مارکیز اورتنہائی کی کتاب
’’ میں اُس کے بارے میں ہزار برس تک، لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘
لاہور:
مارکیز نے کیوبا کے عظیم انقلابی لیڈر، چے گویرا سے متعلق کہا تھا '' میں اُس کے بارے میں ہزار برس تک، لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔''
میری بھی آرزو ہے کہ مارکیز کا ذکر چھڑے، میں بات کروں اور کرتا چلاجاؤں۔گو میں مارکیز سا زرخیز نہیں، مگر یقین ہے، جب اس کا ذکر چھڑے گا، تو 'تنہائی کے سو سال ' سے متعلق، 'وبا کے دنوں میں محبت' سے متعلق اور' ایک پیشہ گفتہ موت کی روداد' سے متعلق میرے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہوگا۔ کرداروں پر بات نکلے گی۔ ارسلا، ملکیاجیس، کرنل ارلیانواور سانتیاگو نصر کا ذکر آئے گا، 'وبا کے دنوں میں محبت 'کے فلورنتینو اورفرمینا پر بات ہوگی۔ ہم ان قصبوں پر گھنٹوں بات کرسکتے ہیں، جن میں سے ایک توماکوندا ہے۔
جہاں بلا کی گرمی پڑتی ہے اور کیلے کے باغات ہیں اور ریل کا انجن دھواں چھوڑتے داخل ہوتا ہے اور دوسرا وہ، جو بندرگاہ کے قریب ہے، جہاں بحری جہاز آکر لگتے ہیں، مجھے اعتراف کرنے دیجیے، میں مارکیز کے سحر میں مبتلا ہوں، اس عہد کو مارکیز کا عہد کہہ کر پکارتا ہے، میرے لیے اس کے فکشن پر، اس کی تکنیک پربات کرتا ہوئے غیرجانبدار رہنا ممکن نہیں۔ مگر مجھے اس کا غم نہیں۔ اس کا ایک سبب تو میرا یہ عقیدہ ہے کہ اگرآپ کسی کی محبت میں غیرجانبدار رہ سکیں، تو وہ محبت نہیں ہوسکتی اور دوسرا یہ خیال ہے کہ زندگی مختصر ہے،کچھ معاملات میں غیرجانبدار رہنے میں کوئی مضایقہ نہیں۔۔۔ مارکیز نے ایک بار کہا تھا، وہ اپنے فکشن کے ابتدائیہ پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔کبھی کبھار پورا افسانہ لکھنے سے زیادہ وقت ابتدائی سطر لکھنے میں صرف کردیتا۔
اس کی یہ بات مجھے اتنی بھائی کہ میں نے اسے کمرے کی دیوار پر لکھ کر چپکا دیا اور اپنے نوویلا 'تکون کی چوتھی جہت' اور 'گرد کا طوفان'لکھتے ہوئے بالخصوص پیش نظر رکھا۔ ایک شے اور ہے، جو اس سے سیکھی جاسکتی ہے، گو اس پر عمل کرنا سہل نہیں، وہ ہے ایک خاص جغرافیے اور ماحول کی طرف کمال مہارت سے بار بار پلٹنا۔ اُس قصبے کی طرف جہاں اس کی بچپن گزرا ،جو' تنہائی کے سو سال' میں ہمیں دکھائی دیتا ہے۔یوں لگتا ہے، ماکوندا کا پورا نقشہ مارکیز کے ذہن میں تھا۔ وہ ہر گلی محلے سے، بازاروں سے، چرچ کی سمت جاتی سڑک سے، سرکس اور ارسلا کے گھر سے ، ان درختوں سے، جنھوں نے سیکڑوں بار پت جھڑ کا وار سہا۔۔۔ ہر شے سے واقف تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں ایک دنیا بسا لی تھی۔ اس عنصر نے اس کے فکشن کو بے پناہ قوت بخشی۔ وہ جزئیات کا محتاج نہ رہا۔مارکیزکے ہاں چند سطر سے وہ احساس قاری تک پہنچ جاتا، جس کے لیے دیگرفکشن نگاروں کو کئی صفحے سیاہ کرنے پڑتے ۔
