ایک جرأت مندانہ فیصلہ
پاکستانی شہری کا کوئی بھی عقیدہ ہو، اسے وہ تمام شہری حقوق حاصل ہیں، جن کی آئین پاکستان نے ضمانت دی ہے
گزشتہ پیر کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کو عالمی شہرت کے حامل نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے موسوم کرنے کا انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی طبیعیات کے شعبے میں انھی کے نام سے اعلیٰ تعلیم کے لیے پانچ فیلوشپس کا بھی اعلان کیا۔ ایک سیاسی وسماجی غلطی، جس کی درستی 37 برس بعد ممکن ہوسکی، ایک خواب جس کی تعبیر میں چار دہائیاں لگ گئیں۔ لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اچھا فیصلہ جب بھی ہوجائے، قابل قدر ہوتا ہے اور اس میں تاخیر قابل معافی۔
کسی پاکستانی شہری کا کوئی بھی عقیدہ ہو، اسے وہ تمام شہری حقوق حاصل ہیں، جن کی آئین پاکستان نے ضمانت دی ہے۔ لہٰذا کسی بھی شہری کو تفویض کیے جانے والے کسی بھی اعزاز کا تعلق اس کے عقائد و نظریات سے قطع نظر اس کی اہلیت، قابلیت اور کارکردگی سے ہوتا ہے، جسے ریاست شرف قبولیت بخش رہی ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں عقائد ایک انتہائی حساس اور نازک جذباتی مسئلے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
جس کی وجہ سے ریاست کی مقتدر اعلیٰ ایسے افراد کی اعلیٰ کارکردگی کو سراہنے اور صلے میں اعزازات دیتے ہوئے ہچکچاتی ہے، جن کے بارے میں بعض عوامی حلقوں میں ناپسندیدگی انتہاؤں پر پہنچی ہوئی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ طبیعیات کے شعبے میں بے بہا خدمات سرانجام دینے اور پاکستان کے لیے پہلا نوبل انعام جیت کر لانے والے سائنسدان کو قومی سطح پر قبولیت حاصل کرنے میں 37 برس لگ گئے۔
جدید دنیا کے جمہوری معاشروں میں شہریت عقائد سے مشروط نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ہر ملک کے قوانین میں کچھ مخصوص شرائط ضرور ہوتی ہیں۔ مگر ان کا تعلق شہری کے عقائد، نظریات، رنگ ونسل اور لسان سے نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شہری اپنی قابلیت، اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کا حق رکھتا ہے۔
اگر امریکا کے آئین میں تمام شہریوں کے لیے مساوی شہریت کے حقوق کا تصور نہ ہوتا، تو کینیا سے تعلق رکھنے والے نیگرو مسلم باپ کا بیٹا بارک حسین اوباما کبھی امریکا کا صدر نہیں بن پاتا، پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان صادق خان لندن کا میئر نہ بن پاتا۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپ اور امریکا میں مختلف مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد جب متعلقہ ملک کی قومیت کی مطلوبہ شرائط پوری کردیتے ہیں، تو انھیں مکمل شہری حقوق حاصل ہوجاتے ہیں، جن میں سیاسی حقوق بھی شامل ہوتے ہیں۔
مسلم معاشروں کی سماجی اور سیاسی پسماندگی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان معاشروں میں علم و دانش اور تحقیق وتخلیق کی قدر کرنے کے بجائے محققین کے ساتھ ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ان کے تحقیقی کاموں میں رکاوٹیں ڈالنے کے علاوہ بیشتر مواقع پر ان کی تحقیقات کو نذرآتش بھی کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحقیق وتخلیق کا عمل تین صدیوں تک جاری رہنے کے بعد رک گیا۔
اس سلسلے میں معروف سماجی دانشور ڈاکٹر اقبال احمد مرحوم کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا میں آٹھویں صدی میں شروع ہونے والی تحقیق وتخلیق کے عمل کا بارھویں صدی کے آنے تک اس لیے رک گیا، کیونکہ درباری علما کے علاوہ خود حکمرن اشرافیہ نے بھی اہل علم دانش اور محققین کے ساتھ عقیدے کی بنیاد پر معاندانہ رویہ اختیار کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنسی ترقی کا وہ سورج جسے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا سے طلوع ہونا تھا، سولہویں صدی میں یورپ سے طلوع ہوا۔ جس نے مسلم محققین کی تحقیق سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے آگے بڑھایا تھا۔
