’’میں‘‘ اور ہم
انسان خدا کی اعلیٰ ترین خلقت ہے۔ اس کا ذکر اس نے کیا ہے جو احسن الخالقین ہے
انسان خدا کی اعلیٰ ترین خلقت ہے۔ اس کا ذکر اس نے کیا ہے جو احسن الخالقین ہے، یعنی سب سے اچھا خلق کرنے والا۔ یعنی پروردگار عالم کو علم تھا، ہے کہ میں جو خلق کر رہا ہوں وہ بہترین ہے اور یہ تو خود اس سے بہتر کوئی جان نہیں سکتا کہ وہی تو ہے سب سے بہتر خلق کرنے والا۔
جب ہم کوئی ایجاد کرتے ہیں، اختراع کرتے ہیں، راستہ نکالتے ہیں تو اس وقت ہم اپنے آپ کو گویا خدا محسوس کرنے لگتے ہیں ''یہ میں نے کیا ہے''۔ یہ ''میں'' ہی وہ تکبر کا بدترین لمحہ ہے، کیونکہ ''میں'' کو اگر اس وقت صرف یہ یاد آجائے کہ اس ''میں'' کو کس نے تخلیق کیا ہے تو غبارے میں سے ساری ہوا نکل جائے، مگر ہم اپنی جھوٹی انا کو مجروح نہیں ہونے دیتے، ہم اس غبارے میں ہوا بھرتے رہتے ہیں تاوقتیکہ اس غبارے کا وقت آخر آجائے یا یہ غبارہ پھٹ جائے۔ لوگ غبارہ پھوٹنا بھی بولتے (کہتے) ہیں، مگر غبارہ پھوٹتا نہیں ہے پھٹتا ہے، پھوٹتا تو پودا ہے، کوئی نئی چیز، خیال، یہ سب پھوٹتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک لفظ درمیان میں آگیا، کون بھلا اب اردو زبان پر توجہ دے، جو 70 سال بعد بھی اس ملک میں رائج نہ ہوسکی، جس ملک کو اسی زبان میں نعرے لگا کر، لڑ کر دشمنوں سے حاصل کیا تھا۔ یہ دوسری بات ہے، لہٰذا اب ابتدا پر ہی واپس چلتے ہیں کہ وہ احسن الخالقین ہے اور انسان احسن تقویم ہے، مگر بنانے والے اور ''بننے'' والے کا رشتہ کیا ہے اور ہم نے کیا بنادیا ہے۔ پروردگار عالم یعنی احسن الخالقین نے تو اپنے ارادے اور عزم کو بار بار کتاب ہدایت میں بتادیا ہے کہ میں نے کہ صرف ''میں'' کا سزاوار ''میں'' ہی ہوں، تمہیں خلق کیا ہے کہ تم اس جہان میں رہو، ایک خاص انداز میں اور وہ انداز ہے امن اور آشتی اور ایک مقررہ وقت جو سب کا الگ الگ ہے، گزار کر میں تمہیں واپس بلا لوں گا، پھر دیکھیں گے کہ تم نے جو ''میں'' نے کہا تھا۔
اس پر کس قدر عمل کیا اور تمہارا عمل ہی میری خوشی، زیادہ خوشی، بے حد خوشی یا ناراضگی، بہت ناراضگی اور بے حد ناراضگی کے نتائج ظاہر کرے گا اور میں حقدار ہوں گا کہ تمہارے عمل کے مطابق تمہیں ان جگہوں پر بھیج دوں جو میں نے تمہارے عمل کے مطابق پہلے ہی تیار کر رکھی ہیں۔ ہر ایک کے لیے یہ ایک Standard فارمولا ہے جس پر عمل ہونا ہی ہے، الا کہ تم کوئی ایسا کام کردو کہ جس سے میں اپنے طے شدہ فارمولے سے ہٹ کر جزا یا سزا کا حکم دے دوں، میں ہی یہ کرسکتا ہوں اور صرف مجھے ہی اس کا حق اور طاقت ہے۔
بات آسان اور سیدھی ہے، اور اس سے سیدھی بات دنیا کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے اور ہرگز نہیں کرسکتے کہ آپ خالق تو ہوسکتے ہیں نظریے کے، خیال کے، اشیا کے مگر احسن الخالقین نہیں، یعنی آپ خود کو خلق نہیں کرسکتے تو پھر آپ کو سپرپاور یعنی اللہ کا حکم ماننا ہی ہے۔ دینی گفتگو ہم نہیں کرتے کہ یہ ہمارا منصب نہیں ہے، ہم دین کو دنیا کی ضرورت کے مطابق جانتے اور سمجھتے ہیں اور صرف اتنی ہی گفتگو کرتے ہیں۔ دین کو دین کی طرح تسلیم کرنا کچھ اور لوگوں کا کام ہے۔
تو جب دنیا میں سارا کھیل Power کا ہے تو پھر اس کھیل کے خالق کو ہم بھلا الگ کیسے کرسکتے ہیں، کیوں دنیا میں ظلم ہو رہا ہے، ظالم کامیاب کیوں ہیں، دنیا میں براہ راست اور بالواسطہ عوام یعنی عام لوگوں کے ساتھ ظلم کیوں ہو رہا ہے جس میں ہمارا ملک صف اول میں ہے تو اس کے وہی دو اصول ہیں ۔ عمل اچھا، عمل برا اور اس کے دو ہی نتائج ہیں جزا بہترین، سزا بدترین۔
کیونکہ یہ سب بتا دیا گیا ہے۔ کتاب حکمت، کلام پاک میں تمام تر صراحت اور تشریح کردی گئی ہے لہٰذا دنیا کی کوئی قوم (صرف مسلمان نہیں) قرآن پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے صرف اتنا ہے کہ یہ آخری امت ہے اور قرآن آخری کتاب، مگر اس کے حوالہ جات اور ریفرنسز آیات کی صورت تمام عالم انسانی کے لیے ہیں اور کہہ دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے سب منسوخ، کیونکہ اس میں وہ سب شامل ہے اور یہ عام اصطلاح میں جدید ایڈیشن ہے دین کا، تو تمام قوموں پر اسے ماننا اور جاننا ضروری ہے اور یہ اختیاری ہے۔
