انسانی حقوق کا عظیم چارٹر دینے والے
’’ربیع الاول‘‘ اسلامی تقویم اور ہجری سال کا تیسرا مہینہ کہلاتا ہے
AMANZIMTOTI, SOUTH AFRICA:
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔'' اور رسول اکرمؐ سب کے لیے رحمت اس طور پر ہیں کہ دنیا میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر و تسبیح اور اس کی عبادت و بندگی آپؐ کے دم سے قائم اور آپؐ کی تعلیمات کی برکت سے جاری و ساری ہے۔ بلاشبہ سرور کونینؐ کی شان رحمت اور آپؐ کی شفقت و رحمت کا سائبان تمام جہانوں، جملہ مخلوق اور پوری انسانیت پر سایہ فگن ہے۔ رحمت اللعالمینؐ کی رحمت ازل سے ابد تک، عرش و فرش، زمین و آسمان پوری کائنات اور تمام مخلوقات کے لیے عام اور وقف ہے۔ قرآن کریم میں اللہ نے بندوں کو رسول اکرمؐ کی ذات کو نہایت ہی حسین نمونہ حیات کہا ہے اور ان کی حیات طیبہ کو بہترین استعارہ قرار دیا ہے۔
''ربیع الاول'' اسلامی تقویم اور ہجری سال کا تیسرا مہینہ کہلاتا ہے۔ دیگر اسلامی مہینوں کی طرح یہ مہینہ بھی نمایاں خصوصیات کا حامل ہے، اس ماہ میں دو ایسے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بنے جو ہمیشہ کے لیے تاریخ عالم میں ثبت ہوگئے۔ ان میں ایک محسن انسانیت ، خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا واقعہ اور دوسرا آپؐ کا وصال، 12 ربیع الاول آپؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے۔ نبی کریمؐ کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے۔ یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر ہی پیدا فرمائے۔ ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لیے بالخصوص اور عالم انسانیت کے لیے بالعموم نہایت ہی مبارک ہے۔
نبی اکرمؐ جو پیغام و ہدایت رب العزت کی طرف سے لے کر آئے وہ سراپا خیر و امن و سلامتی، نیکی اور بھلائی ہے۔ اس میں انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ حقیقت کی عملی شکل ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل خود لفظ اسلام اور ایمان ہے۔ یہ دونوں نام یا الفاظ امن و سلامتی سے ماخوذ ہیں۔ نبی اکرمؐ جو عملی قرآن ہیں، انھی دو الفاظ کی عملی تفسیر ہیں۔ اسی لیے محسن انسانیتؐ کو خالق کائنات نے بجا طور پر ''رحمت اللعالمین'' کے خطاب سے بھی نوازا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک امت محمدیہ نے حضور اقدس ﷺ کی سنت و سیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے رکھا، کامیابی و کامرانی اور عزت و وجاہت کی منزلیں طے کرتی چلی گئی اور جب اور جہاں حضور اقدسؐ کی سنت اور سیرت سے اعراض کیا، غیروں کی نقالی اور مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے پستی اور تنزلی کی گھاٹیوں میں جا پڑی اور اپنا سارا رعب و دبدبہ گنوا بیٹھی۔
ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طبقہ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپ نبی اکرمؐؐ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور حضورؐ کی جامعیت کبریٰ کے خزانے میں ہر وقت اور ہم دم مل سکتا ہے۔ اس لیے طبقہ انسانی کے ہر طالب اور نور ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمدؐ کی سیرت اور ان کا اسوۂ ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے پوری امت کو وحدت کی لڑی میں پروئے رکھا اور اس لڑی کے موتی مومنین کہلاتے ہیں۔ وہ ایسی کتاب لے کر آئے جس کے بعد انسانیت کو کسی دوسری کتاب کی احتیاج نہیں رہی، وہ ایسی شریعت لے کر آئے جس کے بعد انسانیت کسی شریعت کی محتاج نہیں، وہ ایسا نظام لے کر آئے جس کے سوا کسی نظام کو دوام نہیں مل پایا۔ ان کا وجود وہ چراغ فروزاں ہے جو تیرہ و تار شبوں میں روشنیاں پھیلائے۔
