شاہ رُخ نے اپنے نام کے ساتھ ’’خان‘‘ کا لاحقہ خود لگایا
کنگ خان کی ذات اور خاندانی پس منظر سے متعلق کچھ دل چسپ حکایات
شاہ رخ خان کا بچپن۔ فوٹو: فائل
انسان کا خمیر اٹھتا کہیں سے ہے، آب و دانہ کہیں اور لکھا ہوتا ہے، وہ عروج و زوال کا مزا چکھتا کہیں اور ہے۔
بعض لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ قدرت ان کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے ہر دروازہ وا کیے رکھتی ہے۔ پھر وہ اپنی محنت اور لگن سے سیڑھی چڑھتے ہوئے دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بن جاتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کا خطۂ ارضی ابتدائے آفرینش سے زرخیز، مردم خیز اور قدرتی وسائل سے مالا مال رہا ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں اس سرزمین نے زندگی کے ہر شعبے میں عظیم حریت پسندوں، شاعروں ادیبوں، سیاست دانوں اور بڑے بڑے فن کاروں کو جنم دیا، جن کا احوال ہماری تاریخ کا سنہرا باب بن چکا ہے۔ سب کا یہاں ذکر تنگی قرطاس کا سبب بنے گا، لیکن آج ہم جس شخصیت کا ذکر لیے بیٹھے ہیں وہ یقیناً ان عظیم شخصیتوں میں سے ایک ہے، جنہوں نے نہایت ہی کم عرصے میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز محنت سے فن کی دنیا میں اپنے لیے ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل کیا اور دولت، عزت، شہرت اور اپنے اور پرائے لوگوں کی بہت ساری محبتیں سمیٹیں۔
جس طرح ذکر اس زرخیز مٹی کا ہو رہا تھا تو اس میں خیبر پختون خوا کا صوبائی دارالحکومت پشاور اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے باسیوں کی دیگر اقدار و روایات کی ایک دنیا معترف ہے اور فنون لطیفہ کے حوالے سے بھی یہ زرخیز خطہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے، جس کا سب سے بڑا تاریخی ثبوت گندھارا تہذیب ہے، جسے پوری دنیا مان چکی ہے۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کو چھوڑ کر فنون لطیفہ کے بڑے بڑے برجوں کا پشاور سے کسی نہ کسی طور تعلق رہا ہے۔ اس خطے نے بڑے بڑے فن کاروں کو جنم دیا یا ان کے آبا و اجداد کا تعلق اس مٹی سے جڑا رہا۔ ان میں ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے سب سے خوبرو اداکار گل حمید، خوب صورت اداکارہ مدھو بالا، نام ور اداکار راج کپور، ونود کھنا، سریندر کپور، پریم ناتھ، یوسف خان المعروف دلیپ کمار، ارشد خان، محبوب اور موجودہ پاکستانی معروف اداکاروں میں قوی خان، فردوس جمال، لالہ سدھیر اور بدرمنیر قابل ذکر ہیں۔
آج بولی وڈ کا بے تاج بادشاہ، کنگ خان فلمی اُفق کے سب سے درخشندہ و تابندہ ستارہ ہے۔ شاہ رخ خان کا طوطی سر چڑھ کر بول رہا ہے اور آج ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند پوشیدہ گوشے اجاگر کرنے کی سعی کریں گے۔
شاہ رخ خان کے آبا و اجداد، ان کی پشاور سے ہجرت، کاروبار، تعلیم و تربیت، سیاسی و سماجی خدمات اور عزیز و اقارب کے بارے میں جان کاری کے لیے ہم نے پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی کے علاقے شاہ ولی قتال میں رہائش پذیر شاہ رخ خان کے چچا زاد بھائی منصور احمد، چچی زاد بہن، نور جہاں، ان کے شوہر آصف شہاب اور شاہ رخ خان کی چچی ثریا بیگم سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے بتایا کہ شاہ رخ خان کے دادا میر جان محمد کی کشمیر سے پشاور ہجرت سے اس سفر کا آغاز ہوا، جو دہلی اور ممبئی کے نگار خانوں تک جاری رہا۔