اس سلسلے میں ان گنت مثالیں ہیں، مگر موضوع کی مناسبت سے صرف چند مثالیں ہی دی جاسکتی ہیں۔ نویں صدی کا باوصف فلسفی، ماہر فلکیات و ریاضی ابو یوسف یعقوب بن اسحاق الکندی اپنے دور کا روشن خیال فلسفی تھا۔ اسے بابائے عربی فلسفہ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ معتزلہ فکر سے متاثر تھا، جس کی وجہ سے مامون الرشید نے اسے دانش کدہ (House of Wisdom) کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ مگر المتوکل غیر مسلموں کے علاوہ روشن خیال مسلمانوں کو بھی شدید ناپسند کرتا تھا۔ لہٰذا اس نے الکندی کی لائبریری ضبط کرکے اسے جیل میں ڈال دیا، جہاں اس کی موت واقع ہوئی۔ اس کی تحقیق کا بڑا حصہ بھی ضایع ہوگیا۔ جو تحقیقی مقالہ جات بچ گئے، یورپ نے انھی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
فلسفی، ماہر فلکیات، طب اور موسیقی ابونصر محمد الفارابی، جسے ارسطو ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، یونانی فلسفے کو عربی کے قالب میں منتقل کیا۔ اسے درباری علما کی منافرت اور محلاتی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ برٹرینڈ رسل جیسا عظیم فلسفی یہ تسلیم کرتا ہے کہ مغرب نے یونانی فلسفہ کی اہمیت کو ابو نصر فارابی کی وجہ سے سمجھا۔ یہی کچھ معاملہ گیارہویں صدی کے فلسفی، ماہر طب و فلکیات اور عمرانیات بوعلی سینا کے ساتھ تھا۔
اسے بھی عقیدے کی بنیاد پر مختلف نوعیت کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ بوعلی سینا کی طب پر لکھی کتب کئی صدیوں تک یورپ کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔ اس نے پرائمری اسکول سے جامعات تک تدریس کی درجہ بندی بھی کی تھی، جو آج تک مشرق و مغرب کے تعلیمی اداروں میں مستعمل ہے۔
محمد بن احمد ابن رشد بارہویں صدی کا عظیم فلسفی تھا۔ وہ ماہر قانون، عمرانیات اور سیاسیات کے علاوہ فلکیات اور موسیقی کے اسرار و رموز پر قدرت رکھتا تھا۔ وہ امور سلطنت کو عوام الناس کے عقائد سے الگ رکھنے کا حامی تھا۔ اس حوالے سے اس نے ریاستی انتظامی ڈھانچہ کا جو نظریہ پیش کیا، وہ بعد میں سیکولرازم کہلایا۔ اسی بنا پر اسے سیکولرازم کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ یورپ میں مقبول سیکولر نظریات ابن رشد کے تصور ریاست ہی سے مستعار لیے گئے ہیں۔
اسپین کے حکمران منصور ثانی نے درباری علما سے فتویٰ لینے کے بعد اس کی جملہ کتب کو قرطبہ کے مرکزی چوک میں نذر آتش کروا دیا اور بوڑھے ابن رشد کو ملک بدر کردیا۔ آخری عمر میں اپنی تحقیق کا جس قدر حصہ وہ دوبارہ لکھ سکا وہی بہت بڑا علمی ذخیرہ تصور ہوتا ہے۔ اس کا جلاوطنی میں مراکش میں انتقال ہوا۔
عمر خیام کو مسلم دنیا اس کی رباعیات کے حوالے سے پہچانتی ہے، جب کہ مغرب میں اس کی عزت اور احترام کا سبب اس کا ریاضی، فلسفہ اور فلکیات میں کیا گیا کام ہے۔ ریاضی کا ایک اہم موضوع Binomial Theorem اس کی تخلیق ہے، جس کی وجہ سے کمپیوٹر کی تخلیق ممکن ہوسکی۔
اسی طرح اس نے حساب کتاب کی مدد سے ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر 365.25 دن میں مکمل کرتی ہے، اس لیے شمسی سال کو متوازن رکھنے کے لیے فروری کو 366 دن کا کرنے کا مشورہ دیا۔ عمر خیام کو بھی اپنے عقائد کی وجہ سے ایران بدر ہوکر مصر میں پناہ لینا پڑی۔ یہ تاریخ سے چند مثالیں تھیں، جو ڈاکٹر اقبال احمد مرحوم کی اس بات کی توثیق ہیں کہ اگر مسلم معاشروں میں عقیدے کی بنیاد پر محققین کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جاتا، تو صنعتی ترقی کا سورج یورپ میں نہیں مسلم دنیا ہی میں طلوع ہوتا۔ میاں محمد نواز شریف کی جانب سے ڈاکٹر عبدالسلام کی حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کیا جانا قابل صد ستائش ہے۔