رسول اکرمؐ کی سماجی زندگی ان کی سیرت طیبہ کا ایک درخشاں باب ہے۔ عام طور پر بڑے بڑے کام کرنے والے لوگ بالعموم رابطہ عام کے لیے وقت نہیں نکال پاتے اور نہ ہر طرف توجہ دے سکتے ہیں، بعض بڑے لوگوں میں خلوت پسندی اور خشک مزاجی پیدا ہوجاتی ہے اور کچھ کبر کا شکار ہوکر اپنے لیے ایک ''عالم بالا'' بنا لیتے ہیں۔ مگر حضور اکرمؐ انتہائی عظمت کے مقام پر فائز ہوکر اور تاریخ کا رخ بدلنے والے کارنامے سرانجام دے کر بھی عوامی حلقوں سے پوری طرح مربوط تھے اور جماعت اور معاشرے کے افراد سے شخصی اور نجی تعلق رکھتے تھے ان میں کبر یا نخوت کا شائبہ تک نہ تھا۔ درحقیقت آپؐ نے جس نظام اخوت کی تاسیس فرمائی تھی یہ اس کا اہم تقاضا تھا کہ لوگ باہم و گر مربوط رہیں، ایک دوسرے کے کام آئیں اور ایک دوسرے کے حقوق پہچانیں۔
خدمت خلق کو بھی آپؐ کی سماجی زندگی کا ایک نہایت اہم پہلو کہا جاتا ہے۔ آپؐ نے جس ماحول اور جن وسائل میں اسلام کے پیغام کی نشر و اشاعت کا نبوی فریضہ انجام دیا اس کی مقبولیت میں یوں تو اس پیغام کی حقانیت، اس کے محکم اصول اور الٰہی تعلیم کی تاثیر کا بڑا دخل ہے لیکن اس سلسلے میں آپؐ کے انفرادی کردار اور اس مقام و حیثیت کو بھی بڑا دخل ہے جو آپؐ کو اپنی قوم میں صادق و امین کے مرتبے تک پہنچا چکی تھی۔ اس کے علاوہ عام انسانی ہمدردی، خدمت اور انسانیت دوستی کی وہ خصوصیت عالیہ بھی آپؐ کے اس پیغام کی ترویج و اشاعت کا سبب بنیں جو آپؐ کے عادت ثانیہ ہیں۔ آپؐ کی یہی وہ خدمات تھیں جنھوں نے انسانیت کے ایک بڑے گروہ کے اندر آپؐ کی وقعت، اہمیت اور مقام کو بہت اونچا کردیا اور آپؐ کے لائے ہوئے پیغام کے لیے ان کے دلوں میں جگہ پیدا کردی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کو امن و آشتی کا درس اور انسانی حقوق کا عظیم چارٹر دینے والے محسن انسانیت آپؐ ہی ہیں۔ اور یہ بھی ایک مسلم امر ہے کہ مدینہ کو حضور اکرمؐ کا شہر کہا جاتا ہے۔ خالق ارض و سما نے یقیناً ازل سے ہی خاک مدینہ کے لیے دائمی عظمتیں اور نعمتیں مقرر کردی تھیں۔ لاریب اسلام مکہ کی گھاٹیوں پر اترا لیکن اس آفتاب جہاں تاب کی کرنیں مدینہ کے افق سے پھوٹیں۔ کیا شہر دلبر ہے کہ نبی کریمؐ کی دعاؤں میں رچ بس گیا اور کیا مقام ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان دعاؤں کی پوٹلیاں باندھے دربار رسالت مآب حضرت محمد مصطفی ﷺ میں حاضری دیتے اور تسکین قلب و جاں کی جھولیاں بھر بھر کر لے جاتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سبھی کو بلکہ پوری امت مسلمہ کو حضور اکرمﷺ کی باوصف ذات، ان کی سیرت طیبہ کو اپنے اندر جذب کرنے کی ہدایت میسر آجائے، بلاشبہ وہ پوری دنیا کے رول ماڈل کے طور پر پیش ہوسکتے ہیں بس یہ بات ''ماننے' کی دیر ہی تو ہے۔ آج پوری دنیا میں جس افراتفری، نفسانفسی، آپا دھاپی کا دور دورہ ہے وہ سب اسی وجہ سے ہے کہ ہم اللہ اور اس کے محبوبﷺ کے اسوہ حسنہ سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔ ہم سبھی کو اپنے اعمال و افکار سے خود کو حضور اکرمؐ کا صحیح معنوں میں امتی بنانا چاہیے کیونکہ اگر حشر کے میدان میں شافع محشر ﷺ نے ہم سے اپنا رخ انور پھیر لیا تو پھر ہم کس کے پاس جاکر شفاعت کا سوال کریں گے؟ اگر رحمت اللعالمین ﷺ ہم سے روٹھ گئے تو پھر کس کے دامن رحمت میں ہم پناہ لیں گے؟
اب بھی دیر نہیں ہوئی، اب بھی سبھی کچھ ختم نہیں ہوا یا کچھ نہیں بگڑا، وقت کے ہر لمحے کو ہمیں ''مہلت'' ہی جاننا چاہیے، ورنہ موت کے بعد ہمیں کوئی مہلت نہیں ملے گی۔