گلوبل سامراج اور پاکستان
پاکستانی قوم کی بڑی تعداد ان مذہبی گروہوں کی حامی بن گئی ہے جو ریاست اور فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں.
یہ ستم ظریفی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایک المیہ ہے کہ امریکا ہی اس وقت واحد طاقت ہے جو دنیا کو بگاڑنے اور سنوارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اب تک تو مجموعی طور پر اس نے بگاڑا ہی بگاڑا ہے خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد۔ برطانوی سامراج ہو یا امریکی سامراج اپنی فطرت اور ساخت میں ایک ہی ہیں۔ اس سے پہلے ہم پرتگالی سامراج ، اطالوی سامراج اور فرنچ سامراج کو بھی دیکھ چکے ہیں۔ نام ان سب کے مختلف ہیں لیکن کردار ان سب کا ایک ہی تھا ایک ہی رہے گا۔ یعنی ملکوں قوموں کو فتح کر کے ان کو اپنا غلام بنانا اور ان کے وسائل کو ہڑپ کر کے اپنی بالادستی اور بادشاہت قائم رکھنا۔ ابتدا میں سامراج صرف ایک قوم پر مشتمل ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اپنی بادشاہت کو طوالت دینے کے لیے کئی قوموں پر مشتمل جدید دور کا نیا سامراج وجود میں آیا۔ جس کو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔ کئی اقوام پر مشتمل یہ سامراج کیوں وجود میں آیا یہ قابل غور ہے۔
جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ سامراج کا کردار ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے، چاہے اس کاکوئی بھی نام ہو اور کسی بھی زمانے سے تعلق رکھتا ہو۔ جب کسی سامراج کی آدھی دنیا پر بالا دستی ہو جاتی ہے اور وہ اسے فتح کر لیتا ہے تو وہ ایسا اس وقت ہی کر سکتا ہے جب وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو قتل کر دے اور جب انسان قتل ہوتے ہیں تو ان کے جسموں سے پانی نہیں خون ہی نکلتا ہے۔ ایسا اس وقت بھی ہوا جب مسلمان دنیا کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوئے اور ایسا ہی برطانوی اور امریکی سامراج نے بھی کیا، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں دنیا پر قبضہ کے لیے کروڑوں لوگوں کو مروا کے۔ براعظم آسٹریلیا پر قبضے کے لیے لاکھوں مقامی لوگوں کو قتل کیا گیا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا کر لاکھوں لوگوں کو ہلاک کر کے جدید تاریخ کا بدترین ظلم کیا گیا۔
شمالی اور جنوبی امریکا پر قبضے کے لیے مقامی آبادی ریڈ انڈین کو ہلاک کیا گیا اور سب سے بڑا ظلم تو افریقہ میں ہوا جہاں لاکھوں افریقیوں کو بحیثیت غلام امریکا لے جایا گیا اور ان میں سے 90 فیصد بحری سفر کی صعوبتوں' بھوک' بیماریوں اور ظلم کو برداشت نہ کرتے ہوئے راستے ہی میں دم توڑ گئے اور ان کی آخری آرام گاہ و قبرستان بحر اوقیانوس بنا۔ یہ تفصیل بھی ہمارے پاس اس لیے ہے کہ یہ اعداد و شمار جدید دور کی وجہ سے ہم تک پہنچ پائے لیکن ماضی کے سامراجوں کے ظلم و ستم کی داستان بھی کم ہولناک نہیں لیکن وقت نے ان کی تفصیلات پر مٹی ڈال دی ہے۔ آخر دنیا کا بادشاہ بننا مذاق تو نہیں۔ ظلم ظلم ہی ہوتا ہے چاہے کوئی بھی کرے۔ دوسروں کے ہیرو ہماری نظروں میں قاتل ٹھہرتے ہیں اور ہمارے دوسروں کی نظروں میں۔ انسان کی جبلت میں شامل ہے دوسروںکو غلام بنانا۔ ملکوں اور قوموں کو فتح کرنا۔
وہ نسلی، لسانی، تہذیبی، مذہبی برتری کے ذریعے دوسروںکو غلام بنانے سے کم پر راضی نہیں۔ کبھی یہ نظریے کی آڑ میں دوسروں کو اپنا غلام بناتا ہے۔ حالانکہ نظریاتی غلامی جسمانی غلامی سے بدتر ہے۔ جسمانی غلامی میں تو اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ کسی وقت اس غلامی سے نجات پاجائے لیکن نظریے اور نظریاتی غلامی میں انسان کا ذہن غلام ہوجاتا ہے اور یہ غلامی ایسی ہے کہ انسان اسے بہ رضا رغبت خوش دلی سے اختیار کرتا ہے اور خود بھی اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ اور اس کی آیندہ آنے والی نسلیں کتنی بڑی غلامی میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ یہ زیب نہیں دیتا، وہ کسی بھی قسم کی جسمانی یا نظریاتی غلامی میں مبتلا ہو۔ دنیا کے ''بیشتر انسان'' جس نظریاتی غلامی میں مبتلا ہیں وہ وقت حالات کا جبر اور دبائو ہے' اس میں ان کا اپنا ذاتی کوئی کردار نہیں۔ جس نظریے پر وہ عمل کررہے ہیں وہ اس پر اس لیے عمل کررہے ہیں کہ انھیں یہ باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے۔
