڈکشن کی فلموں کے لیے کہانیاں اور مکالمے لکھا کرتے تھے اور وہ رائٹر خوش قسمت ہوا کرتا تھا جس کا بطور مصنف فلم کے ٹائٹل پر نام دیا جاتا تھا، ورنہ سب رائٹر صرف اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ کے ہی ہو کر رہ جاتے تھے اور فلم کے ٹائٹل پر فلمساز یا ہدایت کار بطور کہانی نویس بھی نظر آتے تھے۔
ایسی ہی بمبئی کی ایک فلم ''بادل'' تھی جو 1951 میں بنی تھی۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں ہندوستانی فلموں کی خوبصورت اداکارہ مدھوبالا، پریم ناتھ کے ساتھ ایک نئی اداکارہ پورنیما کو اہم کردار میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ شوکت ہاشمی صاحب فلم ''بادل'' کے یونٹ میں اسسٹنٹ ہدایت کار بھی شامل تھے اور فلم کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ سے بھی ان کا تعلق تھا، جب کہ فلم کے زیادہ تر مکالمے بھی انھی کے لکھے ہوئے تھے۔ فلم ''بادل'' ایک ہٹ فلم تھی۔ مدھوبالا اور نئی اداکارہ پورنیما پر بڑے خوبصورت گانے عکس بند کیے گئے تھے۔ فلم کے تقریباً سارے گانے فلم کی نمائش سے پہلے ہی ہٹ ہوگئے تھے۔
شوکت ہاشمی کی ڈھاکا سے کراچی آنے کے بعد پہلی ملاقات فلمساز قدیر خان سے ہوئی اور شوکت ہاشمی کی بمبئی کی زندگی اور وہاں کی فلم انڈسٹری سے ان کی وابستگی سے متاثر ہوکر ان سے ایک کہانی سنی اور شوکت ہاشمی نے فلمساز قدیر خان کو اس کہانی کے بعد ایسا شیشے میں اتارا کہ فلمساز قدیر خان نے اپنے گھر ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اس میں فلمی صحافیوں کو بھی مدعو کیا اور وہاں ایک فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' بنانے کا اعلان کیا گیا، جس کے لیے شوکت ہاشمی کو ہدایت کار منتخب کیا گیا تھا ۔شریف امینی اس فلم کے چیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے، پھر شبنم، ندیم، کمال کو فلم کے لیے کاسٹ کرلیا گیا تھا۔ ان دنوں ڈھاکا سے شبنم بھی نئی نئی کراچی آئی تھی اور ابھی اسے لاہور کی ہوا نہیں لگی تھی۔
پھر یہی شبنم ندیم کی فلمی جوڑی کچھ عرصے بعد لاہور کی کامیاب ترین فلمی جوڑی بن کر منظر عام پر آئی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' کی شوٹنگ کا آغاز کردیا گیا۔ یہ فلم بلیک اینڈ وائٹ میں تھی اور اس دوران لاہور فلم انڈسٹری کی ضرورت بن چکا تھا۔ فلمسازوں نے اسے کئی سال تک کے لیے بک کرلیا تھا۔ اب اس کے پاس اتنی زیادہ تاریخیں اور فراوانی نہیں تھی کہ وہ کراچی کی اس فلم کو غیر معمولی طور پر وقت دیتا، پھر ہدایت کار شوکت ہاشمی کی کچھ سست روی بھی فلم کی تکمیل میں آڑے آتی رہی، ان کے پاس کوئی اور فلم تھی ہی نہیں، وہ چاہتے تھے کہ فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' کی شوٹنگ کے دوران ہی کوئی اور فلم ان کی جھولی میں آگرے مگر ایسا کسی صورت بھی نہ ہوسکا۔ اس دوران شوکت ہاشمی نے ایک مختصر سا دورہ لاہور کی فلم انڈسٹری کا بھی کیا مگر وہاں بھی شوکت ہاشمی کو کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی، اب ان کی ساری توجہ صرف ایک ہی فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' پر ہی تھی۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح یہ فلم مکمل کرلی گئی، پھر اس کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔
اب لاہور کی رنگین فلمیں ریلیز ہونا شروع ہوچکی تھیں اور سینماؤں کی زینت بن رہی تھیں۔ ''جلے نہ کیوں پروانہ'' کو بھی نمائش کے پہلے روز تو کچھ رسپانس ملا مگر دوسرے دن ہی اس فلم کے سارے کس بل نکل گئے اور یہ ندیم شبنم، کمال، لہری کی موجودگی کے باوجود پہلے ہی ہفتے میں ڈھیر ہوگئی۔ فلم کی ناکامی کی وجہ فلم کرٹیکس نے فلم کی بے ربط اور کمزور کہانی کے ساتھ ساتھ بے جان ہدایت کاری کو قرار دیا تھا، جب کہ موسیقار ناشاد نے بھی اس فلم میں کوئی ایک گیت بھی ایسا نہیں دیا تھا جسے سپر ہٹ کا درجہ حاصل ہوتا اور فلم ایک ہٹ گیت ہی کی وجہ سے فلم بینوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی۔ مصنف و ہدایت کار شوکت ہاشمی کے کھاتے میں ''ہمسفر'' کے بعد ایک اور فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' ناکام فلم کی صورت شامل ہوچکی تھی اور دو فلموں کی یکے بعد دیگرے ناکامی کے بعد شوکت ہاشمی کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا تھا اور وہ گزر اوقات کے لیے فلمی صحافت سے وابستہ ہوگئے اور اپنے آخری دنوں تک اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنے گھر کے اخراجات پورے کیا کرتے تھے اور بڑی مشکل زندگی گزاری تھی۔
اب میں پھر فلمساز قدیر خان کی طرف آتا ہوں جنھوں نے اپنی ہمتیں پھر یک سو کرلی تھیں اور فلمسازی کے لیے پھر سے سرمایہ اکٹھا کرلیا تھا۔ اور ایک شاندار دعوت کا ایک بار پھر اپنے گھر میں اہتمام کیا اور اس دعوت میں انھوں نے اپنی نئی فلم ''نادان'' بنانے کا اعلان کیا جس میں ندیم کے ساتھ نشو کو ہیروئن کاسٹ کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ جب انھوں نے یہ بتایا کہ ان کی نئی فلم کے ہدایت کار کراچی فلم انڈسٹری میں شعبہ تدوین (فلم ایڈیٹنگ) کے دادا استاد اقبال اختر ہوں گے تو سب کو اس بات پر حیرت ہوئی تھی کہ بمبئی سے آئے ہوئے ہدایت کار کو لے کر فلمساز قدیر خان نے ایک فلاپ فلم بنائی اور اب وہ ایک نئے ہدایت کار کو لے رہے ہیں تو فلمی حلقوں کو فلمساز قدیر خان کے اس فیصلے پر بڑی حیرت ہوئی تھی مگر جب فلم ''نادان'' بنی تو ایک حیرت کے بعد دوسری حیرت نے جنم لیا تھا۔
(جاری ہے)