قرآن اور اسلام کو منوانے کے لیے اب اللہ نے لاٹھی اور ہتھیار اٹھانے کا حکم نہیں دیا ہے، اب یہ کام حسن اخلاق سے کرنا ہے، کیونکہ ہمارے رسولؐؐ کی ذات اخلاق اور حسن اخلاق کی اعلیٰ ترین ذات اور ان کا خاندان اور صحابہ کرامؓ اس کی روشن مثال ہیں۔ دنیا کو انھوں نے مسجد نبوی میں ٹاٹ پر بیٹھ کر یا مسجد کوفہ میں منبر پر بیٹھ کر نماز میں خیرات دے کر فتح کیا ہے۔
دنیا کی تعریف اگر آسان ترین کریں تو وہ انسان کا دل ہے۔ شاعر کہتا ہے نا کہ دل میں دنیا بستی ہے، شاعر کی دنیا کچھ اور مگر مقام تو دل ہی ہے نا۔ تو دراصل انسان کا دل جیتنا دنیا فتح کرنے کے برابر ہے شاعر نے کہا کہ:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
یہ درد دل کیا ہے۔ یہی اسلام ہے، یہی ہر دین کی اساس ہے، جو اسلام سے پہلے رائج رہے۔ درد کو محسوس کرتے ہی آپ کو اس سے آزاد ہونے کے لیے علاج کا خیال آتا ہے۔ یہ درد دل اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے کہ اس کی تلاش کرو اور اسے ختم کرو کہ یہ تمہارا کام ہے اور مجھے دیکھنا یہ ہے کہ تم نے درد دل کا علاج کیا کیا ہے، میں نے تاریکی میں اسلام کی روشنی دی ہے اور تمام علاج بتا دیے ہیں، اس طرح پوشیدہ کردیے ہیں کہ خود دل کے دروازے اپنے کھولو گے تو دوسروں کا درد دل تمہیں معلوم ہوجائے گا۔
اور تخلیق نے یا احسن مخلوق نے کیا کیا ہے؟ خوف کے پہرے بٹھا دیے ہیں دنیا پر، اسلحے کے انبار لگا دیے ہیں، مارو ایک دوسرے کو نہ دل رہے گا نہ درد دل کا سوال پیدا ہوگا۔ تم کون؟ میں کون؟ اب سوال انسان کا نہیں ہے۔ کون لگا دیا اس میں تاکہ اتحاد انسانی ختم ہوجائے۔ میں اس میں ابلیس کا نام نہیں لوں گا، اس نے دیوار پر میٹھا ضرور لگایا ہے، بقیہ کارروائی ہم نے خود کی ہے، یہ ہمارے اندر کا شر ہے۔
تو ہر معاشرے کے ذمے داروں نے، چاہے وہ کوئی بھی ہوں، ایک ہی راستہ اختیار کیا، خوف کا راستہ، حکمرانوں نے ظلم، جبر، استبداد کے ذریعے خوف طاری کیا، اس میں سلاطین بھی شامل ہیں اور دوسرے ملکوں کے حکمران بھی۔
ایک اور حصہ معاشرے کا جو کچھ اداروں کا بلاشرکت غیرے مالک ہے، گھر اللہ کا ہے، جہاں سب پانچ وقت عبودیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مالک کوئی اور ہیں، حالانکہ اللہ نے اپنا یہ گھر بھی سب کو دے رکھا ہے مگر ہم نے اس کا حال کیا کیا ہے، دنیا بھر میں خصوصاً مسلمان ملکوں میں۔ غیر مسلم معاشروں میں اس کا حال اچھا ہے۔
تو اس حصے نے اللہ کی مخلوق کے دل پر اللہ کا خوف اس طرح طاری کردیا ہے کہ شاید اللہ پاک خود بھی نہ چاہتے ہوں گے کہ ایسا کیا جائے۔ اللہ نے کیا ہم سب کو ڈرانے کے لیے پیدا کیا ہے؟ ہرگز نہیں، ہمیں ایک دوسرے کا ہم درد اور پیار کرنے والا ایک دوسرے سے پیدا کیا ہے، اس کے یہاں مسلم صرف مسلم ہے اور مسلم کو مسلم کی، مومن کو مومن کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ ایک طویل مضمون ہے جسے سادہ الفاظ میں سمجھنا، جاننا، اور دوسروں تک پہنچانا چاہیے اور ہم یہ کرتے رہیں گے، آپ بھی کیجیے، یہاں ہم ان جملوں پر غور کرتے ہیں جو سمجھانے کو ترتیب دیے جاتے ہیں، تو ان میں سے ایک جملہ ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔ خدا جزائے خیر عطا کرے اس شخص کو جس نے پہلی بار یہ جملہ اختراع کیا اور رائج کیا کہ یہ ایک بہترین جملہ اور بہترین راستہ ہے، غور شرط ہے اور جملہ ہے سب کے لیے، تمام قوموں کے ہر قسم کے دہشت گردوں کے لیے ، فسادیوں کے لیے جو معاشروں میں بگاڑ کے ذمے دار ہیں:
''ہم اللہ کو تو مانتے ہیں، اللہ کی نہیں مانتے''