منصور احمد خان اور نور جہاں نے بتایا کہ ہمارے اور شاہ رخ خان کے دادا، میر جان محمد تلاش معاش کے سلسلے میں 1895میں پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کے علاقے شاہ ولی قتال آئے تھے اور یہاں بانس کا کاروبار شروع کرنے کے بعد دوبارہ کشمیر چلے گئے، جہاں اپنی کزن مقبول جان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور اس کے بعد ان کو لے کر پشاور نقل مکانی کر گئے۔ یہاں محنت اور لگن سے کاروبار میں ترقی کے ساتھ ان کو اللہ نے اولاد کی دولت سے بھی نوازا۔
شاہ رخ خان کے چچا زاد بھائی، منصوراحمد کے مطابق شاہ ولی قتال میں رہائش کے دوران 1906 میں ان کے تایا میاں محمد کی پیدائش ہوئی۔ 1908 میں پھوپھی خیر جان پیدا ہوئیں۔ 1910 میں میرے والد یعنی غلام محمد گاما کی پیدائش ہوئی (جو اس وقت کے صوبہ سرحد کی مناسبت سے گاما سرحدی کے نام سے بھی جانے پہچانے جاتے تھے) 1914 میں اللہ بخش، ان کے بعد خان محمد اور پھر لگ بھگ 1917 میں ہمارے سب سے چھوٹے تایا یعنی شاہ رخ خان کے والد میر تاج محمد خان نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ اللہ نے میر جان محمد کو پانچ اولاد نرینہ اور ایک بیٹی عطا کی۔ ہمارے دادا نے سب بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ لیجنڈ اداکار شاہ رخ خان کے والد میر تاج محمد خان نے اسلامیہ ہائی اسکول پشاور سے میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد 1938-39 ایڈوڈرز کالج پشاور میں داخلہ لیا اور یہاں سے طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔
ان کے بڑے بھائی اور تحریک آزادی کے نمایاں کارکن غلام محمد گاما بھی ان دنوں کافی سرگرم تھے۔ غلام محمد 1926-27 ہی سے میدان عمل میں تھے اور مختلف پلیٹ فارموں سے آزادی کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مصروف تھے۔ انہوں نے انسانی حقوق سے محروم اور محکوم غریب و لاچار لوگوں کے حقوق کے لیے ''انجمن غرباء'' نام کی تنظیم کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی، خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کے ساتھ بھی تحریک میں پیش پیش رہے۔
غلام محمد گاما کے سابق گورنر فدا محمد خان، خان عبدالقیوم خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے ساتھ بھی اچھے مراسم تھے، چوں کہ غلام محمد گاما سیاسی طور پر سرگرم تھے، اس لیے میر تاج محمد خان بھی اس میدان میں پیش پیش رہے۔ ابھی انٹر ہی میں تھے کہ اپنے بڑے بھائی سمیت گرفتار ہوئے اور تقریباً دو ڈھائی سال کی قید کاٹی۔ قید سے رہائی پانے کے بعد 1944 میں پرائیویٹ طور پر ایڈورڈز کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور 1944 میں پرائیویٹ حیثیت سے گریجویشن بھی کی۔ چوں کہ تحریک آزادی زوروں پر تھی اس لیے وہ مزید تعلیم کے حصول کے لیے 1945 میں دہلی چلے گئے اور وہاں لاکالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔
اس کالج میں لطیف فاطمہ نامی ایک خاتون بھی تھیں جو میر تاج محمد خان سے جونیر تھیں۔ ان دونوں کا تعلق اور پھر رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا کسی حادثے یا کسی فلمی سین سے کم نہ تھا۔ ہوا یوں کہ دہلی کے ایک چوک میں میر تاج محمد خان سواری کے انتظار میں تھے کہ وہاں لطیف فاطمہ کے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میر تاج محمد خان اور چند لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ وہاں لطیف فاطمہ کے والد کو خون کی ضرورت پڑی تو میر تاج محمد خان نے خون عطیہ کیا، اور پھر دھیرے دھیرے یہ تعلق رشتے میں تبدیل ہو گیا۔ 1959 میں دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے، جس کے بعد انہوں نے دہلی کے علاقے حوض خاص میں رہائش اختیار کر لی اور وہاں ''خاطر ریسٹورنٹ'' کے نام سے ریسٹورنٹ چلانے لگے۔ لطیف فاطمہ یعنی شاہ رخ خان کی والدہ ترقی کرتے کرتے درجۂ اول کی مجسٹریٹ بن گئیں۔
1960 میں ان کے ہاں ایک پیاری سی بیٹی، شہناز لالہ رخ کی ولادت ہوئی اور 2 نومبر 1965 کو اس خوش قسمت جوڑے کو اللہ نے چاند سا بیٹا عطا کیا، جس کا نام شاہ رخ رکھا گیا۔ شاہ رخ کا بچپن دیگر بچوں کی طرح روایتی ماحول میں گزرا۔ وہی کھیل کود اور شرارتیں معمول میں شامل تھیں۔ اس نے سینٹ کولمبیا اسکول سے میٹرک، ہنس راج کالج دہلی سے انٹر اور پھر معاشیات میں بی اے آنر کی ڈگری حاصل کر لی۔ اگلے پڑاؤ میں انہوں نے جامعہ ملی اسلامیہ دہلی سے ماس کمونی کیشنز میں ماسٹر کیا۔ گوری بھی ہنس راج کالج کی طالبہ تھی۔ وہیں کنگ خان اور گوری نے جنم جنم ساتھ نباہنے کی قسمیں کھائیں اور دونوں ایک دوجے کے ہو گئے۔
اس دوران شاہ رخ بطور اداکار اپنے کیریر کی ابتداء کر چکے تھے۔ انہوں نے 1988 میں ٹی وی ڈرامے ''فوجی'' سے باقاعدہ کیریر کا آغاز کیا، جس کے بعد پروڈیوسر انیس مرزا نے انہیں فلم ''راجو بن گیا جنٹلمین'' میں سائن کر لیا۔ گوکہ شاہ رخ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم ''دیوانہ'' تھی جو 1992 میں سنیماؤں کی زینت بنی لیکن فلم ''ڈر'' سے انہوں نے باقاعدہ شہرت کے زینے چڑھنے شروع کیے۔ کنگ خان نے پہلی فلم 60 ہزار روپے میں سائن کی تھی۔ پانچ فٹ آٹھ انچ کے قد، نشیلی آنکھوں، خوب صورت بالوں اور چھریرے بدن کے شاہ رخ کی گوری کے ساتھ 25 اکتوبر 1991 کو شادی خانہ آبادی انجام پائی۔
شاہ رخ خان کی چچی زاد بہن، نور جہاں کے مطابق، جب 1997 میں ان کے بیٹے آریان کی ولادت ہوئی تو میں وہاں ان کے ساتھ تھی۔ اس موقع پر ہمارے چچا زاد کی خوشی دیدنی تھی۔ نور جہاں کا کہنا تھا کہ ہم سب نے مل کر اس خوشی کو خوب سیلی بریٹ کیا اور پھر 2000 میں سوہانہ پیدا ہوئی۔ نور جہاں کا کہنا تھا کہ اگست 2011 میں دوبارہ شاہ رخ خان کی فیملی سے ملنے بھارت گئیں۔ شاہ رخ خان اپنے آبائی وطن سے کسی کے آنے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ 2011 میں ان کا شیڈول کافی سخت تھا، لیکن باوجود مصروفیت کے وہ ہمیں اپنے ساتھ شوٹنگز پر بھی لے جایا کرتے تھے۔ وہاں خوب گپ شپ لگتی اور شاہ رخ اپنے دیگر رشتے داروں اور پشاور کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے۔
اب آپ کو شاہ رخ خان کی پشاور آمد اور یہاں گزارے دنوں کے بارے میں کچھ بتاتے چلیں۔ ان کے عزیز و اقارب نے بتایا کہ شاہ رخ خان 1979 میں اپنے والد میر تاج محمد خان کے ساتھ پشاور آئے تھے اور تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزار کر چلے گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے سوات، لواڑگی، لنڈی کوتل، چترال اور اندرون پشاور کے مختلف مقامات کی سیر کی تھی۔ انہوں نے باڑہ مارکیٹ سے شاپنگ بھی کی اور جاپان کی بنی ہوئی مختلف قسم کے کئی کھلونے بھی خریدے۔ یہاں وہ تقریباً سبھی رشتہ داروں سے ملے، جس گھر میں جاتے، ان سے پشاور کے روایتی کھانوں کی فرمائش کیا کرتے۔