لاکھوں انبیاء ' پیغمبرآئے لیکن دنیا آج بھی ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہے۔ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے جہاں پر ہزاروں سال پہلے تھا۔ ہر طرح کا ظلم و جبر جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سب سے کمزور مخلوق عورتوں اور بچوں پر ظلم سب سے زیادہ ہے۔
آج کا سامراج بھی ہزاروں سال میں ترقی کر کے ''گلوبل سامراج'' بن چکا ہے۔ اب اس کو شکست دینا ایک طرح سے ناممکن ہو گیا ہے کیوں کہ اس میں ہر ملک کا مقامی سامراج بھی شامل ہو چکا ہے۔ مقامی حکمران طبقات ہوں یا عالمی حکمران طبقات دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کہ دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے ہزاروں سال سے غلام عوام کو غلامی کے شکنجے سے نہ نکلنے دیا جائے۔ ہم جیسے ملکوں میں جب میڈیا کو ''آزاد'' کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ واقعی عوام کو آزادی دے دی جائے۔ آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام کو بس اتنی سہولت ضرور دی جائے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ''بغاوت'' نہ کر سکیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں آج بھی 60 کروڑ لوگ لیٹرین کی سہولتوں سے محروم نہ ہوتے اور نہ ہی وہاں 50 کروڑ عوام فاقے کی لکیر پر ہوتے جہاں انسان اور جانور کے درمیان تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ حالانکہ وہاں آزاد عدلیہ بھی ہے، آزاد میڈیا بھی اور جمہوریت بھی پچھلے 65 سالوں سے قائم دائم ہے۔
سامراج اور مقامی سامراج نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ ماضی قریب میں ان سے جو فاش غلطی سرزد ہوئی وہ خطے میں ایرانی بادشاہت کا خاتمہ تھا جس سے سامراجی مفادات کو ناقابل تلافی تباہ کن نقصان پہنچا لیکن سامراج نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا کہ پہلے تو جنگ کے ذریعے ایرانی انقلاب کو محدود کیا گیا اور اب اس کے گرد اس طرح گھیرا ڈال لیا ہے کہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد دنیا میں خاص طور پر ہمارے خطے میں امریکا مخالف انقلاب کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی کیونکہ سیکڑوں سال پرانے شیعہ سنی تضادات کا ''فائدہ'' اٹھاتے ہوئے امریکا اسرائیل اور عرب باشادہتوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔
ماضی میں سامراج کو پسپائی اور شکستیں بھی ہوئیں۔ ''عارضی طور پر'' اس کی بالادستی کا خاتمہ بھی ہوا۔ چنانچہ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے گلوبل سامراج کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ دنیا کو گلوبل قرار دے کر اس پر آسانی سے حکومت کی جا سکے۔ اب ملکوں کو توڑنے کے لیے روایتی جنگوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اب مذہب نسل زبان کے نام پر ایسے گروہوں کی سرپرستی کی جاتی ہے جو ریاستی ڈھانچے کو اندر سے توڑ کر اس مطلوبہ ریاست کا خاتمہ کر دیں تاکہ اسے حسب منشا شکل دی جا سکے۔ یہ دور جدید کی جنگوں کی نئی شکل ہے کہ جس میں اپنا ایک بھی آدمی مروائے بغیر دنیا پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔
پاکستان کو بھی اس وقت ایک ایسی بے چہرہ جنگ کا سامنا ہے جس میں اس کا دشمن مذہب کے نام پر مذہبی گروہوں کو پاکستانی ریاست سے لڑوا رہا ہے تاکہ پاکستان کی ایٹمی طاقت کا خاتمہ اور اس کے ایٹم بموں پر قبضہ کیا جا سکے۔ ہزاروں سال کے حاصل کردہ تجربے کے بعد گلوبل سامراج کی مسلط کردہ یہ وہ جنگ ہے جس میں پاکستانی قوم کی ایک بڑی تعداد ان مذہبی گروہوں کی حامی بن گئی ہے جو پاکستانی ریاست اور پاکستانی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں... ہے ناکمال کی بات جس پر گلوبل سامراج کو داد دی جا سکتی ہے کہ اس نے مذہب کے نام پر کس طرح پاکستانی عوام کی نظروں میں دھول جھونکی ہے ... رہے نام اللہ کا۔
ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے پوشیدہ حقائق جنوری فروری 2013ء سے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