چیونٹی کے ہاں روز ماتم ہوتا ہے
صرف ان چھ سال میں ہی اسلام آباد جانے والی 3 فلائٹس گر کر تباہ ہوگئیں۔
صرف ان چھ سال میں ہی اسلام آباد جانے والی 3 فلائٹس گر کر تباہ ہوگئیں۔ 28 جولائی 2010 کو ایئر بلو کا ایئر بیس 321 طیارہ اسلام آباد کی پہاڑیوں میں اس وقت گر کر تباہ ہوگیا جب اسے لینڈنگ کرنی تھی۔ طیارے میں موجود تمام 152 افراد ہلاک ہوگئے۔ 20 اپریل 2012 کو بھوجا ایئر کا بوئنگ 737 اسلام آباد کے باہر گر کر تباہ ہوگیا۔ تمام 127 لوگ ختم ہوگئے۔
7 دسمبر 2016 کو PIA طیارہ اسلام آباد آتے ہوئے حویلیاں کے پاس پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہوگیا، تمام 47 انسان زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صرف ان تین فلائٹس کے یہ 326 افراد بنتے ہیں، جو کسی نہ کسی کی غفلت، غلطی، نا اہلی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر موت کے گھاٹ اتر گئے، مگر کیا ذمے داروں کا تعین کیا گیا؟ کیا کسی اعلیٰ بیوروکریٹ کی نوکری ختم ہوئی؟ کیا کسی وزیر کی وزارت گئی؟ کیا کسی نے استعفیٰ دیا؟ کیا کسی کو سزا ہوئی؟ کیا سسٹم میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ ملک میں ایوی ایشن سیفٹی کا معیار واقعی بہتر ہوسکے؟ کیا ان جانوں کے جانے سے کسی حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑا؟ کیا کسی حکومت میں کسی نے بھی ذرا سی بھی انسانیت اور ذمے داری کا معمولی سا بھی احساس کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مزید چمٹے نہ رہنے کا فیصلہ کیا؟ جی نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
4 جنوری 1990 کو سکھر کے نزدیک سانگی میں بہاؤ الدین زکریا ایکسپریس کے مال گاڑی سے تصادم کے نتیجے میں 307 لوگ ہلاک ہوگئے۔ 13 جولائی 2005 کو گھوٹکی میں کراچی ایکسپریس، کوئٹہ ایکسپریس اور تیزگام کے تصادم کے نتیجے میں 109 افراد جان سے گئے، 3 نومبر 2016 کو لانڈھی ریلوے اسٹیشن کراچی میں فرید ایکسپریس اور بہاؤ الدین زکریا ایکسپریس کے ٹکرانے سے 21 اس انسان لقمہ اجل بن گئے۔ آپ صرف ان 3 حادثوں میں ہی دیکھیں تو 437 لوگ جاں بحق ہوگئے، کسی نے استعفیٰ دیا؟ کسی کی اعلیٰ پوسٹ، کسی کی وزارت چھنی؟ کسی کو سزا ملی؟ کیا سسٹم کو اوور ہال کیا گیا؟ کیا اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سیفٹی اسٹینڈرڈز کو اتنا بہتر بنالیا جائے کہ اس طرح کے ''واقعات'' کے امکانات کم سے کم ہوسکیں؟ جی نہیں ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔
اور ایسا کچھ ہو بھی کیوں؟ کتنی ہی چیونٹیاں روز مرتی ہیں، کتنی پیروں تلے کچلی جاتی ہیں، تو بھلا چیونٹیوں کی کیا اہمیت؟ چیونٹیوں کے گھر تو روز ماتم ہوتا ہے۔ اب بھلا اس ماتم کی کیا اوقات؟ اس ملک پر قابض کرپشن اور نا اہلی کے نظام کے پاؤں تلے روز ہی کتنے عام پاکستانی جانوں سے جاتے ہیں، کبھی سڑکوں پر، کبھی پٹڑیوں پر، کبھی فضاؤں میں، کبھی اسکولوں میں، فیکٹریوں اور گوداموں میں، کتنی ہی چیونٹیاں اس لامحدود کرپٹ اور نااہل نظام کے پیروں تلے کچلی جاتی ہیں۔ کبھی دیکھا آپ نے کہ اس نظام کے کسی اعلیٰ کل پرزے کو کوئی سزا ملی ہو؟