ہندوستان واپسی پر انہوں نے اسکول ریکارڈ میں اپنے نام کے ساتھ خان کے لاحقے کا اضافہ کیا جب کچھ عرصے کے بعد ان کے والد میرتاج محمد خان شاہ رخ سے ملنے اسکول گئے اور شاہ رخ کا پوچھا تو انتظامیہ نے کہا کہ شاہ رخ نام کا کوئی لڑکا یہاں نہیں ہے، البتہ شاہ رخ خان نامی لڑکا ضرور موجود ہے جس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ شاہ رخ نے اپنے نام کے ساتھ خان کا اضافہ کر لیا ہے۔ پشاور میں وہ پٹھانوں سے کافی متاثر ہو چکے تھے، اس لیے اپنے آپ کو پٹھان کہلوانے پر فخر کرتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ہم ان کی فلم ( مائی نیم از خان) میں دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری مرتبہ کنگ خان نے 1980 کے اواخر میں اپنی بہن شہناز لالہ رخ کے ساتھ پشاور کی یاترا کی اور تقریباً 25 دن یہاں گزارے۔ اس دوران عزیز و اقارب کے ساتھ ملاقات کرنے اور گھومنے پھرنے میں مصروف رہے۔ روایتی کھانوں میں چپلی کباب ان کا من بھاتا کھاجا رہا۔ یہاں سے جاتے وقت وہ چارسدہ وال چپل، دیگر روایتی لباس مثلاً واسکٹ اور شلوار قمیص بھی ساتھ لے گئے تھے۔
قارئین کو شاید یاد ہو کہ فلم ''دل والے دلہنیا لے جائیں گے'' کے ایک گانے میں انہوں نے چارسدہ وال چپل پہن رکھے تھے۔ اسی طرح ''منہدی لگا کے رکھنا، ڈولی سجا کے رکھنا'' والے گانے میں رباب کے ساتھ چارسدہ وال چپل پہننے کی خواہش بھی کی تھی۔ پشاور کے باسی اور بولی وڈ انڈسٹری پر چھا جانے والے اس عظیم اداکار کے والد میر تاج محمد خان کا 1981 اور والدہ لطیف فاطمہ کا 1988 میں انتقال ہوا تو اس صدمے نے شاہ رخ خان کو ہلا کے رکھ دیا۔ والدین کی رحلت کے بعد کنگ خان دہلی سے ممبئی منتقل ہو گئے اور اپنے دوست انور کے ہاں رہائش اختیار کر لی تھی اور تب سے آج تک ایک کے بعد ایک سپر ہٹ فلم دے کر بولی وڈ فلم انڈسٹری پر چھا گئے۔
شاہ رخ کی سپر ہٹ فلم ''دل والے دلہنیا لے جائیں گے'' گذشتہ 18سال سے ممبئی کے مراٹھا مندر تھیٹر میں چل رہی ہے، جہاں آج بھی فلم بینوں کا خاصا رش دکھائی دیتا ہے۔ منصور احمد کا کہنا ہے کہ جب وہ 2011 میں انڈیا گئے تو دلیپ کمار کے بھائیوں احسن خان اور اسلم خان کے علاوہ سریندر کپور، سنجے کپور، ارباز خان اور روینہ ٹنڈن کے علاوہ کئی اداکاروں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ انہون نے بتایا کہا حسن خان، اسلم خان اور سریندر کپور اب بھی پشاوری ہندکو میں بات کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
شاہ رخ خان کی کزن نورجہاں نے اپنے بیٹے کا نام بھی شاہ رخ رکھا ہے، جس کی عمر اب بارہ سال ہے۔ کنگ خان نے اس سے اپنی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈر میں کھلانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ شاہ رخ خان پشاور میں رہائش پذیر اپنے عزیزواقارب سے فون پر رابطے میں رہتے ہیں۔ نورجہاں کہتی ہیں کہ شاہ رخ خان کی کام یابیوں کے پیچھے ان کی ماں کی دعائیں ہیں، جو اپنے جگر گوشے کی کام یابی کے لیے اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر باقاعدہ حاضری دیتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال رمضان میں شاہ رخ خان اپنی بہن شہناز لالہ رخ کے ساتھ اجمیر شریف گئے تھے۔