کہانی کے انجام کو، یا بہت بعد کے واقعے کو ابتدائی سطر میں بیان کرنے کا ڈھب اُس نے بڑی کامیابی سے برتا، جو قاری کے تجسس کو آسمان پر لے جاتا ہے۔ جیسے کرنل ارلیانو کا فائرنگ اسکوڈ کا سامنا کرنا یا سانتیاگو کی موت کا پہلی سطر میں اعلان۔ یہاں تک کہ وہ عنوانات کے ذریعے بھی یہ کوشش کرتا ، جیسے 'کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا'یا پھر 'بڑی ماما کا جنازہ' ۔۔۔مغرب نے مارکیز کی تکنیک کو جادوئی حقیقت نگاری کا نام دیا۔ البتہ وہ اُسے حقیقت کہنے پر مصر تھا، لاطینی امریکا کی حقیقت۔ اُس کی جادوئی حقیقت نگاری دراصل محیر العقول اور مافوق الفطرت واقعات پر اُس کے ہم وطنوں کا ، ٹھیک ہمارے ہم وطنوں کے مانند، معمول کا ردعمل ہے کہ وہ ناقابل یقین باتوں اور حیرتوں کو زندگی کا حصہ تصورکرتے ہیں۔ اُسے مغربی ناقدین سے شکوہ رہا کہ وہ اس کی کہانیوں کے طلسم سے تو باخبر ہیں، لیکن اس کے عقب میں چھپی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتے۔
مارکیز کا تاریخی شعورتو غضب کا تھا۔ وہ اپنے خطے کے سماجی، تاریخی اور مذہبی بیانیے کا گہراادراک رکھتا تھا۔ 6 مارچ 1928 کو شمالی کولمبیا کے گرم قصبے اراکا تاکا میں پیدا ہونے والا مارکیز اپنے پیدایش سے تین عشرے پہلے کے واقعے کے اثرکو، جب یونائیٹڈ فروٹ کمپنی ٹھیک ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح، کولمبیا آئی تھی، پوری طرح سمجھتا تھا۔اس کی پیدایش سے پہلے ہزار روزہ جنگ لڑی جاچکی تھی، ایک قصبے میں بنانا کمپنی کی ایک بڑی ہڑتال ہوئی تھی، جس میںہولناک قتل عام ہوا۔ یہ واقعات،ان کے اثرات ،وہ ہر شے کو مکمل گرفت کے ساتھ فکشن کا موضوع بنانے والا تھا۔ جب ولیم فاکنرکو ادب کو نوبیل انعام ملا، مارکیز کل وقتی صحافی بن چکا تھا۔ پہلا ناول 'پتوں کا طوفان' شایع ہونے کو تھا۔
پھر اس نے بے روزگاری کا کرب سہا۔ پیرس کے تلخ ایام میں وہ اپنے دوسر ے ناول پر کام کرتا تھا۔جب کرائے کے پیسے نہیں ہوتے،تو وہ ناول کا مسودہ ہوٹل میں بہ طور ضمانت رکھوا دیتا۔ 1967 میں 'تنہائی کے سو سال' شایع ہوا، جو اُسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ اسے 'دون کیہوتے' کے بعد ہسپانوی زبان کا سب سے مقبول ناول ٹھہرایا گیا۔وہ اِس مقبولیت کو ایک معمہ ٹھہرایا کرتا ۔ مارکیز سیاسی طور پر خاصا سرگرم رہا۔ فیڈول کاسترو سمیت لاطینی امریکا کے چند طاقتور حکمرانوں سے اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔
1981 میں 'پیش گفتہ موت کی روداد' شایع ہوا، جسے وہ اپنی بہترین تخلیقات میں شمارکرتا ہے۔ اس فہرست میں 'تنہائی کے سو سال' شامل نہیں۔وہ 'کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا' اور' سردار کے زوال' کو زیادہ اہم گردانتا ۔ 1982 میں اسے نوبیل انعام ملا۔ تین برس بعد ' وبا کے دنوں' میں محبت شایع ہوا۔ اِس ناول کی اشاعت کے کئی برس بعد، 18اپریل 2014 کو اس کا انتقال ہوا۔ اب مجھے کہنے دیجیے، اگر یہ واقعہ 2014 سے دس یا بیس برس پہلے رونما ہوجاتا،تب بھی مارکیز کی ادبی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 'وبا کے دنوں میں محبت' کی اشاعت تک وہ ہمیشہ زندہ رہنے کا انتظام کر چکا تھا۔
بجائے تفصیلات میں جانے کے میں چھوٹی چھوٹی باتیں، جو بے ربط ہیں، آپ سے بانٹنا چاہوں گا۔ تویہ اس کے نانا کا گھر تھا، جو اس کی زندگی کی سب سے دیرپا یاد بنا۔اس کی نانی طلسمی کہانیوں پلکیں جھپکے بنا سہولت سے سنا نے کا ہنر جانتی تھیں۔ اچھا،فکشن لکھنا اُس نے فقط یہ ثابت کرنے کے لیے شروع کیا کہ اس کی نسل بھی ادیب پیدا کرسکتی ہے اور پھر اس کے سحر میں مبتلا ہوگیا۔
یہ مکمل واقعات کے برعکس بصری مناظر تھے، جو اسے کہانی سجھاتے، جیسے پیرس میں ایک منی آرڈ کا انتظارکرتا ہوا بوڑھا، تیز دھوپ میں ویران سڑک پر چلتی ہوئی ماں بیٹی۔ اُسے ان موضوعات سے کبھی دل چسپی نہیں رہی، جنھیں وہ برسوں نظر انداز نہ کر سکے۔ صبح لکھتا، تو خاموشی کو اہم جانتا، اور رات کو لکھتے ہوئے غل غپاڑے کو۔ ناقدین اس کے ہاں ولیم فوکنر کا اثر دیکھتے تھے، جس پر اسے اعتراض نہیں اور جن کا وہ اعتراف کرتا ہے، ان میں کافکا ،ہیمنگ وے، گراہم گرین اور ورجینا وولف کا نام آتا ہے۔ کافکا کے The Metamorphosis اور حوان زلفو کے نوویلا Pedro Páramo کا وہ بالخصوص تذکرہ کیا کرتا ۔
اچھا، مارکیز کا اصرار تھا اور یہ بات ایک صحافی کے برعکس ایک فکشن نگار کے طور پر میں زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہوں کہ ہر ادیب زندگی میں، درحقیقت ایک ہی کتاب لکھتا ہے۔ ایک داستان، ایک قصہ۔ اورو ہی کتاب، وہی کہانی، مختلف عنوانات کے ساتھ، مختلف جلدوں میں پڑھنے والوں تک پہنچتی ہے۔ اب اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے کہ مارکیز نے فقط ایک کتاب لکھی ، تویہ کتاب، یقینی طور پر، تنہائی کی کتاب کہلائے گی۔ یہ عشروں، بلکہ پوری صدی پر محیط تنہائی ہے، جو ہمیں اُس کے ہر شاہ کار دکھائی دیتی ہے۔اُس کے کردار تنہائی تک پہنچنے کے لیے، فراموش کردیے جانے کے لیے ڈیڑھ ڈیڑھ سو برس تک جیتے ہیں، تاکہ ہر وہ شخص جو انھیں جانتا تھا، مر کھپ جائے۔ تواُس کی قلم میں تنہائی کی سیاہی تھی ۔یہی وہ مسئلہ تھا، جس سے اس کی نسل دوچار تھی، وہ خود دوچار تھا۔اور اُسی کتاب نے اسے امر کر دیا۔
(6 دسمبر، شعبۂ اردو ،کنئیرڈ کالج لاہور میں پڑھا گیا)