عام پاکستانیوں کے پھانسی پر چڑھ جانے کے برسوں بعد عدالتیں ان کی بے گناہی کا اعلان کرتی ہیں اور لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو لوٹنے والے وی وی آئی پی پروٹوکول اور کروڑوں کے بعد اربوں اور پھر کھربوں کی لوٹ انجوائے کرتے ہیں۔ فیکٹری میں آگ میں سیکڑوں زندہ جل جائیں اور یہ سیاست کھیلتے ہیں۔ اسکولوں میں بچے شہید ہوجائیں، پھر یہ اسکولوں میں حفاظتی اقدامات کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ عمل جن پر پھر بھی نہیں ہوتا۔ پولیس اکیڈمی پر حملے کے بعد یہ پکی دیوار بننے کے آرڈر جاری کرتے ہیں۔ درجنوں لوگوں کے سمندر میں ڈوبنے کے بعد یہ سمندر میں نہانے پر پابندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہوٹل کی آگ میں درجن بھر لوگ مرجائیں یعنی درجن بھر چیونٹیاں جان سے جائیں، پھر یہ ہوٹلوں میں سیفٹی اقدامات کے معائنے کا اعلان کرتے ہیں۔
تھر میں سیکڑوں، ہزاروں بچے علاج معالجے اور غذائیت کی کمی سے مرجائیں، یہ فیسٹیول مناتے ہیں۔ دریا، جھیل، سمندر آلودگی سے زہریلے ہوجائیں، یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اپنے لیے ان کا سیکڑوں سپاہیوں اور اپنے مسلح گینگز کا پروٹوکول بھی کم دکھائی دیتا ہے، غریب عوام کی دہائیاں دیتے ہیں اور نزلہ، زکام، کمر کے درد کے علاج کے لیے بھی یہ لندن اور امریکا سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ چیونٹیوں کے لیے یہ اس ملک میں ایسی سرکاری علاج معالجے کی سہولتیں نہیں پیدا کرتے۔ کیوں کریں؟ چیونٹیاں تو ہوتی ہی پیروں تلے کچلی جانے کے لیے ہیں۔ چیونٹیوں کے ہاں تو روز ماتم ہوتا ہے۔
8 اکتوبر 2005 کے زلزلے میں سیکڑوں بچے اپنے اسکولوں کی عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہوگئے، کیوں کہ کرپشن کی وجہ سے ناقص اور کمزور تعمیرات کی گئی تھیں۔ کسی کو سزا ملی؟ نہیں ملی۔ 2010 کے سیلاب میں تقریباً 2 ہزار لوگ جانوں سے گئے، 43 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، پھر کیا ہوا، اربوں روپوں کی امداد کرپشن کی نذر ہوگئی۔ دوست ملک کے وزیراعظم کی اہلیہ کا سیلاب زدگان کی امداد کے لیے دیا گیا ان کا ذاتی ہار تک ''پار'' کرلیا گیا۔ کیا ان میں سے کسی کو ذرا بھی احساس ہوا؟ ان میں سے کسی کو کبھی کوئی سزا ملی؟ جی نہیں کیوں ملے بھلا؟
چیونٹیاں تو ہوتی ہی پیروں تلے کچلی جانے کے لیے ہیں۔ ان کی کیا اہمیت کیا اوقات؟ یہی وجہ ہے کہ اس انسان دشمن کرپٹ اور نا اہل نظام کو چلانے والے بڑی سے بڑی کرپشن، مجرمانہ سے مجرمانہ نا اہلی پر بھی نہ ہی خود کبھی استعفیٰ دیتے ہیں نہ اپنے کسی وزیر امیر بیوروکریٹ کو ہٹاتے ہیں، نہ استعفیٰ دینے کو کہتے ہیں، کیوںکہ یہ عامیوں کی، فانی انسانوں، چیونٹیوں کی عادتیں نہیں بگاڑنا چاہتے۔ یہ جانتے ہیں اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو ان کے امیروں، وزیروں، عہدیداروں تک پہ رکے گا نہیں، ایک دن ان تک بھی پہنچ جائے گا۔ یہ جانتے ہیں کہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو مجرمانہ نا اہلی تک رکے گا نہیں، کرپشن تک بھی پہنچ جائے گا ایک دن۔ چنانچہ یہ ایسی کوئی بدعت شروع ہی نہیں ہونے دیتے۔
چنانچہ چاہے کرکٹ ٹیم کتنے ہی ورلڈ کپ، کتنی ہی سیریز ہار جائے، پی سی بی کے چیئرمین پورے دانت نکال کر ہنستے رہتے ہیں۔ ATR طیارے کے گرنے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر فتویٰ صاد کردیا جاتا ہے کہ نہ تو یہ انسانی غلطی تھی نہ تکنیکی۔ ان کو پتا ہے یہ نظام ان کی کرسیوں کی حفاظت کرے گا۔ ان کی دیکھا دیکھی کچھ نیچے بھی یہی حال ہے، پاکستان ریلوے کے ڈرائیورز احتجاج کرتے ہیں کہ حادثوں میں مبینہ ملوث ڈرائیورز کو کچھ زحمت نہیں ہونی چاہیے۔ کہیں کہاوت پڑھی تھی کہ چیونٹیوں کے گھر روز ماتم ہوتا ہے۔ کہیں یہ بھی کہاوت پڑھی تھی کہ پاؤں تلے آئی چیونٹی بھی کاٹ لیتی ہے، مگر یہ چیونٹیاں نہ جانے کیسی ہیں، روز ہی پاؤں تلے آتی ہیں مگر پلٹ کے کاٹتی نہیں۔